خان صاحب! انقلاب حسنِ اخلاق سے آتا ہے

وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا، موصوف نے آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کرا کے مسلم کانفرنس کی حکومت کو ختم کرادیا، اس کے بعد آزاد کشمیر کے سابق صدر اور مسلم کانفرنس کے قائد سردار عبدالقیوم خان مظفر آباد میں جلسے کے لئے جارہے تھے تو دولائی کمپ کے قریب بھٹو صاحب کی ایما پر مسلم کانفرنس کے قائد سردار قیوم کا راستہ روک دیا گیا، اس وقت سینکڑوں گاڑیوں پر ہزاروں کارکن سردا ر قیوم کے ہمراہ تھے، خوفناک تصادم کا امکان تھا۔

دوسری طرف اسلام آباد میں آپبارہ تھانے کی پولیس نے G-6/2 کیفے ارم سے سردارمحمد عبدالقیوم خان کے چھوٹے بھائی سردار غفار خان کو گرفتار کر کے تھانے میں بند کر دیا تھا۔

ایسے میں برطانیہ کے صحافی مارک ٹیلی مظفر آباد جانے کے لئے دولائی کمپ کے مقام پر رُکے اور سردار عبدالقیوم سے انٹر ویو لیا کہ ایسے حالات میں آپ کے کیا خیا لات اور جذبات ہیں تو مجاہد اول نے کہا کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ ۔[1]

اس واقعے کے بیان کا مقصد یہ یاد دلانا تھا کہ ماضی میں بھی پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے درمیان تناو پیدا ہوتا رہا ہے لیکن کبھی بھی اس سے مراد الحاق پاکستان سے عقب نشینی نہیں لی گئی اور نہ ہی کبھی کشمیریوں کے بارے میں عمران خان ، فیاض الحسن چوہان اور شیخ رشید جیسی زبان استعمال کی گئی۔

شیخ رشید دوسروں کے بارے میں جوزبان استعمال کرنے میں مشہور ہیں اور اسی طرح عمران خان نے جس طرح آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو ذلیل شخص کہا ہے یا فیاض الحسن چوہان نے جو زبان استعمال کی ہے وہ کسی بھی طور پر پاکستانی قوم کا اخلاق نہیں۔

شاید جہالت کی وادیوں میں اسے بہادری اور شجاعت کی علامت سمجھا جاتا ہو لیکن آج کی مہذب اور پڑھی لکھی دنیا میں گالی گلوچ اور رکیک الفاظ کے استعمال کو اخلاقی پستی کی علامت ہی سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستانی میڈیا میں بھی کسی زمانے میں احساس ذمہ داری پایا جاتا تھا اور مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن اب محض ایک خبر کی سرخی کو اچھی طرح جمانے اور چمکانے کے لئے آزاد کشمیر کے وزراعظم کے بیان کو اس طرح پیش کیا گیا تاکہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان دوریاں اور فاصلے پیدا ہوں۔

پیشہ وارانہ اور نظریاتی صحافت کا تقاضا یہ تھا کہ اگر کوئی ایسی بات صحافیوں کے نوٹس میں آئی بھی تھی تو فورا وزیراعظم آزاد کشمیر سے اس بارے میں پوچھ کر بیان کو نظریہ پاکستان کے عین مطابق ڈھالنا چاہیے تھا۔چلیں بیان اگر غلط سلط چھپ بھی گیا تو بعدازاں پھر جب وزیراعظم آزاد کشمیر نے اس بیان کی تردید کر دی تھی تو اس تردید کو مزید منفی انداز میں ڈھال کر موضوع بحث بنانا پاکستان اور نظریہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ ہمکاری اور پاکستان کے ساتھ کھلی غداری ہے۔

بلا شبہ ان جھوٹی اور غلط بیان بازیوں نے بھارت سمیت پاکستان کے ہر دشمن کی حوصلہ افزائی اور کشمیریوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کے کشمیر کے بارے میں مقدس جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔

جو کام کئی دہائیوں سے بھارت اور اسرائیل نہیں کر سکے تھے وہ ہماری زرد صحافت نے ان چند روز میں کر دکھایا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستانی اور کشمیری کے تعصب کو ہرممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمیں ہر صورت میں آپس میں نرم اور دشمنوں کے خلاف سخت ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہم یہاں پر اپنے قارئین کو یہ احساس دلانا چاہیں گے کہ اس وقت عمران خان پورے پاکستان کی نمائندگی نہیں کر رہے ، ان کی پارٹی اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں کی نازیبا باتوں کی بنیاد پر پورے پاکستان کو اپنا دشمن سمجھنا یا کہنا کسی بھی طور پر دانشمندی نہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیری پاکستان سے محبت کو اپنے وطن سے محبت سمجھتے ہیں

صحافت کے علمبرداروں سے ہماری دردمندانہ اپیل ہے کہ اخبارات اور چینلز کی سرخیاں چلانے اورصحافت کے جوہر دکھانے کے چکرمیں کشمیریوں کو گالیاں دے کر، نازیبا الفاظ استعمال کر کے زبردستی دھکیل کر پاکستان اور نظریہ پاکستان سے دور نہ کیا جائے۔

یہ آنے والا وقت سب پر ثابت کر دے گا کہ پی ٹی آئی نے نواز شریف کو وزارت عظمی سے ہٹا کر اتنی مقبولیت حاصل نہیں کی تھی جتنی کشمیریوں سے بد اخلاقی کر کے نفرت سمیٹی ہے۔

اب پی ٹی آئی کو اس نقصان کے ازالے کے لئے ایک پارٹی کے طور پر شیخ رشید کو ااپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے اور مخالفین کے ساتھ شیخ رشید کی طرح برتاو کرنے کے بجائے اب اپنے اندر سیاسی تہذیب اور شائستگی لانی چاہیے۔

تنظیموں، تحریکوں اور پارٹیوں کی تاریخ کا خلاصہ یہی ہے کہ حقیقی تبدیلی اور سچا انقلاب حسنِ اخلاق سے آتا ہے ، گالیوں اور بد زبانی سے نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے