فاروق حیدر تنہا کیوں؟

کہتے ہیں “رہنمامشکل میں ہو تو کارکن کندھا پیش کرتے ہیں”۔ حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف پانامہ بھنور میں تھے تو ن لیگ کے کئی رہنما دن رات دفاع کرتے نظر آرئے حتیٰ کہ بعض قربانی کی بھینٹ بھی چڑھے لیکن آزادکشمیر میں اس جملے کابالکل الٹ دیکھنے کو ملا۔

وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدرمشکل گھڑی میں اپنے قائد نواز شریف کے ساتھ وفا نبھانے وفاق چلےلیکن وفا نبھاتے ہوئے پھسل گئے اور سیاسی بھنور میں اس طرح گرے کہ ان کو اپنے وفاداروں کے سہارے کی ضرورت آن پڑی. ایسے میں انہیں بہت سارے ہاتھ لمبے ہوتے نظر آنے چاہیے مگر فاروق حیدر کی قسمت جواب دے گئی.

فاروق حیدر کی طرف سے اسلام آباد میں بڑا سیاسی پنگا لینے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ وزیراعظم کی پشت پر کابینہ سمیت مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے اسمبلی کے ممبران اور پارٹی کے رہنما کھڑے رہیں گے . امید یہ بھی کی جارہی تھی کہ جس طرح طلال چوہدری ، دانیال عزیز ، آصف کرمانی، مریم اورنگزیب اور نہال ہاشمی اپنے قائد کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے اسی طرح آزادکشمیر سے بھی فاروق حیدر کیلئے مختلف رہنماؤں کے وقفے کے بغیر میڈیا ٹاکس، پریس کانفرنسز اور دھمکیاں سننے کو ملیں گیں . امید یہ بھی کی جارہی تھی کہ فاروق حیدر کو نہ سہی وزیر اعظم کے عہدے کا تقدس پامال ہوتے دیکھ کر دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی غیرت جاگ جائے گی. لیکن سب امیدیں امید سے ہی رہ گئیں اور فاروق حیدر ایک ساتھ کئی محاذوں پر تن تنہا لڑتے اور مقابلہ کرتے رہے.

اسلام آباد میں کئی محاذوں پر بیک وقت کھڑے وزیر اعظم کو آزادکشمیر سے ہمدردی کی ایڈ تو دور کی بات کسی نے شاید فون پرخیرت تک نہ پوچھی. لیکن سلام ہو سیاست ، لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کی ماری عوام کو جنہوں نے سوشلستان میں اپنے وزیر اعظم کی بے بسی دیکھ کر اپنا حق ادا کیا. دارالحکومت مظفر آباد سمیت دیگر شہروں میں سول سوسائٹی اور شہریوں کی طرف سے مظاہرے کیے گئے. شیخ رشید اور عمران خان کے پتلے نذر آتش کیے گئے.

دوسری طرف سماجی رابطہ سائٹس پر وزیر اعظم آزادکشمیر کی حمایت میں نہ آنے والے سیاسی بیانات پر سوالات بھی اٹھائے گئے لیکن نہ کابینہ اٹھی اور نہ پارٹی کا کوئی رہنما. الٹا سیامخالفین فاروق حیدر کو الحاق پاکستان کے حوالے سے دیئے گئے مبہم بیان پر نااہل کرانے کے چکر میں دوڑ پڑے . بیرسٹر سلطان اور سردار عتیق سیاسی انتقام کی بھوک مٹانے حدسے آگے گئے پیپلز پارٹی نے بھی ” پہاڑی بکرے” کے قصے کا قصاص مانگ لیا. یوں سیاست بٹی رہی اور اپنے اپنے مفادات کا ریاست کے تقدس اور تشخص پر سیاست کرتے رہے.

راجہ فاروق حیدر بے باک سیاستدان ہیں . دل کی بات زبان پر آنے سے نہیں روک سکتے . بھڑاس بھی خوب نکالتے. صاف گو انسان ہیں . پارٹی اور اپنے قائد سے والہانہ محبت بھی کرتے ہیں. کرسی کا رسیلا نہیں . ایک بار لات مارچکے ہیں. لیکن اس بار ریاست کے سب سے بڑے عہدے کے تقدس کی بات ہے. نہ صرف وزیر اعظم ان کی کابینہ اور رہنماؤں کو فرنٹ فٹ پر آکر جواب دینا چاہیے تھے. ہوا کا رخ دیکھ کر اگرچہ بعد راہ ہمراہ دیکھ کر اراکین اسمبلی اور وزراء آزادکشمیر کے روایتی بیانات اخبارات کے اندرونی پیجز کی زینت بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب عوامی پریشر کا ردعمل ہے. لوگوں نے خاموشی پر سوالات اٹھائے تو خاموشی چیخ پڑی.

میرا سوال اپنے وزراء ، ممبران اسمبلی ، سیاستدانوں اور ہمنواؤں سے ہے کہ اگر فیاض الحسن چوہان عمران خان کیلئے چیخ سکتے تھے ، اگر وہ بلو دی بیلٹ والی باتیں کرسکتے تھے تو کیاآزادکشمیر کے وزراء تہذیب کے دائرے میں رہ کر اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے. سیاسی بقا اپنی جگہ، اسمبلی کی ممبرشپ اپنی جگہ وقت کی تبدیلی اپنی جگہ کیا وزراء اور ممبران کو عوام نے خاموشی کیلئے ووٹ دیئے ہیں. اگر عام شہریوں کے مسیجز پر فیاض الحسن چوہان تھانے پہنچ سکتا ہے کیا سیاستدان انکو معافی نہیں منگواسکتے تھے.

یادرہے ریاست کے تشخص کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے. پاکستان کے ساتھ محبت اٹوٹ ہے لیکن غیرت کو للکارنے والے بھی جواب دینا چاہیے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے