کشمیری کس کا کھاتے ہیں؟

حق رائے دہی ایک مسلمہ بین الاقوامی اصول ہے ، مہذب قومیں دوسروں کی رائے سے اتفاق نہ بھی کریں، مگر ان کی سوچ اور اظہار پر پابندی نہیں لگاتیں۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا”انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا ہے ،تم نے انھیں کب سے غلام بنانا شروع کردیا "ہمیں یہ بات غیر مسلموں کو سمجھانی تھی مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنما تو کشمیریوں کی زبان بندی پر کمر بستہ ہیں اور انھیں اپنے جذبات کے اظہار کی بھی اجازت نہیں دے رہے ۔

چند روز قبل وزیراعظم آزادکشمیر نے اپنے احساسات کا اظہار کردیا تو ایک طوفان بدتمیزی امنڈ پڑا اور کبھی کشمیریوں کو ان کی اوقات یاد کروائی جارہی ہے اور کبھی ان کے ان داتا اور روزی رساں بننے کے دعوے کیے جارہے ہیں ۔یعنی کہ سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر کھلے لفظوں میں کہا جارہا ہے کہ کشمیریوں کی حیثیت ہی کوئی نہیں ۔ یہ کھاتا بھی پاکستان کا دیا ہیں اور ان کی زندگی بھی پاکستان کی مرہون منت ہے ۔

کیا واقعی کشمیری پاکستان کا دیا کھاتے ہیں ؟ آئیے ذرامعاشی اعداد وشمار کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ مختصر اظہاریہ اس موضوع کا اعادہ نہیں کرسکتا تاہم اختصاراًچند پہلو اہل نظر کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس آب و دانے کی حقیقت کیا ہے ۔

صدرپاکستان ایوب خان سے جب امریکن صدرآئرن ہاور نے پوچھا کہ” تمہیں کشمیر کیوں چاہیے ؟”تو ایوب خان نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا "For Water”آپ بے شک مذہب کی آڑ میں یا کچھ اور غیر منطقی دلیلوں سے کشمیر کو اپنا بنانے کی باتیں کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کو کشمیر صرف پانی کے لیے چاہیے اس میں بسنے والے کشمیری نہیں (یاد رہے کہ بنگال کے بارے میں بھی اس وقت مقتدر حلقوں کی یہی رائے تھی کہ ہمیں بنگال چاہیے ، بنگالی نہیں )۔

کشمیر کے پانی کی اہمیت کیاہے؟ ایک صدی پہلے کا ایک معاہدہ جو انگریز نے مہاراجا کشمیر کے ساتھ کیا اور اس معاہدے کی بنیاد پر میرپور سے نہر اپر جہلم کی کھدائی کرکے پنجاب کی پیاسی زمینوں کو سیراب کیا گیا اور انسانی آبادی کو خوراک اور پینے کا صاف پانی میسر آیا ۔ اس معاہدے کے مطابق انگریز حکومت مہاراجا کو سالانہ 1947 ؁ء تک 17لاکھ روپے ادا کرتی رہی ۔ یہ معاہدہ 2004 ؁ء تک کیا گیا تھا مگر 1947 ؁ء کے بعد اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔

یہی نہر اپر جہلم آج تک پنجاب کی زمینوں کے دامن کو غلے سے بھررہی ہے اور لہلاتے کھیتوں کی شادابی کی ضمانت ہے علاوہ ازیں پاکستان بھرمیں بجلی کے منصوبے ہوں یا آبپاشی ایک دریائے کابل کے سوا باقی تمام کی تمام ضروریات کشمیر کے دریاؤں سے مفت میں پوری ہو رہی ہیں ۔ حالانکہ دریائے کابل پر بنے تربیلہ پاور ہاؤس سے پیدا ہونے والی بجلی کے عوض واپڈا صوبہ کے پی کے کو سالانہ بھاری رائیلٹی اور واٹر یوز چارجز ادا کرتا ہے ۔ مگر دریا جہلم پر بنے منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی جو پاکستان کی 30فیصد ضروریات کو پورا کررہی ہے ۔ جس کے بدلے میں نہ تو کشمیر کو رائیلٹی دی جارہی ہے اور نہ ہی واٹر یوز چارجز ، حتیٰ کہ آزادکشمیر کی بجلی کی ضروریات بھی پوری نہیں کی جارہیں اور یہاں کے لوگ 12سے 16گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا غذاب سہہ رہے ہیں

اس وقت آزاد کشمیر کے مختلف پاور ہاؤسز سے 1129میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے اگر اس 1129میگاواٹ بجلی کے عوض صرف ایک روپیہ فی یونٹ ہی ادائیگی کی جائے تو یومیہ2کروڑ 70لاکھ 96ہزار روپے آزادکشمیر کو ملیں گئے جو ماہانہ 81کروڑ سے زائد اور سالانہ 10ارب روپے بنتے ہیں ۔ جبکہ اس وقت آزادکشمیر کے مختلف دریاؤں پر تقریباً 5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیر تعمیر ہیں اور ان تمام منصوبوں میں سے کسی کا بھی معاہدہ حکومت آزادکشمیر سے نہیں کیا جارہا ۔

اگر ایک روپیہ کی فی یونٹ کے حساب سے ہی ادائیگی کا معاہدہ کرلیا جائے تو آزداکشمیر کو سالانہ تقریباً 70ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ حکومت آزادکشمیر کو اپنے وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت نہیں ۔ ۔۔ علاوہ ازیں آزادکشمیر کے پانی سے مستقبل میں 20ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ مگر آزاد کشمیر کو اس سے کسی مالی فائدے کی توقع نہیں اور ہم پر پاکستان کے ٹکڑوں پر پلنے کا الزام برقرار رہے گا ۔

نہر اپر جہلم کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔ اس نہر سے سند ھ تک کی زمینوں کی سیرابی ہورہی ہے مگر آزادکشمیر کے لوگوں کو اس سے پینے کا پانی لینے کی بھی اجازت نہیں ۔ جہاں تک خوراک کی ضروریات کا تعلق ہے تو اگر پانی میسر ہو یعنی دریائے جہلم سے تھوڑے سے پانی کے استعمال کا حق ہمیں دیا جائے تو صرف آزادکشمیر کے ضلع بھمبر سے اتنی گندم پیدا ہوسکتی ہے جو پورے آزادکشمیر کی خوراک کی ضرورت کیلئے کافی ہوگی۔

مگر بدقسمتی سے میرے دریاؤں کا مالک سندھ کا وزیراعلیٰ ہے جو کہتا ہے کہ ہم دریائے جہلم سے ایک قطرہ پانی بھی نہیں دیں گے ۔

ایک شاعر سید ارشد گیلانی کہتے ہیں،

’’لوگوں کے گھرانے مرے جہلم سے ہیں روشن
میرے لیے اب تک وہی مٹی کا دیا ہے ‘‘

اب ذرا پاکستان کو حاصل ہونے والے زرمبادلہ پر ایک طائرانہ نظر ۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ ایک رپورٹ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ پاکستان کو حاصل ہونے والے زرمبادلہ میں سے 62.4فیصد حصہ آزادکشمیر کے لوگوں کا ہے ۔ جو بیرون ملک مقیم ہیں ۔ یاد رہے کہ صرف برطانیہ میں 6لاکھ سے زائد کشمیری آباد ہیں جو ماہانہ اربوں روپے پاکستان کے بینکوں میں بھیجتے ہیں جن سے آپ کے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملتی ہے اور پاکستانی معیشت کا بڑا انحصار اسی زرمبادلہ پر ہے ۔

اس کے علاوہ اگر آزادکشمیر میں سیاحت کو پھیلنے دیا جائے اور اس کے خلاف سازشیں نہ کی جائیں تو اس سے بھی آزادکشمیر کو اربوں روپے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان کے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شاخیں آزادکشمیر میں قائم ہیں جہاں سے وہ اربوں کما رہے ہیں مگر اس کمائی پر ٹیکس حکومت پاکستان کو دیتے ہیں یہی حال ٹیلی کمیونیکشن کا جو آزادکشمیر کے شہریوں سے تقریباً25فیصد کٹوتی کرتے ہیں اور یہ ٹیکس پاکستان کے خزانے میں جمع ہوتا ہے ۔

اگر اس مختصر سے گوشوارے کے اعداد وشمار کو جمع کرلیا جائے تو آزادکشمیر کو سالانہ 2سے 3کھرب روپے حاصل ہوتے ہیں مگر چونکہ یہ تمام رقم پاکستان کے خزانے میں جمع ہوتی ہے اور اسی میں سے سالانہ تیس سے چالیس ارب روپے واپس آزادکشمیر کو دیئے جاتے ہیں تو پاکستان کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی گرہ سے یہ رقم ادا کرکے کشمیریوں کو پالتے ہیں ۔ حالانکہ صورت حال بالکل متضاد اور الٹی ہے ۔ ایسے غلط فہموں کو چاہیے کہ پہلے ان معلومات کو پرکھ لیں اور اس کے بعد ہمیں ہمارا حق دے دیں جو کھربوں روپے سالانہ بنتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے