”ماونٹ بیٹن نے مجھ سے کہا: آپ ملک نہیں چلا سکیں گے ”،معلم ،تحریک پاکستان کے کارکن ، معروف شاعر اور مصنف مشکور حسین یاد سے خصوصی انٹرویو

 

مشکور حسین یاد کی عمر بیانوے برس ہے . آپ اردو کے معروف شاعر اور ادیب ہیں . پیدائش ستمبر1925ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع حصار میں ہوئی . جب ہندوستان سے برطانوی راج کا خاتمہ ہوا تو مشکور حسین یاد کی 22 برس کے تھے . انہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کی . اس دوران ہونے والے بدترین مذہبی فسادات کے نتیجے میں‌مشکور حسین یاد کی اہلیہ ، بیٹی ، بہن ،بھائی سمیت کئی لوگ قتل کر دیے گئے ، مشکور حسین یاد نے درد و الم کی یہ داستاں اپنی کتاب ”آزادی کے چراغ” میں‌رقم کی ہے .

مشکور حسین یاد کی بیانوے سالہ بھرپور زندگی سے جڑی یادوں کا احاطہ کرنے کے لیے کئی نشستیں درکار ہیں . ہم نے پاکستان کے 70 ویں یوم آزادی کی مناسبت سے ان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ان کے گھر سمن آباد میں کی . دراز قد اور بارعب مشکور حسین یاد روایتی سیاہ رنگ کی شیروانی زیب تن کیے ہوئے تھے اور بہت اعتماد سے بات کر رہے تھے . بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ اتنے برس پنجاب میں گزارنے کے باجود ان کا لہجہ خالص ہی ہے.گفتگو کے دوران کچھ ایسے مراحل بھی آئے جب ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے . ایک گھنٹے پر محیط یہ مکالمہ کئی اعتبار سے دلچسپ رہا . یہاں اس گفتگو کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے . (فرحان احمد خان)

 

جب پاکستان بنا تو میری عمر اکیس بائیس برس تھی۔ قائداعظم نے جب نئے ملک کا تصور دیا تو ہم مسلمان یکجہت ہو گئے۔اس وقت ہمارے ذہن میں تھا کہ ہم پاکستان لیں گیاور اسے اپنی مرضی کے مطابق اچھے طریقے سے چلائیں گے۔جو مسلمان کانگریس کا حصہ تھے وہ تعداد میں کم تھے۔اس زمانے میں دوسری جنگ عظیم کا مسئلہ تھا تو ایک سرکاری اخبار’’پکار‘‘ شروع کیا گیا۔یہ وہاں ڈی سی آفس سے نکلتا تھا۔اس اخبار کے ایڈیٹر کے لیے اشتہار شائع ہوا تو میں نے اپلائی کر دیا۔والدصاحب نے کہاآپ تو محض میٹرک ہیں ، ٹھیک ہے آپ یہاں شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن شرم آنی چاہئے آپ کو وہاں اپلائی کرتے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ آپ لوئر ڈویڑن میں کسی جگہ ملازم ہوجائیں، کم ازکم25 روپے توگھر میں آجائیں گے۔ میں نے کہا پچیس روپے کیا ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا پھر آپ کیا کریں گے۔ میں نے جواب دیا کر کے دکھاوں گا۔ اس کے بعد میرا انٹرویو ہوا۔جے این ویکلری ڈی سی تھے۔انہوں نے مجھے دیکھ کرکہا آپ کی عمر تو کم ہے، آپ کیسے اخبار کو ایڈٹ کریں گے۔ میں نے کہا آپ عمر دیکھنا چاہتے ہیں یا قابلیت ؟ پھر فوراًانہوں نے میری ملازمت کی توثیق کر دی۔ تن خواہ ڈیڑھ سو روپے تھی۔ میں اس سرکاری اخبارمیں کام کرتے ہوئے بھی وہاں مہارت کے ساتھ آزادی کا تصور بھی دیتا تھا۔

ہندو مسلم فسادات ہوتے رہتے تھے

میں تحریک پاکستان کے زمانے میں ضلع حصار میں تھا۔ہم بہت پرجوش تھے ، ہم یہ کہتے تھے کہ لیں گے اور خوب چلائیں گے پاکستان۔ اس وقت مسلمانوں میں یہ نعرے لگ رہے تھے ’’لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان‘‘

ہندو مسلم فسادات تو یہاں ہوتے رہتے تھے اس لیے کہ مسلمانوں نے نو سو سال یہاں حکومت کی تھی۔ اس طرح کے تنازعات میں مسلمان البتہ کامیاب ہی رہتے تھے۔

قائداعظم کے بعد ایسا لیڈر ہی نہیں تھا جس کی سب پیروی کرتے

پاکستان کے قیام کے بعد میں جو لیڈر بنے وہ مخلص نہیں تھے۔ وہ صرف اپنی ذات کو دیکھتے تھے۔اوربدقسمتی سے اب تک یہی حال ہے۔قائداعظم کے بعد کوئی ایسا لیڈر ہی نہیں تھا جس کی سب پیروی کرتے۔سب خود غرض تھے۔

مشکور حسین یاد کی کتاب ’’آزادی کے چراغ ‘‘ان مضامین پر مشتمل ہے جن میں انہوں نے تقسیم کے دنوں میں ہونے والے خوں ریزفسادات میں شہید ہوجانے والے اپنے عزیزوں اور دیگر لوگوں کا ذکر کیا۔کہتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح میری ننھی بیٹی ، بیوی ، بھائی ، بہن قتل ہوئے۔یہ تو ایک گھر کی کہانی ہے ، پتا نہیں اور گھروں کی کیسی کیسی دردناک کہانیاں ہوں گی۔میریاکثر پڑھنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں ا?پ کی تحریروں سے اندازہ ہوا کہ پاکستان کتنی قربانیوں سے بنا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کے حوصلے بڑھاتا تھا

پاکستان آمد کے بعد ہمیں مہاجر کیمپوں میں رہنا پڑا۔مہاجرین کا بہت برا حال تھا۔میں تقریریں کیا کرتا تھا اور لوگوں کو حوصلے دیا کرتا تھا۔میں کہتا تھا کہ آزادی ملی ہے تو اس کی قیمت بھی برداشت کرو۔ سن 46ء میں جب الیکشن ہو رہے تھے تو اس دوران بھی ہم نے کام کیا۔ لوگوں کو ترغیب دیتے رہے اور پاکستان کے لیے تیار کرتے رہے۔

ماونٹ بیٹن نے مجھ سے کہا: آپ ملک نہیں چلا سکیں گے
میں تویہ کہتا ہوں کہ پاکستان کی تشکیل کے لیے زیادہ قوت قائداعظم کے خلوص کی تھی۔انہوں نے سب کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ ایک دفعہ لارڈ ماونٹ بیٹن نے مجھ سے کہا: پاکستان تو بن جائے گا لیکن یہ صرف اور صرف آپ کے قائد کی وجہ سے بنے گا، لیکن آپ لوگ چلا نہیں سکیں گے ،میں نے کہا آپ یہ ہم پر چھوڑئیے کہ ہم چلا سکیں گے یا نہیں۔ہم چودہ سو سال حکومت کا تجربہ رکھتے ہیں۔بیٹن سے یہ ملاقات شاید بمبئی میں ہوئی تھی۔

ہندوستان میں مسلمان آج بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں

اگر بالفرض ہم ہندوستان میں رہ گئے ہوتے تو آج بھی بطور مسلمان اپنی سرگرم موجودگی کا احساس دلاتے اور زور دار طریقے سے دلاتے۔ آپ دیکھ لیں اب بھی ہندوستان میں مسلمان کمزور نہیں ہیں ، جہاں وہ کھڑے ہوتے ہیں ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ہم حال پر تنقید کرتے ہیں اس لیے روشن پہلو نظر نہیں آتے

ایک بات یاد رکھیں۔ حال ماضی سے بہت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ چونکہ ہم حال پر تنقید کرتے رہتے ہیں اس لیے اس کے روشن پہلو ہمیں نظر نہیں آتے۔یہ بڑا مسئلہ ہے۔اصل میں ہم حال

نواز شریف مشکور حسین یاد کی کلاس میں پڑھتے ہوئے

کو اچھی طرح دیکھتے نہیں ہیں۔آپ لوگ (نئی نسل)ہم سے ہزار درجے بہتر ہیں۔ نئی نسل کو یہ کہنا ہے کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ یہ سمجھیں کہ پاکستان کی تشکیل بالکل درست تھی۔قائداعظم کی جد وجہد بالکل درست تھی۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس ملک کو اچھے طریقے سے چلائیں۔ ہم اگر میرٹ پر کام کریں گے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔بچوں کو شروع سے اردو پڑھائیں ، انہیں یہ تصور نہ دیں کہ یہ زبان مشکل ہے۔ میں تو کہتا ہوں کی اردو پنجابی کی بہت سنبھلی ہوئی صورت ہے۔

مشکور حیسن یاد اپنی سوانح عمری لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں . ان سے ملاقات کی آخری ساعات میں ان کے جمالیاتی ذوق پر بات ہوئی تو انہوں نے دنیائے فلم و

موسیقی کے کئی قدآور ناموں کا ذکر کیا . دلیپ کمار اور مدھو بالا کا نام لیا ، ان کے بقول مدھو بالا بہت خوب صورت اداکارہ تھی . میں نے مہدی حسن کا نام لیا تو رو پڑے . کہنے لگے کہ مہدی حسن کئی بار میرے گھر مجھ سے میری غزلیں مانگنے آیا لیکن میں نے نہیں دیں . میں نے یہ کیسی حماقت کی ہے . ذرا وقفے کے بعد کشمیر کے المیے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور اس کے بارے میں انہی کا فیصلہ حتمی ہونا چاہئیے .

مشکور حسین یاد کے گھر کے خوبصورت لان میں ہوئی یہ گفتگو خوشگوار انداز میں تمام ہوئی اور میں واپس اپنے دفتر کی راہ ہو لیا .

 

یہ انٹرویو روزنامہ 92 نیوزسنڈے میگزین کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے