”مطالبہ پاکستان کے بغیرہندوستان کی آزادی ممکن نہ تھی،کانگریسی مسلمان ہندو ذہن کو سمجھ نہ سکے”:تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور اردو ڈائجسٹ کے بانی وسرپرست ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا خصوصی انٹرویو

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا نام پاکستان کے صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں . ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی معروف ماہنامہ اردو ڈائجسٹ بانی اور سرپرست اعلیٰ ہیں .آپ 1928ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع حصار میں پیدا ہوئے . تقسیم ہند کے وقت ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی عمر 19 برس تھی . آپ اس وقت علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے . ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے تحریک پاکستان میں بہت سرگرم کردار ادا کیا اور تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں آباد ہو گئے .

 

 

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی زندگی اور افکار پر جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تعلیمات کی گہری چھاپ ہے . وہ اپنے خیالات کو مرتب انداز میں پیش کرتے ہیں . ساٹھ کی دہائی میں بیرون ملک سے تاریخ کے مضمون میں‌ ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے کے استاد بھی رہ چکے ہیں تاہم بعد میں صحافت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیااور اس شعبے میں ہر اعتبار سے خوب ترقی کی .

 

 

پاکستان کے 70 یوم آزادی پر 90 سالہ اعجاز حسن قریشی سے ان کے 1947ء کے مشاہدات جاننے کے لیے کارروان علم فاونڈیشن کے ڈائریکٹر خالد ارشاد صوفی ی وساطت سے تفصیلی ملاقات ہوئی . ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اجلے سفید لباس کے ساتھ سر پر ہمیشہ کی طرح ٹوپی پہنے ہوئے تھے . ہماری ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے ساتھ قریب پون گھنٹے گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے ناصرف ماضی کی یادوں کو تازہ کیا بلکہ حال اور مستقبل پر بھی بات کی . اس گفتگو کا خلاصہ یہاں‌پیش کیا جا رہا ہے . (فرحان احمد خان)

میں 1945ء میں علی گڑھ کالج میں سال اول کا طالب علم تھا۔ا?زادی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ مسلم لیگ 1945۔46 کے الیکشن میں اکثر مسلم علاقوں میں کامیاب ہو چکی تھی اور قائداعظم علیہ الرحمہ کی سربراہی میں ہندی مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔وہ قائد اعظم کی رہنمائی میں ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔

قائداعظم غیر دینی ذہن نہیں رکھتے تھے
قائداعظم کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ غیر دینی ذہن رکھتے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔انہوں نے اپنی تقریروں میں اس بات کا اعادہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی زندگی ہمارے لیے رہنمائی کا کام دیتی ہے اور قرآن الہامی کتاب ہے اور ہمارے مسائل کا حل ہے۔انہوں نے بارہا کہا کہ پاکستان کی بنیاد مساوات کے اصول پر مبنی روایات ہوں گی۔انہوں نے واضح کیاکہ وہ پاکستان کوایک ایسی تجربہ گاہ بنانے کاپروگرام رکھتے ہیں جہاں اسلام کا نظریہ حیات جاری وساری ہو گا ، اس ریاست میں مذہب کا عمل دخل کم ہوگا ،وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اسلام میں تھیوکریسی نہیں ہے اورپاکستان میں مولویوں کی حکومت نہیں ہو گی بلکہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے والا اسلامی اصولوں پر قائم نظام حکومت ہوگا۔اس میں فیصلہ کن طاقت پارلیمان ہوگی جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے گی اور پارلیمان اسلام کے اصولوں کے مطابق قانون سازی کرے گا۔ قائداعظم کی اس توجیہہ پر ہندوستان کے بیشتر علماء اور مسلمانوں نے لبیک کہا اور قائداعظم کا بھرپورساتھ دیا۔

مولانا مودودی کی کتب کے مطالعے نے میرے لیے سہولت پیدا کی
تقسیم ہند کے وقت میری عمر۹۱برس تھی۔ میں علی گڑھ میں داخل ہونے سے پہلے اوراس دوران مولانا مودودی کی کتابوں سے استفادہ کر چکا تھا۔مولانا مودودی نے ’’مسئلہ قومیت‘‘ نامی کتاب کے ذریعے یہ واضح کیا تھا کہ اسلام میں وطن کا نہیں بلکہ امت کا تصور ہے۔یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب کل ہند کانگریس اس بات کی پر چار کر رہی تھی کہ ہندوستان میں رہنے والے سب لوگ ہندوستانی ہیں اور وہ مختلف مذاہب سے متعلق ہونے کے باوجود متحدہ ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔ مولانا مودودی نے واضح کیا تھا کہ مسلمانوں کی ترکیب ہاشمی دوسروں سے قطعی مختلف چیزہے۔ اس مطالعے کی وجہ سے میرے لیے آسان تھا کہ ایک ایسی ریاست کی تشکیل کی حمایت کروں جس کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر ہو گی اور جہاں امیر سے لے کر غریب پر خرچ کیا جائے گا۔ جہاں ’’حق للسائل و المحروم‘‘ کے تصورکا احیاء کیا جائے گا۔ یہ تصور دنیا میں پہلی مرتبہ پیش کیا جا رہا تھا۔

ہندووں کا رویہ معاندانہ تھا
دوسری جانب ہندو کا طرزعمل مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ معاندانہ رہا۔مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال حکومت کی تھی لیکن پھر بھی اکثریت وہاں ہندوؤں کی تھی اور ہندو مذہب کے پیشواوں نے ہندووں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے لیے ایک فلسفہ گھڑا جس کے تحت مسلمانوں کو ملیچھ (ناپاک) قرار دیا گیا۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگرہندو مسلمانوں کے قریب ا?ئے تو ان کے اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں مسلمان ہو جائیں گے۔

سندھ کے لوگوں نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہا
ہمارے گھرکا ماحول دینی تھا۔ ہمارے بزرگوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں میں سرگرم شرکت کی تھی بلکہ اسی سلسلے میں وہ ضلع مظفرگڑھ کو چھوڑ پر پنجاب (ضلع حصار)میں آبسے تھے۔مجھے یاد ہے ایک مرتبہ لیاقت علی خان علی گڑھ آئے ،یہ سن چھیالیس کیالیکشن سے کچھ قبل کی بات ہے۔اس زمانے میں لیاقت علی خان علی گڑھ آئے تھے اور انہوں نے مسلمان طلبہ سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے علاقوں میں جا کرپاکستان کے لیے کام کریں۔اس زمانے میں صوبائی انتخابات ہو رہے تھے۔ہمیں تربیت دی گئی اورمختلف علاقوں میں مسلم لیگ کے لیے مہم چلانے کے لیے بھیج دیا گیا۔منظرعالم صاحب ہمارے صدر تھے۔ہم اس وقت ایک وفد کی صورت میں سندھ کے ضلع نواب شاہ میں آئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب جی ایم سید کی بغاوت کے نتیجے میں مسلم لیگ کی صوبائی شاخ مرکزی مسلم لیگ سے الگ ہو چکی تھی۔مرکزی مسلم لیگ کو وہاں نئے ممبران کی تلاش تھی۔چنانچہ وہاں جو آزاد امیدوار تھے ان میں سے اکثر کو مسلم لیگ نے ٹکٹ دیے اور اپنا نمائندہ بنایا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ آزادی کی تحریک میں زیادہ متحرک نہیں رہا۔یہ درست نہیں۔سندھ کا ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سن لیجیے۔ہمارے اس مذکورہ وفد کے سربراہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ تھے۔ وہ علی گڑھ میں ایم عربی کے طالب علم تھے اور لاءبھی کر رہے تھے، سندھی بولتے تھے۔ ہم اسی الیکشن مہم کے سلسلے میں ایک بار ٹرین میں سفر کر رہے تھے تو نبی بخش بلوچ صاحب نے گاڑی کے اندر کھڑے ہو کر سندھی میں تقریر کی اور پاکستان اور مسلم لیگ کے حق میں بات کی۔ تقریر کے بعد ایک عمر رسیدہ سندھی ان کے پاس اٹھ کر آیا اور کہا کہ ہم نے آپ کی تقریر سنی ہے ، اس الیکشن میں ہمارے جو وزیر بننے والے ہیں ،ہمیں اندازہ ہے کہ وہ وزیر بن کر پہلے سے زیادہ زیادتیاں کریں گے لیکن اگر بابا قائداعظم کہتا ہے تو ہم ووٹ انہی کو دیں گے۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ سندھ کے لوگ کیسے بیدارہو چکے تھے اورصرف قائداعظم کی وجہ سے کردار کے اعتبار سے کمزورامیدواروں کو ووٹ دینے پر تیار ہو گئے تھے۔

ہندووں نے فسادات کی تیاری کر رکھی تھی
جہاں تک رہی بات فسادات کی تو اس کا تقسیم سے پہلے ہندو کے ذہن میں تھا۔وہ یہ جان گئے تھے کہ پاکستان بن کررہے گا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کی سرحد پر ایسا علاقہ قائم کر دیا جائے جہاں مسلمان نہ ہوں۔ان کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر پاکستان بننے کے بعد وہاں اسلامی نظام نافذ ہو گیا تو ہندوستان کا ہندو اس سے ضرور متاثر ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے پہلے ہی سے راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کو قریہ قریہ منظم کر دیا تھا اور انہیں ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دے دی تھی۔ وہ فسادات کے لیے پہلے سے تیار تھے۔انہوں نے مسلمانوں کو بھگانے کے لیے خوف ہراس پیدا کیا اور تشدد کی راہ اختیار کی۔

کبھی کوئی ہندو دوست نہیں بنا پایا
میں ہندوستان میں کبھی نہیں رہ سکتا تھا، اس کی وجہ دلچسپ ہے۔میں نے وہاں کے گورنمنٹ ہائی اسکول سرسہ(ضلع حصار) میں پانچویں سے دسویں تک تعلیم حاصل کی لیکن اس سارے عرصے میں ایک بھی ہندو دوست نہیں بنا پایا۔ہماری جماعت میں30ہندواور صرف 4 مسلمان تھے۔میرا ایک ہندو ہم جماعت بعد میں حجام بن گیا تھا اور میں علی گڑھ چلا گیا تھا ، جب واپس آیا تو ایک دن مجھے حجام کی ضرورت پڑی۔ہمارے حجام صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے اور یہ کچھ بہتر تھا ، سومیں اْس کی دکان پر چلا گیا۔وہاں جب میری باری آئی تو اس نے میری حجامت کرنے سے انکار کر دیا، اس سے اندازہ کر لیجیے کہ ہندوؤں کی مسلمانوں سے نفرت کتنی زیادہ تھی۔

کانگریسی مسلمان ہندو ذہن کو سمجھ نہ سکے
جہاں تک کانگریس میں شامل مسلمانوں کا تعلق ہے تو میں ان کی فراست کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بات کہوں گا کہ انہوں نے تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں کیا تھا۔وہ ہندو کے ذہن کو نہیں سمجھ پائے تھے۔ہندو چانکیہ کے فلسفے پر عمل پیرا تھا جس کے مطابق ہندو راج قائم کرنے کے لیے ہر جائزو ناجائز حیلہ اختیار کرنے کی اجازت تھی۔

مطالبہ پاکستان کے بغیرہندوستان کی آزادی ممکن نہ تھی

قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان ایک تجربہ گاہ ہو گا جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرہ قائم کیا جائے گا ،دوسری یہ کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ ہمیں افسوس یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم اپنا مقصد وجود حاصل نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان بنانے کے لیے پوری دنیا کا سیاسی نقشہ بدلا۔ہندوستان کی آزادی نہ ہوپاتی اگر پاکستان بنانے کا مطالبہ نہ ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو ملک دیا ہے اس کی جغرافیائی اہمیت ایسی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی ایٹمی طاقت دی ہے جو دنیا سے بہت آگے ہے۔

اقتصادی راہداری کو مفید بناناسیاسی قیادت کا امتحان ہے
پاک چین اقتصادی راہداری کے اس خطے پر کئی طرح کے اثرات پڑیں گے ، مثبت اور منفی۔ اس بارے میں پوچھا تو کہا یہ ہر اس قوم کا امتحان ہوتا جو اس صورت حال سے دوچار ہوتی ہے۔ نہر سویز کے بننے کا واقعہ ذہن میں دہرا لیں۔ یہ مغرب کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت کا منصوبہ تھا جسے بہتر انداز میں ڈیل نہیں کیا گیا۔ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ اب ہماری سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کووہ اپنے لیے کیسے مفید بنا سکتے ہیں۔ یہ نہر سویز کے بعد دوسرا اہم تاریخی واقعہ ہے۔

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے زیادہ تر بات تقسیم کا تلخ ایام اور یادوں سے متعلق ہوئی . گفتگو کے آخر میں مسئلہ کشمیر کے متعلق سوال کیا تو ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں وہی موقف رکھتے ہیں جو چالیس کی دہائی کے آخر میں مولانا مودودی نے اختیار کیا تھا جس کے مطابق ”جہاد کا اعلان ریاست کرتی ہے ، غیر ریاستی یا خفیہ گروہ بنا کر لڑائی کے لیے بھیجنا درست نہیں ” انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر لینا تھا کو جہاد کا اعلان ریاست کو کرناچاہیے تھا . انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیریوں‌کو آزادی حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت قربانیاں دینی ہوں گی .

ڈاکٹر اعجاز قریشی کی عمر نوے برس ہے لیکن ابھی تک ان کی یادداشت قابل رشک ہے . ان کے ساتھ گفتگو کا دلچسپ اور معلوماتی مرحلہ وقت کی کمی کے باعث زیادہ طویل نہ ہو سکا اور ذہن میں موجود کئی سوالات میں نے اگلی نشست کے لیے اٹھا رکھے .

 

 

یہ انٹرویو روزنامہ 92 سنڈے میگزین کے شکریہ کے ساتھ یہاں‌شائع کیا جا رہا ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے