شطرنج، مہرے اور تماشائی

نواز شریف کی ریلی کامیاب رہی یا ناکام ، وہ اس کے ذریعے کس کو اور کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ آج کل یہی موضوع زیر بحث ہے۔ مگر اس سب کے بیچ اس حکومت سے جو سوالات در حقیقت کرنے کی ضرورت ہے، وہ یکسر نظر انداز کئے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت "گڈ گورننسـ” کے بلند و بانگ دعو ے کرتے نہیں تھکتی اور اس بات پر ہمیشہ زور دیتی رہی ہے کہ یہی گورننس ہے جو انہیں دوسری جماعتوں کی حکومتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ مگر کیا بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیبٹ کا 800 ارب ہو جانا ” گڈ گورننس ” ہے؟ پاکستان کے تجارتی خسارہ کا 30 ارب ڈالر سے زائد تک جا پہنچنا ” گڈ گورننس ” ہے؟ غیر ملکی قرضہ جات کا 80 ارب ڈالر کے قریب پہنچ جانا ، بجلی کی پیداوار کے ناکام منصوبے اور اگست کے مہینے میں ملک میں بد ترین لوڈ شیڈنگ اور تاجروں کی حمایت کھو دینے کے خوف سے براہ راست ٹیکس وصولی میں ناکامی کے بعد عوام پربالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ ڈالنا ” گڈ گورننس ” ہے؟ 40 فیصد عوام کا خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنا اور ان کے حالات بدلنے کے لئے کوئی جامع منصوبہ نہ ہونا ، تمام تر اخراجات، بیرونی امداد اور منصوبوں کے باوجود اسکولوں میں ” نیٹ ان رول منٹ ریٹ” میں کمی بھی شاید ” گڈ گورننس ” ہے؟ پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے جا رہا ہے ، اس حوالے سے کسی ایک بھی جامع منصوبہ کا آغاز نہ ہونابھی ” گڈ گورننس ” ہی ہے؟

میں ماہر معاشیات نہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان سب سوالوں کا ” گڈ گورننس ” سے ویسا تعلق نہ ہو جیسا میں سمجھتا ہوں، مگر کیا یہ سوالات اس سوال سے زیادہ اہم نہیں کہ آئندہ حکومت کون بنائے گا؟یا نواز شریف کی ریلی کا ٹارگٹ کون ہے؟ حکومت چاہے کوئی بھی بنائے ، وزیر اعظم کی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے۔۔۔ ان سوالات کا تعلق براہ راست پاکستان کے مستقبل سے ہے۔ میں حیران ہوں کہ پی ٹی آئی جیسی جماعت بھی جو بھرپور اپوزیشن کا دعویٰ کرتی ہے، ان معاملات پر نہ تو سنجیدگی سے سوالات اٹھاتی ہے اور نہ ہی حقائق کو پاناما کیس جتنےزور و شور سے عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوئی کوشش کرتی ہے۔ کیا ہمارے لئے یہ سوال اٹھانا زیادہ اہم نہیں کہ سی پیک معاہدہ کی شرائط کیا ہیں اور چین کو منصوبے سے پہلے اور بعد کیا مراعات دی گئی ہیں؟ شاید ہمارے ملک میں نہ کسی نے سری لنکا کو قرضہ دے کر اس کی پورٹ پر چینی قبضے کی کہانی پڑھی ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں دلچسپی ہے۔ اس ملک میں ہمارے بچوں کا مستقبل پانی کے بغیر کیا ہو گا اس سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔

تعلق ہے تو صرف سیاست سے ، چلیں اس پر بھی بات کر لیتے ہیں۔ نواز شریف کی بر طرفی کے بعد کسی بے ساختہ احتجاج کا نہ ہونا یہ تو ثابت نہیں کرتا کہ نواز شریف کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے، مگر اس بات کا واضح اشارہ ضرور ہے کہ عوام کی اکثریت اب اپنے سیاسی رہنمائوں کے لئے out of the way جا کر کوشش کرنے کو تیار نہیں، جیسے وہ ایک زمانے میںکیا کرتے تھے۔نواز شریف کی ریلی میں بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد شریک نہیں جس کی شاید انہیں توقع تھی۔اس سے بھی یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کامیاب نہیں ہو گی مگر یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ عوام شاید اب ان حربوں سے تنگ آ چکے ہیں ۔۔۔۔۔ نواز شریف کا ووٹر اب بھی غالباََ اسی کو ووٹ ڈالے گا مگر ان کے جلسوں اور جلوسوں کو کامیاب کرنے کا شوق اب بس کچھ ڈائی ہارڈ ورکرز میں ہی رہ گیا ہے۔ اگر اس ریلی کا مقصد نیب میں بھیجے جانے والے مقدمات کے حوالے سے دبائو ڈالنا تھا تو یہ مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔۔۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت تو اب بھی مسلم لیگ ن کی ہے ۔ جب اپوزیشن احتجاج کرتی ہے تو اس کا ٹارگٹ حکومت ہوتی ہے اور ایک واضح دشمن سامنے ہوتا ہے جو پارٹی کارکنان کو بھی حوصلہ اور ولولہ دیتا ہے۔ جبکہ یہاں دشمن کے متعلق محض اشاروں میں بات کی جا رہی ہے، کھل کر کوئی بھی کچھ کہنے کو تیار نہیں۔

نواز شریف نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ پہلے وہ نظریاتی نہیں تھے مگر اب نظریاتی ہو گئے ہیں ، ان کا یہ نیا نظریہ کیا ہے اس کی بھی اب تک انہوں نے وضاحت نہیں کی۔آج پاکستان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کا مستقبل پھر نوے کی دہائی میں معلوم ہوتا ہے، جہاں پس پردہ قوتیں پتلیاں نچاتی ہیں اور سیاستدان ان کے اشاروں پر چاہتے نہ چاہتے ہوئے ناچتے ہیں ۔ آج نواز شریف یہ بھی اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیر اعظم عہدے سے نہیں ہٹایا جانا چاہئے تھا، ایسا ہی اقرار ماضی میں انہوں نے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے بھی کیا تھا مگر دونوں ہی کی حکومتوں کی بر خاستگی پر سب سے زیادہ خوشیاں منانے والی جماعت مسلم لیگ ن ہی تھی۔ ان ہی کی جماعت کے لوگ ” نا اہل وزیر اعظم نا منظور” کے بینر لئے احتجاج میں سب سے آگے ہوتے تھے ۔ تاریخ بہت ظالم چیز ہے اور یہ آپ کو معاف نہیں کرتی ۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں ،بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پس پردہ قوتوں کو مضبوط کرنے میں ان کا کیا کردار ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل نہ کرنا کس کی غلطی ہے؟ اگر مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تحریک میں شامل ہو کر اس کی مخالفت کی، تو پیپلز پارٹی نے بھی این آر او پر دستخط کر کے اس کی ناکامی میں پہلی کیل ٹھونکی۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تاخیر اور انہیں اختیارات منتقل نہ کرنا کسی پس پردہ نہیں بلکہ ظاہری قوتوں کا ہی کمال ہے۔جو یہ سمجھنے سے نہ جانے کیوں قاصر ہیں کہ بائیس کروڑ آبادی کے ملک کو مرکزیت کے تابع چلانا اب ممکن نہیں۔ دینی جماعتوں کے دبائو پر ضیاء الحق کی آئینی ترامیم کو آئین سے نہ نکالنے کا سہرا بھی کسی پس پردہ قوت کے سر نہیں بلکہ انہی سیاسی جماعتوں کی کمزوری ہے۔

ایک اور بات جس کا الزام بڑے زور و شور سے فوج کے سر ڈال دیا جاتا ہے وہ وفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات ہیں۔ یہ بجا ہے کہ ان دونوں امور میں فوجی مداخلت رہی ہے مگر گزشتہ ادوار حکومت میں پارلیمنٹ کے کتنے ایسے اجلاس ہوئے جن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ بحث کی گئی ہو ،کتنے دن وہ بحث جاری رہی اوراس کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے کیا متفقہ تجاویز مرتب کیں؟ ایمرجنسی کے علاوہ دفاعی کمیٹی کی کتنی میٹنگز بلائی گئیں؟ مختلف شعبوں میں ریفارمز کرنے سے بھی کیا پس پردہ قوتوں نے سیاستدانوں کو روک رکھا تھا؟ان بڑے بڑے معاملات کو تو چھوڑیں کیا پس پردہ قوتوں نے سیاسی حکومتوں کو مافیاز پر قابو کرنے سے روکا ہے؟ کیا پس پردہ قوتوں نے جعلی ادویات بیچنے والوں کو سخت اور عبرتناک سزا دینے سے روک رکھا ہے؟ کیا پس پردہ قوتوں نے ہی حکومتوں کو نا جائز تجاوزات کے خاتمے ، انصاف کے نظام میں بہتری،رشوت کے خاتمے ،اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور دیگر ضروریات کی فراہمی، تعلیمی نظام میں بہتری اور کرپٹ افسر شاہی کے خلاف کارروائی سے روک رکھا ہے؟ کیا اہم عہدوں پر سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں بھی پس پردہ قوتوں کے کہنے پر کی جاتی ہیں؟

کسی بھی دوسری قوت کا مقابلہ تبھی کیا جا سکتا ہے جب سیاستدان اس قابل ہو جائیں کہ وہ ان سوالات کے جوابات آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دے سکیں، جب تک ایسا نہیں ہوتا سانپ ، سیڑھی کا یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا۔۔۔ شطرنج بچھتی رہے گی، مہرے جگہ تبدیل کرتے رہیں گے اور عوام تماشائی بنے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے