سیاست دانوں کے بابے

جس روز عائشہ گلالئی انکشافات کر رہی تھیں اور ان کی میڈیا کوریج نئے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا قومی اسمبلی میں انتخاب اور پھر حلف برداری کو مات کر رہی تھی۔ اس کے چند گھنٹے بعد عمران خان پاکپتن میں حضرت بابا فرید گنج شکر کے مزار پر حاضر تھے۔

اس موقع پر تحریکِ انصاف پاکپتن کے ایک مقامی رہنما راؤ ہاشم نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ لگائی کہ جو شخص جوہرِ کامل (بابا فرید) کی درگاہ پر بصد عاجزی حاضر ہو اس پر کسی کو ہراساں کرنے کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔

پاکپتن میں ہی سابق وفاقی وزیر غلام فرید مانیکا کی بہو بشرہ بی بی (پنکی بی بی) بھی رہتی ہیں اور خان صاحب 2015 کے لودھراں (این اے 154) کےضمنی انتخاب کے بعد سے ان کی معتقد ہیں۔ کیونکہ بشریٰ بی بی نے ہی اس الیکشن میں جہانگیر ترین کی فتح کی پیش گوئی کی تھی۔ انھوں نے ہی پاناما کیس کے آخری مرحلے میں خان صاحب کو کسی پہاڑی مقام پر ڈیرے لگانے کا مشورہ دیا اور خان صاحب آٹھ ہزار دو سو فٹ بلند نتھیا گلی کے ریسٹ ہاؤس منتقل ہو گئے اور تب ہی نیچے اترے جب دشمن چاروں شانے چت ہوتا نظر آیا۔

عمران خان کا روحانی طاقت پر اعتقاد نیا نہیں۔ اپنی سنہ 2011 میں شائع ہونے والی کتاب ’پاکستان، اے پرسنل ہسٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ بہت پہلے ساہیوال کے ایک پیر جی نے کہا تھا کہ نہ صرف میں مشہور ہوں گا بلکہ والدہ کا نام بھی روشن کروں گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے کرکٹ سے پہلی بار ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو لاہور کے نزدیک ایک سرحدی گاؤں میں رہنے والے ایک بزرگ بابا جھلا نے کہا کہ ’تو ابھی نہیں گیا، تو انشااللہ ابھی گیم میں ہے۔‘ کتاب میں ایک اور بزرگ میاں بشیر صاحب کا بھی ذکر ہے ۔اگر وہ نہ ہوتے تو شاید میں لیمب بوتھم ہرجانہ کیس میں کنگال ہو چکا ہوتا۔

جب خان صاحب سیاست میں نئے نئے آئے تو اپنے میڈیائی پیر ہارون رشید کے توسط سے پروفیسر رفیق اختر صاحب سے بھی خاصے متاثر رہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی پروفیسر صاحب کی علمیت کے معترف تھے۔ خان صاحب نے کچھ عرصے جاوید احمد غامدی کے فرمودات کی جانب بھی دھیان دیا۔ کہا جاتا کہ 90 کے عشرے میں روزنامہ جنگ میں خان صاحب نے سماجی موضوعات پر جو مضامین لکھے ان میں خورشید احمد ندیم نے بھی بنیادی مدد کی۔

جب آصف زرداری نے صدارت سے سبکدوشی کے بعد اپنے پیر اعجاز شاہ سے التفات کم کیا تو پیر صاحب نے عمران خان سے قریب ہونے کی کوشش کی اور ایک دو بار وزیرِاعظم بننے کی بھی نوید سنائی مگر شاید روحانی معاملہ زیادہ آگے نہیں بڑھ پایا اور عمران خان نے اپنی روحانی گرہ پاکپتن سے باندھے رکھی۔

آصف زرداری بھلے پاکستانی سیاست کے استاد مشہور ہوں مگر ان کے روحانی استاد گوجرانوالہ کے پیر اعجاز شاہ تھے۔ پانچ سال ایوانِ صدر میں بوریا نشین رہے۔ سوئس اکاؤنٹس کیس کے دور میں پیر صاحب نے ایک برس مدینہ میں چلہ کشی کی اور یوسف رضا گیلانی کی قربانی کے بعد لوٹے (حالانکہ گیلانی صاحب بھی سجادہ نشین ہیں)۔ پیر اعجاز شاہ کے ہی حکم پر ایوانِ صدر میں روزانہ ایک بکرے کی قربانی ہوتی تھی۔ بہت سے ملکی و غیر ملکی دوروں میں بھی پیر صاحب صدر کے ساتھ ہوتے تھے۔ یہ فیصلہ بھی پیر صاحب ہی کرتے تھے کہ زرداری صاحب کو کب پانی کے کنارے اور کب پہاڑی علاقے میں رہنا ہے۔

چنانچہ بطور صدر بھی زرداری صاحب نے اچھا خاصا وقت کراچی میں سمندر کے کنارے بلاول ہاؤس میں گزارا (اور دبئی تو خیر ہے ہی ساحل پر)۔ آصف زرداری پہلے سویلین صدر ہیں جو پانچ برس ایوانِ صدر میں خیریت سے مکمل کر کے بحفاظت زمین پر لینڈ کر گئے۔ اب یہ ان کی دنیاوی کرامت ہے یا پیر صاحب کا روحانی چمتکار۔ جس کے جو گمان میں آئے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کا اگرچہ کوئی مستقل پیر تو نہیں تھا مگر انہیں بہت سے بزرگوں سے عقیدت تھی۔ ایک بزرگ رحمت اللہ عرف دیوانہ بابا عرف چھڑی بابا آف دھنکہ شریف آف مانسہرہ تو بی بی کو نواز شریف صاحب سے ترکے میں ملے۔ دیوانہ بابا کے پاس بہت سی سیاسی ہستیاں جاتی تھیں۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جس کو وہ غضب ناک ہو کر اپنی چھڑی مارتے اس کی مراد بر آتی۔ میاں صاحب نے چھڑی بابا کے گاؤں کو ترجیحاً بجلی پہنچائی اور بے نظیر بھٹو نے ان کے آستانے تک سڑک بنوائی اور ہیلی کاپٹر میں بھی بابا جی کی فرمائش پر جھولا دیا۔

ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب بی بی اور آصف زرداری نے امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا تو وائٹ ہاؤس آنے والے پاکستانی وفد میں ایک مختلف حلیے کے پراسرار بزرگ بھی شامل تھے۔ وائٹ ہاؤس کی سیکورٹی انھیں دیکھ کے چکرا گئی (اس وفد میں دیگر کے علاوہ صحافی نجم سیٹھی بھی شامل تھے )

مگر پیر دھنکہ کی چھڑی کی ضرب کے باوجود میاں صاحب اور بی بی صاحبہ کی سیاسی پرواز کبھی بھی ہموار نہیں رہی۔ نگراں وزیرِ اعظم غلام مصطفی جتوئی بھی چھڑی بابا کے مرید تھے۔ آخری عمر میں نگراں وزارتِ عظمیٰ مل گئی ۔پیر صاحب دھنکہ شریف کا 2008 میں وصال ہو گیا۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے چک شہزاد میں ملتانی بابا کے آستانے پر بھی بی بی بہ عقیدت جایا کرتی تھیں۔

18 اکتوبر 2007 کے بعد بی بی نے جب سندھ کا انتخابی دورہ کیا تو ایک تصویر بہت مشہور ہوئی جس میں بی بی قنبر کے حسین شاہ کے سامنے فرش پر بیٹھی ہیں اور حسین شاہ کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ یہ تصویر بی بی کے تو کام نہ آئی البتہ حسین شاہ کا روحانی سکہ چل نکلا۔ اس تصویر کا پس منظر یوں بتایا جاتا ہے کہ بی بی کو پیپلز پارٹی کے ایک مقامی رہنما خورشید جونیجو پیر صاحب کے پاس لے گئے مگر پیر صاحب نے عذر کیا کہ وہ گھٹنوں کی تکلیف کے سبب اٹھ کے استقبال نہیں کر سکیں گے۔ سادہ مزاج بی بی نے یقین کر لیا اور عقیدت میں قالین پر ہی بیٹھ گئیں۔ بعد ازاں جب ممتاز بھٹو پیر صاحب کے پاس آئے تو ان کا گھٹنوں کا درد فرار ہو گیا اور وہ ممتاز بھٹو سے تیر کی طرح سیدھے ملے۔

میاں نواز شریف کا معاملہ یوں ہے کہ ان کی نہ کسی آرمی چیف سے بنی نہ ہی کسی بزرگ سے۔ چھڑی بابا سے ان کی عقیدت مندی کا ذکر ہو چکا۔ مگر 1980 کی دہائی میں شریف خاندان پر سب سے زیادہ روحانی اثر علامہ طاہر القادری کا تھا۔ میاں محمد شریف بھی جواں سال طاہر القادری کے معتقد تھے اور نواز و شہباز شریف بھی حلقہِ اثر میں تھے۔ ایک وڈیو آج بھی یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے جس میں نواز شریف سر پر رومال باندھے نہائیت عقیدت کے ساتھ طاہر القادری کی پلیٹ میں ادلے کی بوٹی ڈال رہے ہیں۔ طاہرالقادری کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب نے اھہیں کندھے پر بٹھا کر خانہ کعبہ کا طواف بھی کروایا۔ اس کے بعد سے اب تک کیا ہوا، یہ بتانا ضروری تو نہیں۔

ضیا الحق تو بذاتِ خود پیرِ کامل تھے اور مرشد ان کا تکیہ کلام بھی تھا جو کم ازکم جنرل فیض علی چشتی کے کسی کام نہ آیا۔ مگر ایبٹ آباد کے ایک بزرگ بابا غلام النصیر چلاسی کے پاس ضیا الحق بہ عقیدت حاضری دیتے تھے۔ دیگر عقیدت مندوں میں اعجاز الحق، حمید گل، سردار مہتاب خان عباسی اور سردار فاروق لغاری بھی شامل تھے۔ نیز مولانا فضل الرحمان کو بھی ان سے خاصی عقیدت ہے۔ بلکہ مولانا صاحب میانوالی میں کندیاں شریف کے خواجہ خان محمد کے ہاں بھی حاضری دیتے رہے ہیں۔حالانکہ مولانا خود بھی صاحبِ حلقہ اور صاحبِ دین و دنیا ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی مرشد تھا۔ اس کی گواہی نہیں ملتی۔ البتہ بھٹو صاحب شہباز قلندر کے معتقد تھے اور اکثر سیہون حاضری دیتے تھے۔ انھوں نے ہی قلندر کے مزار پر سونے کے پانی کا دروازہ بھی لگوایا اور سیاست میں دما دم مست قلندر کی اصطلاح متعارف کروائی۔ جب بھٹو صاحب کال کوٹھڑی میں تھے تو ان کی پہلی اہلیہ امیر بیگم ٹرین کی بوگی بھر کے خواتین کے ساتھ سیہون پہنچیں مگر۔۔۔۔۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنھیں کروڑوں عوام مرکزِ امید سمجھتے ہیں ان کا اپنا مرکزِ امید کہیں اور ہوتا ہے۔

روانہ ہوں میں اک سائے کے پیچھے
میرے پیچھے کوئی سایہ رواں ہے (احمد نوید)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے