کیا جی ٹی روڈ نواز شریف کیلئے محفوظ ہے ؟

27 دسمبر 2007 کی شام میں اور کیمرا مین سلمان قاضی لیاقت باغ راولپنڈی میں میڈیا کیلئے مخصوص اس ٹرک پر کھڑے، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر کے بعد ان کی واپسی کو کور کر رہے تھے کہ اچانک تین فائر ہوئے اور پھر ایک دھماکے کی آواز آئی .

ہم نے ٹرک سے چھلانگ لگائی اور لیاقت باغ کے سٹیج کے دائیں طرف واقع اس گیٹ کو پھلانگ کر باہر نکلے جسے سیکورٹی کی وجہ سے بند کیا گیا تھا . باہر ہر سمت خون ،بارود کی بو اور انسانی جسموں کے لوتھڑے پڑے ہوئے تھے . اتنے میں کیا دیکھا کہ ایک گاڑی میں فرحت اللہ بابر روانہ ہو رہے تھے . میں نے ان سے بات کرنا چاہی تاہم وہ تیزی میں نکل گئے . میں نے انہیں فون کیا اور ان سے بی بی کے بارے میں پوچھا . انہوں نے کہا کہ بی بی خیریت سے ہیں اور وہ زرداری ہاؤس چلی گئی ہیں . زمرد خان جو اس حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست کیلئے کھڑے تھے ، انہوں نے بھی بے نظیر بھٹو کی بحفاظت واپسی کی یقین دلایا .

یہ جمعے کا دن تھا اور بی بی شہید دوپہر کے وقت سرینا ہوٹل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملی تھیں . باہر آتے ہوئے میں نے ناہید خان صاحبہ سے کہا کہ آپ پیپلز پارٹی کے بیٹ رپورٹرز سے بی بی کی ملاقات تو کروا دیں . اس سے پہلے کہ ناہید خان جواب دیتیں ، بی بی نے ناہید خان صاحبہ سے کہا کہ جلسے کے بعد رات انہیں زرداری ہاؤس بلوا لیں . پھر نہ وہ رات آئی اور ناہی بی بی زرداری ہاؤس آئیں .

ہم دوڑے دوڑے سنٹرل اسپتال پہنچے تو سامنے ابن رضوی پیٹ رہے تھے کہ سب کچھ ختم ہو گیا . جیو نیوز سے تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کیلئے کالز آ رہی تھیں . میں ابن رضوی صاحب سے معلوم ہی نہ کر سکا کہ کیا ہوا ہے کیونکہ فرحت اللہ بابر اور زمرد خان مجھے کنفرم کر چکے تھے کہ بی بی کو کچھ نہیں ہوا اور وہ زرداری ہاؤس چلی گئی ہیں .

میں جیو نیوز پر لائیو حادثے کی تفصیلات بتا رہا تھا کہ اینکر نے مجھے روک کر کہا کہ آپ ہمارے ساتھ لائن پر رہیے ، دوسری طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف ہیں . نواز شریف صاحب نے کہا کہ لیاقت باغ حادثے میں بی بی شہید ہو چکی ہیں . میں نے یہ سن کر ایمرجنسی کی طرف دوڑ لگا دی . ایمرجنسی میں گیا تو شیری رحمان ایک کرسی پر اجڑی ہوئی بیٹھی تھیں . کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا اور آنکھوں میں آنسو ، میں نے ہاتھ ملایا ،خیریت پوچھی ، وہ کیا بولتیں . سامنے فرح ناز اصفہانی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں . میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں ، سبوخ یہ کیا ہو گیا ہے ، سب ختم ہو گیا .

سانسیں حلق میں چبھ رہی تھیں اور گلہ کٹ رہا تھا . لوگوں کا رش بڑھنے لگا . ایمرجنسی دروازے پر گیا ،ناہید خان سامنے کھڑی تھیں . ایمرجنسی میں داخلہ بند تھا . ناہید خان صاحبہ سے میں نے درخواست کی صرف چہرہ دیکھ لینے دیں . ان کا یہ احسان عمر بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے نہ جانے کیا سوچ کر مجھے اجازت دے دی اور میں نے چند سیکنڈز میں بی بی کو دیکھا اور باہر نکل آیا . سچی بات تو یہ ہے کہ میں بی بی کا چہرہ دیکھ ہی نہیں پایا تھا .

باہر نکلا تو سامنے سے نواز شریف صاحب آ رہے تھے . بچوں کی طرح روتے ہوئے، وہ بھی ایمرجنسی میں گئے اور پھر واپس نکل گئے . قیامت کا سا دن تھا . کچھ دن بعد نواز شریف صاحب نے کسی جگہ کہا تھا کہ کاش بی بی سن روف سے باہر نہ نکلتیں . گذشتہ روز میاں نواز شریف جب بہارہ کہو‌ میں سن روف سے باہر نکلے تو مجھے بی بی اور ان کا وہ بیان دونوں یاد آگئے .

میری رائے میں میاں نواز شریف صاحب کو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے شہادت والے واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے جی ٹی روڈ سے لاہور جانے والا پروگرام منسوخ کر دینا چاہیے، یہ تو قاتل کے منہ میں نوالہ بنا کر دینے والی بات ہے ۔

گذشتہ روز بہارہ کہو میں بھی نواز شریف صاحب نے سیکورٹی کے نکتہ نظر سے باہر نکل کر غلط کیا ۔ لیڈر کو عوام سے دور رکھنا مشکل کام ہے لیکن حالات سے آگاہی بھی بہت ضروری ہے . مجھے سیکورٹی کے نکتہ نظر سے آصف علی زرداری کی حکمت عملی بلکل درست لگتی ہے .

بہارہ کہو اسلام آباد کا نواحی علاقہ ہے جہاں اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں . افغان طالبان کے ترجمان اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے جو ذبیح اللہ مجاہد کے نام سے معروف تھے ، انہیں یہاں ہی قتل کیا گیا تھا .

اس کے علاوہ چار سال پہلے یہاں ایک امام بارگاہ پر خود کش حملہ بھی ہو چکا ہے . حیرت کی بات ہے کہ ان کے سیکورٹی ایڈوائزر اس موقع پر کہاں ہیں جب کہ وہ جانتے بھی ہیں کہ یہاں قریب ہی سلمان تاثیر قتل میں عدالت سے سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کا مزار بھی موجود ہے .

نواز شریف کی نااہلی کو مذہبی طبقہ ممتاز قادری کی پھانسی ، لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ کی پولیس "مقابلے” قتل ، سانحہ ماڈل ٹاون سے بھی جوڑتا ہے . عوامی تحریک نے تو وزیر اعظم کا نام ہی قاتل اعظم رکھا ہوا ہے . علامہ طاہر القادری 8 اگست کو لاہور آ رہے ہیں جہاں وہ اپنے کارکنان سے خطاب کریں گے .وہ کیا خطاب کریں گے ،اس کا اندازہ ان کی جماعت کی جانب سے شروع کی گئی مہم سے لگایا جا سکتا ہے . طاہر القادری صاحب صرف خطیب ہی نہیں اپنے کارکنوں کے روحانی مرشد بھی ہیں . ان کا خطاب لاہور کی فضا کو مشتعل بنا سکتا ہے .

تین روز قبل کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے مقتول سربراہ اور رکن قومی اسمبلی مولانا اعظم طارق کے بیٹے مولانا معاویہ اعظم طارق کو رہا کیا گیا . انہیں اسلام آباد کے ایک خفیہ مقام سے ان کی جماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی کے حوالے کیا گیا اور وہ انہیں خود لینے کیلئے گئے .

معاویہ اعظم طارق کو تقریبا دو برس پہلے سندھ کے علاقے ٹنڈو اللہ یار سے اغوا کیا گیا تھا جب وہ ایک اجتماع سے خطاب کےبعد میزبان کے گھر میں موجود تھے . معاویہ اعظم طارق نے بھی رہائی بعد "حیرت انگیز طور” پر اپنے اغوا کا الزام نواز حکومت پر عائد کیا . ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ، اٹھارہ مہینے بعد باہر نکلا تو معلوم ہوا ان کا پورا خاندان ہی نا اہل ہو چکا تھا .

اسی طرح ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد بریلوی مسلک کے افراد میں اشتعال پایا جاتا ہے . اگر چہ پیر امین الحسنات اور ڈاکٹر راغب نعیمی جیسی شخصیات مسلم لیگ ن میں ہیں تاہم آصف اشرف جلالی ، ثروت اعجاز قادری ، پیر افضل حق قادری اور پیر خادم حسین رضوی اور طاہر القادری فیکٹر کو نہیں بھولنا چاہیے . انہوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ ص کے نام سے سیاسی تنظیم بھی بنا لی ہے . سوشل میڈیا پر ان افراد کی نواز شریف کے خلاف تقاریر سنی جا سکتی ہیں .

نواز شریف کی جانب سے ہولی ، بیساکھی اور دیوالی کے تہواروں میں شرکت پر بھی مذہبی طبقے کو اعتراض ہے،خصوصا پاکستان کو لبرل بنانے کے حوالے سے رائیٹ ونگ مذہبی طبقے میں اب ان کے لیے گنجائش کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے .

بات صرف مذہبی عدم برداشت تک ہی محدود نہیں ، سیاسی میدان میں بھی عدم برداشت کا ماحول بڑھتا جا رہا ہے. آپ صرف ایک ماہ کی ٹائم لائن ملاحظہ فرمائیں تو شاید معاملہ مزید حساس لگے .

قومی اسمبلی میں شیخ رشید احمد پر حملے کی کوشش ہو چکی ہے. آپ سوچیں اگر وہاں پولیس بچ بچاو نہ کرتی تو اس وقت حالات کیا ہوتے ؟ شیخ رشید احمد کہہ چکے ہیں کہ ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی تھی . انہوں‌ نے یہ بھی کہا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو شریف خاندان ذمہ دار ہو گا .

دو میڈیا ہاوسسز کے معروف اینکرز ایک ہفتے سے مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عمران خان وزارت عظمیٰ کے انتخاب والے دن پارلیمان میں آ جاتے تو انہیں قتل کر دیا جاتا . ان اینکرز کے مطابق عائشہ گل لالئی کا سکینڈل بھی اسی وجہ سے سامنے لایا گیا تاکہ عمران خان کا اخلاقی اور انتخابی قتل کیا جا سکے . ان کے مطابق عائشہ گل لالئی نے اسمبلی سیشن کے وقت گفتگو کر کے عمران خان اور تحریک انصاف کو پارلیمان میں خراب کرنا تھا اور اس وجہ سے ماحول میں تناؤ اور اشتعال پھیلا کر عمران خان پر حملہ کرایا جا سکتا تھا. عمران خان اس روز اجلاس میں آنے کے بجائے لاہور چلے گئے .

دو روز بعد لال حویلی پر حملہ ہوا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے وہ حملہ آور مسلم لیگ ن کے کارکنان تھے . اسی طرح تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کے دوران ان پر حملہ کیا اور ان کے خلاف گالم گلوچ کی.

میڈیا پر بھی اس وقت آپ کو ایک خاص رنگ میں باقاعدہ پیمائش کر کے کھڑی کی گئی تقسیم دکھائی دیتی ہے . اس ساری ٹائم لائن کو غور سے دیکھنے کے بعد آپ عدالت عظمیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے سمارٹ فون سے سابق آمر جنرل ر پرویز مشرف صاحب کا بی بی سی اردو کو دیا انٹرویو سنیں کیونکہ سمندر میں آئی ایم ای ڈبلیو ای کا ایشو حل ہو گیا ہے .

مجھے ڈر اور خدشہ ہے کہ انتخابات تک کسی بھی سیاسی شخصیت پر حملہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان اب کسی بڑے حادثے کا متحمل نہیں ہو سکتا . ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی ایسا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے ؟ کیا وہ خلا میں رہتی ہے کہ اسے حالات کا علم نہیں ، خصوصا جب آپ کو علم بھی ہو کہ آپ "کیا کرنے” جا رہے ہیں ۔ جب آپ کو علم بھی ہو کہ وہ جو نواز شریف لاہور سے اسلام آباد آیا تھا ، واپس وہ نہیں جا رہا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے