نواز شریف کانعرہ مستانہ

نواز شریف نے نعرہ مستانہ اس وقت بلند کیا ہے جب ان کے پاس کچھ نہیں رہا۔ ۔سپریم کورٹ سے نااہل قراردیئے جانے کے بعد ان کی سیاست قصہ پارینہ بن چکی ہے۔۔کسی کو یقین نہ آئے تو اسلام آباد سے لاہور روانگی کا سفر دیکھ لیں۔۔۔پارٹی کی سینئر رہنماوں کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر اور باغیانہ لہجہ چراغ کے اس شعلے کی مانند ہے جو بجھنے سے قبل تیز لو دیتاہے۔۔۔۔ریلی میں چوہدری نثار ، خواجہ آصف، سردار مہتاب، شہباز شریف، حمزہ شریف، اسحاق ڈار ،رانا تنویر،صابرشاہ، سمیت بلوچستان سے بھی کوئی قابل ذکر نام موجود نہیں۔۔۔۔۔شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے مشیروں کو فارغ کرنے کا مشورہ ایویں ہی نہیں دیا۔۔۔
نوازشریف کے نقاد انھیں آمریت کی پیداوار کا طعنہ دیتے ہیں۔۔۔ سیاست میں جب نواز شریف کی آمد ہوئی تب جمہوریت کی نہیف سی آواز بھی بلند کرنے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔اس زمانے میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے قریب ہونے کو معتبر سمجھا جاتا تھا۔۔۔ پنجاب کے وزیر خزانہ ، پھر وزیراعلیٰ بننے تک کا سفرسیاسی ناپختگی کہی جاسکتی ہے۔۔۔ اس پر بحث نہیں کرتے آگے چلتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔1988میں وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہونے والی بے نظیر بھٹو کو جب غلام اسحق خان نے بیس مہینے بعد اٹھاون ٹو بی کے تحت معزول کیا تو نئے الیکشن کیلئے بننے والے اتحاد کی بنیاد کہاں رکھی گئی اس کی وضاحت ضروری نہیں۔۔۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی سیڑھی سے جب نواز شریف 1990میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تو ان کے قریب آئین و قانون کی بالا دستی کی بات ایسے ہی تھی جیسے ضیاء الحق نے کہہ دیا تھا کہ آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہو تاہے۔۔۔ خود نواز شریف کی حکومت کو بھی غلام اسحاق خان نے ہی چلتا کیا۔۔۔ الزامات وہی محترمہ بے نظیر بھٹو والے تھے۔۔۔
سترہ دن کی عدالتی جنگ کے بعد جب اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں بنچ نے وزیراعظم نواز شریف کو بحال کیا تو بیل پھر بھی منڈے نہ چڑھی۔۔۔۔۔کچھ ہی عرصہ بعد وزیراعظم اور صدر دونوں کو سٹپ ڈاون کرنا پڑا۔۔۔۔۔اس وقت بھی قوم سے خطاب میں نواز شریف نے بڑی جذباتی تقریر کی تھی ۔۔۔ کہہ رہے تھے ان کا سینہ رازوں سے بھرا پڑا ہے۔۔۔۔ یعنی انھیں بہت سی ایسی باتوں کا پتہ تھا جو آئین و قانون سے بالا تر ہوئیں تھیں۔۔۔۔لیکن نواز شریف نے پھر بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔۔۔ بے نظیر کی دوسری بار حکومت ختم ہوئی تو نوازشریف نے جمہوریت کی حمایت کا ایک بول بھی نہیں بولا۔۔۔ بلکہ اس اقدام کو سراہا گیا۔۔
جب نواز شریف کی دوسری بار حکومت ختم ہوئی تب انھیں اس کی بڑی قیمت بھی چکانا پڑی۔۔۔ قید بھی ہوئے۔۔ پرویز مشرف سے معاہدہ کرکے پوری شریف فیملی جد ہ منتقل ہو گئی۔۔۔ ایک بار راولپنڈی ایئر پورٹ تک واپس اس زعم میں آ گئے تھے کہ انھیں عوام کی حمایت حاصل ہے۔۔۔انھیں مایوس لوٹنا پڑا۔۔۔ پچاس لوگ بھی ایئر پورٹ پرجمع نہ ہو سکے۔۔۔۔۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدپیپلز پارٹی کی حکومت بنی ۔۔۔یوسف رضا گیلانی سوئس حکومت کو بینکوں میں پڑے منی لانڈرنگ کے پیسوں کیلئے خط نہ لکھنے پر وزارت اعظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔
یہ نواز شریف ہی تھے جو للکا ر لککار کر کہا کرتے تھے کہ جب تک آپ کے خلاف عدالتی کارروائی ہو رہی ہے آپ وزیراعظم کے عہدہ سے
الگ ہو جاو۔۔۔ عدالت کے فیصلہ پر پیپلز پارٹی کی تنقید بھی آپ برداشت نہیں کرتے تھے۔۔۔۔ کہا کرتے تھے کہ آپ عدالتی فیصلہ کو غلط نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔آپ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کسی وزیراعظم کو اتارنے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ آئین و قانون کی بالا دستی آپ کے نزدیک یہی تھی کہ قانون کے شکنجہ میں آ یا شخص اب بچ کر نہ نکلنے پائے۔۔۔۔اس کے بعد راجہ پرویز اشرف بھی آپ کے تند و تیزباونسرز کا نشانہ بنتے رہے۔۔۔۔۔
اس دوران اصغر خان کیس کاسپریم کورٹ سے آنے والا فیصلہ باقیوں کی طرح آپ کیلئے بھی لمحہ فکریہ اور آپ کی قانون و آئین کی بالا دستی کے موقف کی نفی کرتا ہوا نظر آتاہے۔۔۔۔۔ حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا ۔۔۔ 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر انتخابات میں اکثریت حاصل کی ۔۔۔ آپ نے 28نشستیں ملنے پر ہی ماڈل ٹاون کی بالکونی میں آ کر فتح کااعلان کردیا۔۔۔ اور قوم کاشکریہ ادا کیا۔۔۔۔ بعد میں نتائج کا بہاو ایسے مسلم لیگ ن کی طرف ہوگیا جیسے پانی نشیبی علاقے میں بہنا شروع کردیتا ہے۔۔۔

آپ نے تیسری مرتبہ جب حکومت سنبھالی تو توقع کی جارہی تھی کہ اب کی بار آپ آئین اور قانون کی بالادستی کو ملحوظ خاطر بھی رکھیں گے اور آپ اورآپ کی کابینہ کے لہجوں میں عوامی حکومت کا رنگ نمایا ں ہوگا۔۔۔نہیں صاحب ۔۔۔ آپ نے معاملا الٹا کردکھایا۔۔ بڑے بڑے فیصلے آپ خود کرتے تھے۔۔۔ پارلیمنٹ کو پتہ بھی نہیں ہوتاتھا۔۔۔اسحاق ڈار ، خواجہ سعد رفیق ، عابد شیر علی اور کئی دیگر جوشیلے وزراء سخت سوال کرنے پر صحافیوں سے الجھ پڑتے۔۔ اپوزیشن کے گلے پڑ جاتے ۔۔۔آپ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دینا چھوڑ دی۔۔ ۔ سینٹ میں تو جاتے ہی نہیں تھے۔۔۔ اپوزیشن کی بہت کوششوں کے بعد آپ نے سینٹ کو ملاقات کاشرف بخشا۔۔۔۔
وزیراعظم نوازشریف کے دور میں ہی پی ٹی آئی نے انتخابات میں دھاندلی دھاندلی کا شور مچایا۔۔۔۔ صرف چار حلقے کھولنے اور پارلیمنٹ کے زریعے تحقیقات کامطالبہ کیا۔۔۔ آپ نے اس مطالبے کو جمہوری انداز سمجھ کر ماننے کی بجائے ۔۔۔ اپنی انا کا مسلہ بنا دیا۔۔۔ دھرنا اسی انا پرستی کے کوک سے جنم پایا۔۔ ایک بار جب نوبت یہاں تک آگئی کہ تھی عمران خان اور طاہرالقادری کی آرمی چیف سے ملاقاتیں ہوئیں تو لوگ حکومت ختم ہونے کیلئے کاونٹ ڈاون پرلگ گے تھے ۔۔۔۔ حکومت اب گئی کہ گئی۔۔۔۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی لیکن جمہوریت کے تسلسل کی خاطر آپ کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔۔
پوری قوم کی تنقید برداشت کرتے رہے لیکن آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے۔۔۔ پولیٹیکل سائنس کا طالب علم اس کی اہمیت سمجھ سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کتنا بڑا سٹپ لیا۔۔۔۔ ورنہ آپ کی طرح ہوتے تو دوسری پارٹی سے ملتے اور آپ کو چلتا کردیتے۔۔ دھرنا سانحہ اے پی ایس کے بعد ختم ہو گیا۔۔۔ پی ٹی آئی کنٹینر سے اتری اور پارلیمنٹ میں واپس چلی گئی۔۔۔۔ آپ وہاں موجود تھے۔۔ آپ کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ واپسی پر انھیں گھر سے بھاگے بچوں کی طرح لتاڑا۔۔۔ بے عذتی کی۔۔ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔۔۔۔ میرا منہ کیا دیکھتے ہو بے شرمو۔۔۔۔ ایسے ایسے الفاظ کہے ۔۔۔ آپ نے روکا نہیں بلکہ زیر لب مسکراتے رہے۔۔
نوازشریف صاحب ! پی ٹی آئی کا واپس پارلیمنٹ آ جانا آپ کی ہی جیت اور جمہوریت کا حسن تھا ۔۔۔ لیکن آپ نے اور آپ کی ٹیم نے اسے تسلیم نہیں کیا۔۔۔ کاش آپ اپنے لہجوں سے ثابت کرتے کہ آپ جمہوریت، قانون اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔پھر جب پانامہ کامعاملا آیا تب بھی آپ کے پاس موقع تھا۔۔۔۔ آپ تدبر سے اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرتے ۔۔ ان کو مطمئن کرتے مگر آپ کے مشیروں نے آپ کو مقابلے کا مشورہ دیا۔۔۔۔سپریم کورٹ کی سماعت اور جے آئی ٹی کی انکوائری میں آپ کی نئی ٹیم جسے مریم نواز صاحبہ کی ٹیم کہا جاتاہے ۔۔۔ جے آئی ٹی کی ہر انکوائری کے بعد کیسے الفاظ استعمال کرتی تھی؟
1990سے2017تک صرف ایک بار آپ جمہوری اقدار کیلئے سنجیدہ دکھائی دیئے ۔۔ وہ لندن میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کے ساتھ مثیاق جمہوریت کا معاہدہ تھا۔۔ ۔ آپ کو بار بارموقعے ملتے رہے آپ بار بار موقعے گنواتے رہے۔۔۔آپ آئین و قانون کی بالادستی کیلئے سنجیدہ ہوتے تو سب جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلتے۔۔۔پاکستان میں شاید آپ ہی قد آور سیاستدان تھے جو تدبر اور دانشمندی سے یہ ہدف حاصل کرسکتے تھے۔۔۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے عذت دی۔۔۔ ایٹمی طاقت بننے کا سہرا آپ کے سر بندھا گیا۔۔۔آپ کرسی پر بیٹھتے ہی ہر بار مصلحت کا شکار ہوتے رہے۔۔۔
اب یہ عالم ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات پر آپ کی اپنی پارٹی کے سینئر رہنما آپ کے ساتھ،،،، سیم پیج ،،،پر نہیں ہیں۔۔جن لوگوں کو آج آپ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ آپ کو ججوں نے کسی اشارے پر نکال دیا ہے۔۔۔ یہ غریب عوا م تو کجا ارکان پارلیمنٹ تک کو آپ سے ملاقات نصیب نہیں ہوتی تھی۔۔ ۔ آپ نے ہر شعبہ میں گروپ بنا لیا تھا جو آپ کو آسانیاں فراہم کرتا رہا۔۔۔ آج جب آپ مشکل میں ہیں تو آپ کو آسانی فراہم کرنے کیلئے آپ کے بھائی اور ان کی فیملی بھی ہاتھ بڑھانے سے کترارہی ہے۔۔ انھیں بھی پتہ ہے کہ اپ آپ تاحیات نااہل ہو چکے ہیں۔۔ ۔ اور آپ کو قانون اور آئین کی بالادستی تب یاد آرہی ہے جب آپ اور آپ کی فیملی قانون کے شکنجے میں کسے جا چکے ہیں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے