میاں نواز شریف کا مخمصہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے گزشتہ روز پنجاب ہائوس میں ڈیڑھ درجن کے قریب ٹی وی اینکرز کو اپنا دکھڑا سنانے کے لئے پنجاب ہائوس مدعو کیا تھا۔ مجھے تقریبا دو سال کے وقفے کے بعد میاں محمد نوازشریف کو بالمشافہ سننے کا موقع ملا۔ سی پیک اور دیگر قومی معاملات پر تنقید کی وجہ سے میں بھی ان مغضوب صحافیوں کی صف میں شامل ہوگیا تھا جن پر وزیراعظم ہائوس کے درازے بندتھے۔ پنجاب ہائوس میں منعقدہ اس نشست میں میاں محمد نوازشریف نے اپنی نااہلی کا پس منظر تفصیل سے بیان کیا۔ کم و بیش وہی دلائل دے رہے تھے جو فیصلے کے بعد وہ اپنی تقریروں میں دے چکے ہیں۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر بے قصور سمجھتے ہیں۔ وہ اسے اپنا اعزاز سمجھتے ہیں کہ لمبے عرصے تک حکمران رہنے کے باوجود ان کو کرپشن یا سرکاری وسائل کے ضیاع کے معاملے میں سزا نہیںہوئی بلکہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں ان کو سزا سنائی گئی۔ وہ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آف شور اکائونٹس کے معاملے میں انہوں نے یا ان کے بیٹوں نے کوئی غلطی کی ہے ، دبئی اقامہ کے سلسلے میں کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے یا پھر جے آئی ٹی میں پیروی کے دوران ان کی پالیسی درست نہیں تھی۔

وہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کی رخصتی کا فیصلہ کسی اور وجہ سے ہوگیا تھا اور عدالتی فیصلے کو ذریعہ بنایا گیا ہے۔ وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پانامہ ایک بہانہ تھا اور وہ نشانہ تھے۔ دو گھنٹے کی اس نشست میں انہوںنے تھوڑا سا وقت عدالتی کارروائی ، فیصلے اور جے آئی ٹی سے متعلق اپنا موقف واضح کرنے پر صرف کیا لیکن پھر وہ زیادہ تر ماضی میں وزرائے اعظم کی رخصتی اور خود اپنے اور اداروں کے باہمی تعلقات کا تذکرہ کرتے رہے۔ کبھی وہ بھٹو کی مثال دیتے ہیں تو کبھی جنرل راحیل شریف کے ساتھ تعلقات کار کا حوالہ دیتے ہیں۔ کبھی جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کی مثال دیتے ہیں تو کبھی عدالت میں پیش ہوئے بغیر ان کی بیرون ملک روانگی کا تذکرہ لے آتے ہیں۔ وہ عمران خان کے 2014 کے دھرنوں ، 2016کے لاک ڈائون اور 2017کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک ہی سلسلے کی کڑیاں سمجھتے ہیں۔

درست یا غلط لیکن وہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کو بطور وزیراعظم اپنی بحالی نہیں چاہئے بلکہ اب وہ سویلین کی بالادستی چاہتے ہیں۔ وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ اب باقی زندگی وہ اس مقصد کے لئے لڑتے ہوئے صرف کریں گے اور اس خاطر دیگر سیاسی قوتوں کو بھی اکٹھا کریں گے۔ انہیں ایک بار پھر میثاق جمہوریت کی یاد آگئی ہے اور وہ اسے تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ مزید موثر اور ہمہ گیر بنانے کے بھی متمنی ہیں۔اس نشست میں تو میاں صاحب نے اس نئے سوشل کنٹریکٹ کی بھی بات کی جس کا مطالبہ آج سے کئی سال قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا تھا اور جس پر میں ماضی میں مختلف اوقات میں کئی مرتبہ کالم لکھ چکا ہوں(تب میاں صاحب ان باتوں کو بے کار اور فضول سمجھتے تھے)۔ ایک صحافی نے جب جی ٹی روڈ پر سفر کی صورت میں ان کی زندگی کو لاحق خطرات کا حوالہ دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کسی کو تو رسک لینا ہوگا اور یوں وہ یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ اس معاملے میں وہ زندگی کی قربانی دینے کو بھی تیار ہیں۔ میاں صاحب یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں ، گزشتہ چار سال انہوںنے نہایت جبر کے عالم میں گزارے ہیں اور یہ کہ وقت آنے پر وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کریں گے لیکن پھر جب ان سے دھرنوں ، پرویز مشرف کے کیس ، جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور پانامہ کیس میں خفیہ اداروں کے کردار وغیرہ سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو جواب دینے کی بجائے بات کو مذاق میں ٹال دیتے ہیں ، موضوع بدل لیتے ہیں یا پھر میں اس پر ابھی بات نہیں کرتا، کہہ کر معذرت کرلیتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن جب ان سے تفصیل مانگی جاتی ہے تو وہ جواب نہیں دیتے۔ وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے خلاف جو کچھ ہوا وہ ایک سازش تھی اور مخاطب کے ذہن میں یہ بھی بٹھانا چاہتے ہیں کہ سازش اسٹیبلشمنٹ ہی نے کی لیکن سازش کی تفصیل بتاتے ہیں اور نہ نام سامنے لاتے ہیں۔ وہ تاثر یہ دیتے ہیں کہ کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے اور عوامی قوت کے ساتھ لڑیں گے لیکن جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا انہوںنے ٹکرائو کا فیصلہ کیا ہے تو جواب میں انتہائی معصوم اور شریف بن کر بتانے لگ جاتے ہیں کہ ہم ٹکرائو نہیں چاہتے اور اسی لئے شرافت کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا۔

نشست میں موجود خواتین و حضرات اینکرز نے ہر طرح کے سوالات کئے اور مختلف زاویوں سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ میاں صاحب شف شف کرنے کی بجائے شفتالو بولیں لیکن وہ شفتالو کا لفظ منہ پر لانے پر آمادہ ہیں اور نہ شف شف سے باز آنے پر۔سچی بات یہ ہے کہ میرے لئے میاں صاحب کا یہ رویہ بڑا تکلیف دہ تھا اور یقیناً ا ن لوگوں کے لئے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگا جن کو وہ پیغام دینا چاہتے ہیں۔ میں تو اس فلسفے کا قائل ہوں کہ انسان یا تو شفتالو کہنے کی جرات اپنے اندر پیدا کرے اور یا پھر شف شف بھی نہ کرے لیکن چونکہ فیصلے کے بعد چند دن کے وقفے کے بعد میاں صاحب ایک بار پھر غیرسیاسی مشیروں کے اس ٹولے کے نرغے میں آگئے جن کی زندگی مکر اور منافقت سے عبارت ہے ، اس لئے وہ میاں صاحب کو یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ پاکستان کے طیب اردوان ہیں۔ حالانکہ ذاتی دوستی اپنی جگہ لیکن طیب اردوان اور میاں صاحب میں رتی بھر مماثلت ہے اور نہ پاکستان اور ترکی کے حالات ایک جیسے ہیں۔ طیب اردوان کی جیب میں میاں صاحب کی طرح کے کھوٹے سکے نہیں اور نہ ان کی اخلاقی پوزیشن اتنی کمزور ہے جتنی کہ میاں صاحب کی ہوگئی ہے۔ طیب اردوان کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ اپنی پارٹی معطل کرکے مکار خوشامدیوں میں گھر جاتے ہوں اور اقتدار سے محرومی کے بعد ان کو پھر پارٹی اور جمہوریت پسند یاد آتے ہوں۔طیب اردوان کو تقریر لکھنے کے لئے کسی صاحب عرفان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ خود صاحب علم اور دانشور ہیں۔ تقریر نویس میاں صاحب کو شف شف پر مشتمل تقریر تو لکھوادیتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بتاتے کہ طیب اردوان شف شف نہیں کرتے بلکہ وہ شفتالو کو شفتالو کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ میں اینکرز کے ساتھ میاں نوازشریف کا مکالمہ سن کر اس سوچ میں گم تھا کہ اس ملک اور اس شخص کا کیا بنے گا۔میاں صاحب تقریب کے شرکاء اینکرز اور میڈیا سے مطالبہ کررہے تھے کہ وہ بھی اس جنگ میں ان کا ساتھ دیں لیکن میں نے تو انتہائی ادب کے ساتھ معذرت کردی کہ میں اس مبینہ جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔

شریفوں کی حکومت کی شریف وزیراطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ میری نشست کے پیچھے والی نشست پر تشریف فرماتھیں۔ دو مرتبہ انہوںنے مجھے ترغیب دی کہ کوئی بات کروں لیکن خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ نشست کے اختتام پر ایک سینئر صحافی نے مطالبہ کیا کہ سلیم صافی کو بھی کچھ بولنا چاہئے جس پر خود میاں صاحب نے بھی مجھ سے کچھ بولنے کو کہا لیکن جواب میں عرض کیا کہ میاں صاحب !یہ بڑوں کی لڑائیاں ہیں ، اس میں مجھ جیسے چھوٹے انسانوں کا کیا کام۔ ہم نے گزارہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ یوں یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔ نشست کے اختتام پر محترمہ مریم نواز صاحبہ نے مجھے ٹھہرا دیا۔ ان سے چار سال کے وقفے کے بعد تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اپنے والد صاحب کو سمجھادیں کہ تصادم اور ٹکرائو سے گریز کریں۔ ہماری طرح گزارہ کرنا سیکھ لیں۔ اس میں ان کی بھی بھلائی ہے اور ملک کی بھی۔ تصادم اور ٹکرائو ملک کے لئے بھی خطرناک ہے اور خود آپ لوگوں کے لئے بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے