آزادی کاجشن اورتہذیب کادائرہ

ہمارے ملک میں تہواروں کو منانے کا انداز سب سے انوکھا ہے آپ چاہے دنیا کے کسی گوشے میں چلے جاہیں یہ انداز کہیں نظر نہیں آئے گا ۔خوشیاں اور تہوار کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں مگر انھیں منانے کا انداز چھوٹا کر دیتا ہے وسائل کی بھر مار ہی کیوں نہ ہو مگر ہم جب آپے سے باہر ہوں گے تو یہی خوشیاں دوسروں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں ۔

سڑکیں اور شاہراہیں کتنی ہی وسیع اور کشادہ کیوں نہ ہوں ٹریفک سنگنلز جدید کیوں نہ ہوں ان پر چلنے والے گاڑیاں کتنی ہی چمکتی دمکتی ہی کیوں نہ ہوں اگر ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری نہ کی جائے اور کھلے عام ٹریفک قوانین کو دیدا دلیری سے کچلا جائے تو ان وسیع سڑکوں،نئے ماڈلز کی گاڑیوں اور جدید ٹیکنالوجی کے سنگنلز ٹریفک حادثات کو کبھی نہیں روک سکتے ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تہواروں کو منانے کا انداز جو اپنایا جاتا ہے وہ کسی بھی آفت سے کم نہیں خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ہر تہوار پر آپے سے باہر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ خوشی اور تہوار دوسروں کے لیے وبال بن جاتا ہے ۔

دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ترقی یافتہ ممالک کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو ہمارے ملک کے مقابلے میں وہاں کی سڑکیں چھوٹی اور کم کشادہ ہونے کے باوجو دوہاں ٹریفک رواں دواں رہتی ہے لوگ اپنی لین میں رہتے ہیں اور سنگنلز کے اشاروں کے پابند دکھائی دیتے ہیں ۔

ہم پاکستانی جو عام دنوں ٹریفک کے معاملے میں بہت برے ہیں ،خوشیوں اور تہواروں پر اس سے بھی زیادہ برے ہوجاتے ہیں ،ہم موٹر سائیکلزکے سائلنسرزنکال کر شورشرابا کرتے ہیں ،ون ویلنگ ہماری نوجوان نسل کے لیئے ایک کھیل بن چکا ہے ،اس کے بغیر تو جیسے اسے نوجوان تصور ہی نہیں کیا جائے گا ۔

کچھ دنوں میں ہمارے ایک بہت بڑے تہوار کی آمد آمد ہے ۔14 اگست یعنی آزادی کا تہوار اور اس کومناتے ہوئے ہم ویسے ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔13 اگست کو12 بجے کے بعد سڑکوں پر ون ویلنگ کرتا ہوا نوجوانوں کا سمندر نظر آئے گا ،کاروں اور گاڑیوں میں اونچی آواز میں ڈیک لگا کر شور و غل کرنا ،دروازے کی کھڑکی سے باہر نکل کر بیٹھ جانا اور خواہ مخواہ سڑک پر بیہودہ قسم کا رقص کرکے دوسروں کو ڈسٹرب کرنا،اصل معنوں میں نہایت معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں آزادی اور جشن آزادی کا تصور بس یہی ہے۔

جشن آزادی کے موقع پر ہم ان خصلتوں کا بھر پور عملی مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسے معیوب نہیں سمجھاجاتا ہے ۔کیونکہ ہمیں نہ گھر والے سمجھاتے ہیں اور نہ کوئی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے ۔

تعلیمی اداروں میں تو ویسے ہی معاشرے کی تشکیل کے لیئے کچھ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔آزادی کے تہوار پر جو طوفان بدتمیزی سڑکوں پررواں رکھا جاتاہے وہ پاکستان کے تما م چھوٹے بڑوں شہروں میں یکساں ہوتا ہے۔

جہاں تک میں سمجھتی ہوں نوجوانوں سے زیادہ قصور وار قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ پولیس اہلکار ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے یہ موت کا تماشا ہوتا ہے اور وہ خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ ہم ہر تہوار مذہبی اور مہذب طریقے سے منائیں تاکہ ہماری وجہ سے کسی کی خوشی غم میں نہ تبدیل ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے