اثاثہ جات ریفرنس: زرداری کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

احتساب عدالت نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے پاکستان اور غیر ممالک میں موجود مبینہ غیرقانونی اثاثوں کے حوالے سے دائر ریفرنس میں بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے آصف زرداری کی جانب سے دو دہائی پرانے کرپشن ریفرنس میں بریت کی درخواست پر روزمرہ بنیادوں پر سماعت کی۔

سابق صدر نے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 265 کے تحت اپنی بریت کی درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ یہ درخواست رواں سال جنوری میں پیش کی گئی تھی تاہم سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس پر کارروائی انتہائی سست روی سے آگے بڑھی۔

28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد معاملے میں پیش رفت سامنے آئی اور راولپنڈی کی احتساب عدالت نے فاروق ایچ نائیک اور استغاثہ کی رضامندی سے رومزہ کارروائی کا آغاز کیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے کرپشن کے اس ہائی پروفائل ریفرنس کو معمول کے مقدمے کی طرح لیا جبکہ اس کے لیے کسی سینئر پراسیکیوٹر کو مقرر نہیں کیا گیا۔

کیس کی کارروائی ایک کم شہرت یافتہ پراسیکیوٹر طاہر ایوب نے کی جو راولپنڈی احتساب عدالت میں نیب کے معمول کے کیسز دیکھتے ہیں۔

دوسری جانب آصف زرداری کی نمائندگی سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کی جنہیں نیب کے سابق ایڈیشنل ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور دیگر وکلاء کی معاونت بھی حاصل تھی۔

جمعرات (17 اگست) کے روز فاروق ایچ نائیک نے استغاثہ کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کے قابل قبول ہونے پر سوال اٹھایا، استغاثہ کی جانب سے ایک اپروور اوصاف علی آغا کے بیان پر انحصار کیا گیا جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس نے آصف زرداری کے کہنے پر چار شوگر ملز قائم کیں۔

مزید پڑھیں: زرداری کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس دوبارہ کھل گیا

پراسیکیوٹر کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ اوصاف علی آغا نے 90 کی دہائی کے آغاز میں آصف زرداری کے لیے سکرنڈ شوگر ملز، انصاری شوگر ملز، مرزا شوگر ملز اور بچانی شوگر ملز قائم کیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اوصاف آغا نے مبینہ فرنٹ مین کے نام پر ان شوگر ملز کو قائم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپروور کے مطابق ان فرنٹ مینوں میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سمیت دیگر افراد شامل تھے جنہوں نے شوگر ملز سے حاصل ہونے والے منافع کا کچھ حصہ حاصل کیا جبکہ اس کا بڑا حصہ آصف زرداری کو گیا۔

واضح رہے کہ یہ ریفرنس ان پانچ ریفرنسز میں سے ایک ہے جو 2007 میں متنازع قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کے تحت بند کیے گئے تھے۔

اس آرڈیننس نے متعدد سیاستدانوں، سیاسی کارکنان اور بیوروکریٹس کو کرپشن کے مقدمات میں تحفظ فراہم کیا۔

تاہم 2009 میں سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام کیسز کو دوبارہ بحال کرنے کا حکم جاری کیا۔

اُس وقت تک آصف زرداری صدر کے عہدے کا حلف اٹھا چکے تھے اور انہیں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل تھا، نتیجتاً ان کے اثاثہ جات کے خلاف ریفرنس 2015 میں آصف زرداری کی مدت حکومت ختم ہونے کے بعد دوبارہ کھولے گئے۔

استغاثہ اپنے 41 میں سے 40 گواہ عدالت میں پیش کرچکی ہے جبکہ ایک گواہ بیرسٹر جواد مرزا اُس وقت ’پراسرار طور پر غائب‘ ہوگئے جب احتساب عدلت نے انہیں اعترافی بیان ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کیا، بعد ازاں بیرسٹر جواد کو مفرور قرار دے دیا گیا۔

جمعرات (17 اگست) کے روز آٖصف زرداری کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اب تک پیش کیے جانے والے تمام گواہان کی کوئی اہمیت نہیں جبکہ عدالت کے سامنے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جو قانونِ شہادت کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

اُدھر استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے اضافی دستاویزات جمع کرانا چاہتے ہیں جس پر احتساب عدالت کے جج خالد محمود رانجھا نے انہیں 22 اگست تک کی مہلت فراہم کردی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے