آمریت، جمہوریت اور عوام

سیاست عجب رنگ دکھاتی ہے، حکومت کی جانب سے احتجاجی ریلی کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، عوام تو دور کی بات ن لیگ کارکنان اب تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ احتجاج ہے کس کے خلاف؟ سپریم کورٹ کے یا پھر ان مبینہ سازشی عناصر کے کہ جنکا نام لینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ میاں صاحب کی وضعداری دیکھیے عہدہ چھن جانے کے باوجود اشارے کنایے کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا۔ نواز شریف کا پیغام مخاطبین تک پہنچا یا نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ ووٹر تک ضرور پہنچ گیا۔ شاید یہ احتجاجی ریلی سپریم کورٹ فیصلے سے پہلے نکالی جاتی تو اثرات مختلف ہوتے۔ شاید میاں صاحب پاناما اسکینڈل پر شوروغوغا کے پس پشت خفیہ عناصر پر انگلیاں اٹھانے کیساتھ مستعفی ہو جاتے تو جمہوری تاریخ رقم ہوتی۔ باسٹھ تریسٹھ کا ہدف بننے کے بعد احتجاج، گناہ بے لذت والی بات ہے۔ حسب عادت ن لیگ بڑی تاخیر سے متحرک ہوئی، انگریزی کہاوت کے مطابق لڑائی کے بعد یاد آنیوالا گھونسا اپنے منہ پرمارنا چاہیئے، ایسی صورتحال میں منیر نیازی کیوں نہ یاد آئیں

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

تاخیر تھی تو باعث تاخیر بھی بہت کچھ رہا ہو گا، صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی الائو کچھ اسطرح دہکا ہے کہ یوم آزادی کے رنگ بھی ماند پڑ گئے۔ تمام سیاسی رہنما، اینکرز، تجزیہ کار، عسکری و معاشی ماہرین بقدر ہمت و حوصلہ مقدس آگ میں ایندھن ڈال رہے ہیں تو ن لیگ سازشی عناصر کو کوس رہی ہے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ سازشی عناصر کے کارناموں سے بھری پڑی ہے، ہر سیاستدان خفیہ ہاتھ کا رونا روتا ہے، مقتدر وزرائے اعظم بے اختیاری اور ہاتھ بندھے ہونے کا دکھڑا سناتے ہیں مگر نام کوئی نہیں لیتا۔ سازشی عناصر، خفیہ ہاتھ، اسٹیبلشمنٹ، غیر جمہوری قوتیں، تیسری قوت اور کہیں کہیں تو کچھ بھی نہ کہا جائے تو بھی عوام الناس خود ہی سمجھ جاتے ہیں۔ نکاح کے تقدس کے باعث نام تو نہیں لیا جاتا لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ سلسلہ چھڑتے ہی تمام سیاسی دلہنیں متاثرہ منکوحہ پر گھونگھٹ ڈال کر پل پڑتی ہیں مگر خلع کوئی نہیں لیتی۔ ستر سال ہو گئے مگر سیاسی صفوں میں اتحاد، تنظیم اور یقین کا آج بھی فقدان ہے تو بھلا ایمانداری کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔

خیر جناب فی الحال سیاسی بیانیوں کی نہ ختم ہونے والی قوس قزح سیاسی شفق پر چھائی ہوئی ہے۔ ایک بیانیہ یہ ہے کہ چونکہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں تو اسکے خلاف طبل جنگ نہیں بجا سکتے، حضور بصد معذرت یہ منطق سمجھ سے باہر ہے کیونکہ بیشتر سیاسی قائدین اسی بساط کا شاخسانہ کہلاتے ہیں، بھٹو صاحب سے لیکر عمران خان تک، چوہدری برادران سے لیکر طاہر القادری کس پر یہ الزام نہیں لگا۔ مگر وقت نے دیکھا بھٹو نے سر جھکانے کے بجائے پھانسی کے پھندے کو ترجیح دی اور امر ہو گیا۔ ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ شریف برادران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو رویہ کچھ اور حکومت میں کچھ اور ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کتنا درست ہے مگر یہ ضرور ہے کہ نجانے کتنے عرصے بعد نواز شریف عوامی رنگ میں نظر آئے۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ بھٹو پر ملک توڑنے کا الزام لگانے والوں نے انہیں عظیم سیاسی رہنما قرار دیا، بینظیر کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد انکی مظلومیت پر افسردہ بھی رہے، گیلانی کو وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا چیلنج دینے کے بعد اس عمل کو غیر جمہوری بھی قرار دیا۔ وزیر اعظم ہائوس سے متصل اس بالادست پارلیمنٹ کو بھی خوب یاد کیا جہاں گئے عرصہ بیت جاتا تھا۔ کنٹینر، ریلی، دھرنا سیاست کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیکر اب اسی نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ بھی کیا۔ چار سال عوام تو دور بڑے بڑے جغادری رہنما اذن باریابی سے محروم رہے مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ مخالف جماعتیں مسلم لیگ ن میں دھڑے بننے کے بیانیے کو بھی اچھال رہی ہیں۔ دھڑا بندی کے بارے میں کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہو گا مگر پاکستان میں افواہوں کو حقیقت بنتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اسوقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف اور انکی ممکنہ جانشین مریم نواز نااہلی کے فیصلے کے بعد انتخابی سیاست سے دور جبکہ شہباز شریف کا خاندان فی الوقت خطرے سے باہرہے۔ این اے 120 سے کلثوم نواز کو انتخابات لڑوانے کا معاملہ جماعت کے اتحاد و اتفاق کیلئے باد نما ثابت ہو سکتا ہے۔ پاناما پر ن لیگ کی حکمت عملی اور احتجاج کے فیصلے پر اندرونی اختلافات بھی موضوع بحث رہے ہیں۔ چوہدری نثار راست گوئی کے باعث نواز شریف کے گرد جمع نورتنوں کے ٹھٹھول کا شکار بن چکے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بیانیئے میں چھپی افواہیں کب حقیقت کا روپ دھارتی ہیں۔

نواز شریف کا جوابی بیانیہ ہے کہ ووٹ کے تقدس کا پامال کیا گیا، کرپشن کا کوئی الزام نہیں، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا، معذرت کیساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اس بیانیئے کا جواز تو بنتا ہے۔ میں قطعی طور پر یہ نہیں کہہ رہا کہ کرپشن کے الزامات غلط ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ کرپشن کا کوئی الزام فیصلے کا حصہ نہیں ہے۔ اقامے کے پیچھے کیا کچھ ہے، نیب کیا تحقیقات اور عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے شاید یہ معاملہ انتخابات سے پہلے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے۔ گزشتہ کالمز میں عرض کر چکا ہوں کہ شریف خاندان نے پاناما کی قانونی جنگ عدالت کے بجائے میڈیا پر لڑی اور نتائج آپ کے سامنے ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ نیب ریفرنسز فائل ہو رہے ہیں اور شریف خاندان عوامی محاذ پر جنگ میں مصروف ہے، عدالت میں کیا ہوگا تو صاحب عقلمند را اشارہ کافی است۔ عام انتخابات لگ بھگ ایک سال کی دوری پر ہیں، سیاسی جماعتیں کمر کس چکی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں ن لیگ اب بھی طاقت رکھتی ہے لیکن سیاسی بساط پر مہروں کی جنگ کسی بھی وقت کوئی گل کھلا سکتی ہے۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف زرداری جیسے باکمال تو ہیں نہیں، شاہد خاقان عباسی بااعتماد سہی مگر گھر کے آدمی تو بہرحال نہیں ہیں، جلد نہیں تو بدیر پارٹی پر نواز شریف کی گرفت کمزور ہو گی، شہ نشین اور برابر والی کرسی پر بیٹھنے والوں میں فرق تو ہوتا ہی ہے۔ فی الحال یہ سمجھیں کہ ن لیگ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے ایک راستہ عروج تو دوسرا زوال کی جانب جاتا ہے۔ اس داستان کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خواہشات کو خبر بنانے کے دوڑ میں میڈیا خود اہک تماشا بن گیا، سوشل میڈیا پر صحافت کی جگ ہنسائی میڈیا انڈسٹری کیلئے نوشتہ دیوار ہے۔

آمریت، مارشل لا، جمہوریت، لولی لنگڑی جمہوریت، ستر سال بیت گئے سیاسی اور غیر سیاسی قائدین کی شعبدہ بازی جاری ہے۔ سیاسی قائدین آمروں پر، فوجی آمر سیاسی قائدین پر الزامات ڈالکر چل پڑتے ہیں اور عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی آج بھی تعلیم، صحت، صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں۔ یہ ایسا کھیل ہے جس میں جیت ہمیشہ قائدین کی اور ہار عوام کا مقدر بنتی ہے۔ اب ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ جب شریف خاندان کرپشن الزامات پر قانون کے کٹہرے میں آ سکتا ہے تو کسی کرپٹ کو نہیں بچنا چاہیئے، خواہ سیاسی پنڈت ہو یا فوجی سورما، کوئی مذہبی قائد، تاجر ہو یا مجھ جیسا عام شہری، اگرچہ احتساب کا کھیل پہلے بھی بہت کھیلا جا چکا ہے مگر شاید یہی امید کی ایک آخری کرن ہے۔ بہرحال عام انتخابات ایک بار پھر عوام کو پاکستان کی قسمت بدلنے کا موقعہ دے رہے ہیں، کیا ہونا ہے اسکا فیصلہ تو آپ نے کرنا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے