اُسامہ علی انشاد نے خُودکُشی نہیں کی!

ہمار ے آبائی وطن میں بچیوں،بچوں اور نوجوان لڑکیوں لڑکوں کو بہلا پُھسلا کر یا ڈرا دھمکا کر جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے، فوٹو اور ویڈیوز بنائے جانے اور پھر اُن کی بنیاد پر بلیک میل کیے جانے اور پیسے بٹورنے کے واقعات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔کبھی کبھار تھوڑے بہت احتجاج کے بعد ہم چُپ سادھ لیتے ہیں اور اکثر اوقات بدنامی کے ڈر سے ایسی خبروں کو ہی دبا دیا جاتا ہے۔

تارکینِ وطن کی اکثریت کا یہ خواب ہوتا ہے کہ ایک روز وہ اپنے خاندان سمیت واپس اپنے وطن جابسیں گے تاکہ اُن کے بچوں کی پرورش اُن کے ہم مذہب ،ہم زبان لوگوں اور رشتہ داروں کے درمیان ہوسکے۔ ہمارے دوست سردار انشاد عزیز کی زندگی کا زیادہ حصہ بیرونِ ممالک کی خاک چھانتے ہوئے گزرا ہے۔ میرے جیسے وطن واپسی کا خواب دیکھتے رہ گئے مگر ہمارے دوست سردار انشاد عزیز نے گزشتہ سال اس خواب کی تعبیر چاہی اور اپنے بال بچوں کو لیکر اپنی بقیہ زندگی اپنے آبائی وطن میں گزارنے کے لئے روانہ ہوگئے۔

جب میں اُنھیں برسلز ائرپورٹ پر چھوڑنے گیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اُنھیں کہوں بیس سالہ اُسامہ علی انشاد کو یہیں چھوڑ جائیں مگر اُن کی زبان سے یہ الفاظ کہ ’میں نے بچوں کو بچانے کے لئے یہ فیصلہ کیا ہے‘ سُن کر میں اپنی بات دل میں ہی لئے رہ گیا۔ انشاد عزیز اور اُن کی فیملی کو وطن واپس گئے محض ایک سال سے کچھ ہی زائد عرصہ بیت پایا تھا کہ ایک روز دل کو چھلنی کرنے والی یہ خبر موصول ہوئی کہ اُسامہ علی انشاد نے اپنی زندگی کا چراغ گُل کردیا ہے۔

پھر یہ بات کُھلی کہ اُسے بلیک میلنگ کا سامنا تھا۔اُسامہ علی انشاد نے بظاہر خودکُشی کی ہے مگریہ خودکُشی نہیں ہے،یہ قتل ہے۔اس قتل کی ذمہ داری جہاں اُسے بلیک میل کرنیوالے پر عائد ہوتی ہے وہاں اس کے ذمہ دار میں،آپ اور ہمارا وہ پورا سماج بھی ہے جو ایسی باتوں کے سامنے آنے پر خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے۔

مجھے یورپ میں رہتے ہوئے سولہ سال ہوچکے ہیں،یہاں جنسی زیادتی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں اور بلیک میلنگ کا تو تصور تک نہیں ہے،ہمارے سماج کو ہم ’مُسلم سماج‘ مشرقی تہذیب کا آئینہ دار اور نہ جانے کیا کیاقرار دیتے نہیں تھکتے مگر جب ہم غیر مسلموں کے سماج کو دیکھتے ہیں،اُن کی سماجی اور اخلاقی قدروں کو دیکھتے ہیں تو اپنے آپ پر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

یہ بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے کہ جب ایسی خبریں سامنے آتی ہیں تو ہم اُنھیں زیادتی کا نشانہ بننے والے کی بدنامی اور بے عزتی کا موجب سمجھتے ہیں۔یہ ہماری سماجی اور ذہنی پستی کا مظہر ہے۔دُنیا کے دیگر خطوں کے انسانوں نے ذہنی اور فکری اعتبار سے بہت ترقی کرلی ہے مگر لگتا ہے ہم ابھی پتھر کے دور میں جی رہے ہیں۔زیادتی کا نشانہ بننے والے نہیں بلکہ بنانے والے بدنامی ، بے عزتی اور ہماری نفرت کے مستحق ہیں۔ہمیں بے عزتی اور بدنامی کے اپنے فرسودہ معیارات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ بُرائی کو قالین کے نیچے چھپانے سے بُرائی کا خاتمہ نہیں ہوتا ،بُرائی بانجھ نہیں ہوتی وہ انڈے بچے دیتی ہے۔

کسی بُرائی کے خاتمے کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ وہ بُرائی ہم میں پائی جاتی ہے۔زیادتی کا شکار بچیاں،بچے،نوجوان لڑکیاں لڑکے اور اُن کے خاندان ہماری ہمدردی اور مدد کے مستحق ہوتے ہیں،ہمیں اُن کے ساتھ کھڑے ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر اُنھیں انصاف دلوانے کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے راولاکوٹ میں گزشتہ سال اس بات کو لیکر مہینوں جلوس نکلتے رہے کہ کسی نے توہینِ مذہب کردی ہے مگر اس نوع کے ظُلم اور ناانصافی پر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

کہاں ہیں وہ شعلہ بیان مقررین جو اپنی تقریروں کا آغاز ہی غازیوں شہیدوں اور مجاہدوں کی اولادیں ہونے سے کرتے ہیں؟ کہاں وہ عُلما اور اصحابِ محراب و منبر جو اپنی دھواں دھار تقریروں سے عوام کا لہو گرماتے رہتے ہیں؟ کوئی اُن سے پُوچھے کہ رسولِ پاک کی تعلیمات کو پاوں تلے روندنا توہینِ رسالت نہیں ہے؟کیا یہ توہینِ انسانیت نہیں ہے؟ کوئی جائے اور اُن سے پُوچھے کہ منصف ہوتو حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے۔

یہ واقعہ تو اُسامہ انشاد کی موت کی وجہ سے ریکارڈ پر آیا ہے ورنہ کسے نہیں معلوم کہ اس نوع کے درجنوں واقعات کو ہم ریکارڈ پر لانے سے ہی گریزاں رہتے ہیں۔ہمارے سماج میں پائی جانیوالی اس خرابی کا خاتمہ محض دعاسے نہیں ہونیوالا،اس کے لئے دوا کی ضرورت ہے اور دوا کرنے کے لئے ہمارے سماج کے ہر طبقے کو بروئے کار آنا ہوگا۔

ہمارے دوست انشاد عزیز جہاں بھی رہے،اپنے اخلاق،ملنساری،خلوص اور دردِ دل کی وجہ سے ہمیشہ نمایاں رہے۔اُن کے دل میں ہمدردی اور پیار کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔اُن کے ہم وطنوں کو رات کے کسی پہر بھی اُن کی ضرورت ہوتی وہ ہنستے مُسکراتے ہوئے آتے۔اُن کے بلجیئم میں قیام کے دوران اُنھیں خبر ملتی کہ کوئی ہم وطن کسی مُشکل میں ہے تو وہ بے چین ہوجاتے اور جو کُچھ اُن سے بن پڑتا کرتے۔ کسی ہم وطن کی موت واقع ہوجاتی اور اُس کا جسدِ خاکی وطن بھجوانا ہو،وطن میں کسی کاز کے لئے فنڈریزنگ کرنی ہوتی تو انشاد عزیز سب سے آگے ہوتے۔کمیونٹی کی کوئی تقریب اور استقبالیہ ہوتا،انشاد عزیز اُس کے لئے فنڈریزنگ کرنے اور انتظامات کرنے کے لئے دن رات ایک کردیتے۔مادہ پرستی کے اس دور میں ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں۔

بعد ازاں اُن کی فیملی بلجیئم آئی تو ہم نے دیکھا کہ اُن کا بیٹا بھی اُنہی پر گیا ہے،ہمیشہ مُسکراتا چہرہ لئے،کمیونٹی کی تقریبات میں خوشی خوشی بھاگ دوڑ کر کام کرنے والا۔شائد اس خاندان کو یہ خوبیاں ورثے میں ملی ہوں گی۔انشاد عزیز کے بڑے بھائی سردار سجاد خان سے بھی میری پُرانی یاداللہ ہے۔سردارسجاد خان ایک خوش لباس،خوش مزاج،سُلجھے ہوئے ملنسار انسان ہیں۔وہ ایک محنت کش ہیں جو زندگی بھر محنت کشوں کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے مگر اپنی کاوشوں کو کبھی منفعت کا ذریعہ نہ بنایا۔

آج سے دو دہائیاں قبل جب میں نے راولاکوٹ میں بطور رپورٹر صحافت کا آغاز کیا تھا توسردار سجاد خان ایک بڑے بھائی کی طرح میری سرپرستی کرتے،جہاں بھی مجھے ضرورت ہوتی وہ بروئے کار آنے سے گریز نہ کرتے۔اُسامہ علی انشاد کی والدہ محترمہ سے بھی میری چند مرتبہ ملاقات ہوچکی ہے،وہ ایک سادا مزاج مگر بااِخلاق خاتون ہیں۔اُسامہ علی انشاد کی موت پر یہ سارا خاندان جس کیفیت سے دوچار ہوا ہے اُس پر میرا دل روتا ہے۔شائد آزمائشیں اچھے لوگوں پر ہی آتی ہیں۔خُدا اس خاندان کو صبر و چین عطا کرے۔ مگر محض تعزیتی کلمات کہنے اور ہمدردی کے چند بول بولنے سے آپ اور میں اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔

اُسامہ علی انشاد کی موت اس خاندان کے لئے ایک ناقابلِ تلافی نُقصان ہے۔ہم اس نُقصان کی تلافی نہیں کرسکتے مگر اس خاندان کو انصاف دلوانے اور اُسامہ علی انشاد کی موت کا باعث بننے والے ملزمان کو قرارواقعی سزا دلوانے کے لئے تو اپنا کردا ر تو ادا کرسکتے ہیں۔اگر آج ہم نے یہ سوچ کر خاموشی اِختیار کرلی کہ ہمارے بچے محفوظ ہیں تو وہ وقت دُور نہیں جب خدانخواستہ ہمارے بچے بھی ایسی زیادتی کا شکار ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے