محمد نواز شریف سے ملیں (دوسری اور آخری قسط)

جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ محمدنواز شریف کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو ہر ایک کو عزت و تکریم سے ملتے ہیں میاں صاحب میں خصوصاً ایک خوئےدل نوازی ہے کہ ان کا مخالف بھی اگر ایک دفعہ ان سے مل لے تو اس کے دل میں اگر اور کچھ نہیں تو ان کی شرافت اور وضعداری کا ایک نقش ضرور دل پر بیٹھ جاتا ہے۔ میاں صاحب جب جاتی امراء میں اپنے دس بارہ احباب کو کھانے پر بلاتے ہیں تو وزیر اعظم ہوں یا نہ ہوں وہ کچھ دیر کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں کہ کہیں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی اس کے بعد اپنے ہاتھ سے احباب کی پلیٹوں میں اشیائے خوردنوش ڈالتے رہتے ہیں ان لمحوں میں ان کی ساری توجہ مہمانوں پر ہوتی ہے جب پوری طرح مطمئن ہو جاتے ہیں تو پھر خود کھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔

میاں صاحب کے متعلق یہ افواہ اڑائی گئی کہ ان کو سری پائےبہت پسند ہیں جو حقیقت کے منافی ہے ان کی پسندیدہ ڈش پلائو ہے ، آلو گوشت ہے ، مچھلی بھی شوق سے کھاتے ہیں مگر یہ فارمی نہیں ہونی چاہئے۔ ایک دفعہ میں نے انہیں اپنے گھر پر کھانے پر مدعو کیا مجید نظامی مرحوم اور دوسرے اکابرین بھی وہاں موجود تھے مجھے علم تھا کہ وہ دریائی مچھلی پسند کرتے ہیں اور مجھے اس کی پہچان نہیں تھی میں نے ایک ’’کھابہ گیر‘‘ دوست سے دریائی مچھلی تلاش کرکے لانے کو کہا جب میاں صاحب ابلے ہوئے چاولوں (جسے ہم کشمیری بتاکہتے ہیں ) کے ساتھ مچھلی ساگ کھا رہے تھے آپ بھی کمبینیشن پر حیران نہ ہوں ’’امبرسری ‘‘ گھرانوں میں یہ ڈش بہت مقبول ہے اس دوران میاں صاحب کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا مچھلی واقعی دریائی ہے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ ثبات میں سر ہلایا بلکہ تین چار منٹ تک دریائی مچھلی کی نشانیاں بھی بتائیںمیں نے دیسی مچھلی کے اس ’’تفصیلی خاکے‘‘ کو بہت انجوائے کیا اور میں نے سوچا کہ جس بندے کو دیسی مچھلی تک کے اصلی اور نقلی ہونے کی پہچان ہے اسے یقینی طور پر انسانوں کی پہچان بھی ہے وہ کہیں کہیں غلطی کر جاتے ہیں مگر مجموعی طور پر انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ کس ’’ماحول‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔دریا کے تھپیڑے کھانا جانتا ہے یا فارم ہائوس میں پل کر وقت سے پہلے پلا بڑھا ہے اور یہ دریا کے تھپیڑوں سے آشنا نہیں ہے اور اس میں ان کی ہمت بھی نہیں ہے ۔

مجید نظامی مرحوم و مغفور کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ یہ خبر سنتے ہی دونوں بھائی قریبی عزیزوں کی طرح ان کی رہائش گاہ پر پہنچ چکےتھے جب ابھی کوئی بھی نہیں پہنچا تھا نہ صرف یہ کہ نماز جنازہ میں شریک ہوئے بلکہ قبرستان تک بھی گئے اور تدفین تک وہیں رہے اسی طرح قلوں میں بھی عام لوگوں کی طرح شرکت کی حالانکہ مجید نظامی مرحوم نے اپنی زندگی میں ان کے بارے میں کچھ درشت جملے بھی پبلک جلسے میں کہے تھے لیکن ان بھائیوں کو علم تھا کہ ان کے و الد مرحوم و مغفور اور مجید نظامی مرحوم و مغفور کے درمیان باہمی تعلقات کتنے مضبوط تھے اور انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کو کہہ رکھا تھا کہ مجید صاحب کی عزت و تکریم میں کوئی کسر نہ رکھنا! نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بہت بذلہ سنج بھی ہیں شہباز شریف پبلک میں ’’سوبر ‘‘ بنے رہتے ہیں جبکہ نواز شریف صاحب کو اگر اچھا شستہ جملہ سوجھ جائے تو پھر وہ موقع محل کا خیال بھی نہیں رکھتے یہ عادت میری بھی ہے میرے دوست مظہرالاسلام نے ایک دفعہ کہا تھا کہ عطا کو اگر کوئی جملہ سوجھ جائے تو وہ جملہ ضائع نہیں کرتا ۔

بندہ ضائع کر دیتا ہے بس مجھ میں اور میاں صاحب میں فرق یہ ہے کہ وہ بندہ ضائع نہیں کرتے، سانپ بھی مار دیتے ہیں اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹنے دیتے ۔ میرے کچھ عزیز دوست نواز شریف صاحب کو طنزاً بادشاہ سلامت کہتے ہیں اور اس بادشاہ سلامت کی ’’بادشاہ سلامتی ‘‘ کا یہ عالم ہے کہ میں نے اپنے کالموں میں ان کی خیر خواہی میں کچھ ایسے مشورے دیئے جس سے کچھ لوگوں نے انہیں یہ تاثر دیا کہ قاسمی اس سے خفا لگتا ہے ۔ایک دن مجھے وزیر اعظم نواز شریف کا فون آیا کہ آپ کہاں ہیں میں نے بتایا کہ اپنے ادبی پرچےکے دفتر میں ہوں۔

جہاں آپ سے چند صحافی دوستوں سے میں نے آپ کی ملاقات کی تھی کہنے لگے ’’میں تین بجے آپ کی طرف آ رہا ہوں‘‘ میرے لئے یہ بہت خوشی کی بات تھی کہ کافی عرصے سے ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ( جس طرح آج بھی ان سے ملاقات کو تین چار مہینے ہو چکے ہیں ،اس طرح کے جملے کو ’’حسن طلب ‘‘ کہتے ہیں ) میں آرام سے اپنے دفتر میں بیٹھا لکھنے پڑھنے کا کام کرتا رہا میرا خیال تھا کہ پہلے سارجنٹ آئے گا پھر پروٹوکول والے آئیں گے پھر باہرسے سائرن کی آواز آئے گی اور سائرن سن کر میں باہر نکل کر ان کا استقبال کروں گا مگر میں نے دیکھا کہ ٹھیک تین بجے میرے دفتر کا دروازہ کھلا اور وزیر اعظم (یعنی بادشاہ سلامت ) میرے سامنے کھڑے تھے میں نے اپنی سیٹ ان کے لئے خالی کی اور کہا آپ یہاں تشریف رکھیں۔بولے ’’نہیں آپ وہیں بیٹھیں گے اور میں آپ کے سامنے ملاقاتیوں والی نشست پر بیٹھوں گا ‘‘ اور اس کے بعد وہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک بیٹھے گپ شپ کرتے رہے میں ان سے سیاسی گفتگو نہیں کیا کرتا کہ انہوں نے کون سی کوئی ’’وچلی گل‘‘ مجھے بتا دینی ہوتی ہے انہوں نے شکیل سے کچھ کہنا تھا میں اٹھ کر اسے بلانے جانے لگا تو کہا آپ بیٹھے رہیں اورخود اٹھ کر باہر چلے گئے اور دوبارہ میرے ساتھ آن بیٹھے ان کے جانے کے بعد مچھے پتہ چلا کہ وہ بالکل اکیلے گاڑی خودچلا کر آئے تھے اور رستے میں سرخ سگنل پر رکتے بھی رہے تھے ۔

ایسی ایک ہزار باتیں ہیں جو عجزو انکسار کےاس پیکر کے بارے میں بتانے کی ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اس لئے زندہ ہے کہ وہ لوگوں میں سے ہی ہے ۔وہ انہی قدروں کا حامل ہے جس پر ہمیں فخر ہے ۔وہ چوک دالگراں کے اپنے ہمسایوں اور وہاں کے دکانداروں، بچپن کے دوستوں اور کالج کے کولیگز کو نہیں بھولا وہ پاکستان کا عاشق ہے اور یہی عشق اسے ہر قسم کے خطرات مول لینے کا محرک بنتا ہے اب وہ نظریات کے ایک نئے فیز میں داخل ہو چکا ہے مگر یہ نظریات پاکستان اور اسلام کو بہتر طور پر سمجھنے میں اس کے مددگار ثابت ہوئے ہیں وہ پاکستان کا ایک بہت بڑا ASSETہے ہم نے اسے ضائع نہیں ہونے دینا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے