اسرائیل تسلیم کرنے کی مہم ۔پاکستان اسرائیل الائنس کے نام سے تنظیم قائم

پس پردہ کون ،بانی اورمقاصدکے حوالے سے سنسنی خیزانکشافات

پاکستان سے اسرائیل کوتسلیم کروانے کے لیے اسرائیلی ایجنسیاں پاکستان اور بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہو گئیں، برطانیہ میں ”پاکستان اسرائیل الائنس” کے نام سے تنظیم قائم، پاکستانی نژاد برطانوی پولیس ملازم کو بانی سربراہ مقرر کر دیا گیا،اس الائنس کابانی یہودی تنظیم کارکن اوران کی سنٹرل کمیٹی کابھی رکن ہے ”اسرائیل تسلیم کرو” مہم چلانے کے لئے پاکستان، اسرائیل، برطانیہ سمیت مختلف ممالک سے اراکین کی رجسٹریشن کر لی گئی، بعض پاکستانی مذہبی رہنمائوں کا بھی ”پاکستان اسرائیل الائنس” کا حصہ بننے کا انکشاف۔فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں حماس اورالاقصی بریگیڈ کے خلاف منفی مہم چلانے لگے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان اسرائیل تعلقات قائم کرنے اوراسرائیل کوتسلیم کروانے کے لیے پہلی بارمنظم مہم شروع کردی گئی ہے اس مہم کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اوریہودی تنظیموں کے تھنک ٹینک ہیں پاکستان اسرائیل الائنس کے نام سے برطانیہ میں تنظیم رجسٹرڈ کروائی گئی ہے اوراس کوبرطانیہ میں غیرسرکاری تنظیم کے طورپررجسٹرڈکیاگیاہے ،پاکستان اسرائیل الائنس دنیا کی واحد تنظیم ہے جو پاکستان کے قیام کے بعد پہلی دفعہ وجود میں آئی ہے یوں سمجھ لیں کہ پاکستان اور اسرائیل کی کم و بیش 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی تنظیم کو سرزمین برطانیہ میں وجود میں لایاگیا ہے۔

تنظیم کے بانی نورڈاہری کہتے ہیں کہ سرزمین برطانیہ ہی وہ واحد مملکت ہے جس کی کوکھ سے دنیا میں دو ممالک ظہور پزیر ہوئے ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ۔ اب وقت آگیا تھا کہ دونوں بھائی ممالک کو ایک ساتھ ملانے کے لیے سرزمین برطانیہ میں اس طرح کی تنظیم کو وجود میں لایا جائے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستانی عوام میں شعور کو اجاگر کرنا ہے اور 70 سالہ دوریوں کو دور کرنا ہے، اس تنظیم کے کوئی بھی سیاسی مقاصد نہیں بلکہ تعلیمی اور شعوری مقاصد ہیں۔ لوگوں کے دماغوں کے اندر ایک امن پسندانہ شعور اجاگر کرنا ہی اس تنظیم کی اولین ترجیح ہے۔تنظیم کابانی پاکستانی نژادبرطانوی شہری نورڈاہری ہے نورڈاہری گزشتہ پانچ سال سے لندن پولیس سے وابستہ ہیں اوراس وقت لندن میں مقیم ہے نورڈاہری کاتعلق حیدرآبادسے ہے اورہ یہودی تنظیم،،زائنسٹ فیڈریشن ،، کا اعزازی ممبر اوران کی سنٹرل کمیٹی کابھی رکن ہے۔

نورڈاہری اس حوالے سے اپنے ایک انٹرویومیں کہتے ہیں کہ وہ یوکے کی صیہونی سینٹرل کونسل کا اعزازی ممبر بھی ہوں، میں دنیا کا پہلا پاکستانی مسلمان ہوں جن کو یہ اعزازات عطا کیے گئے ہیں جس پر مجھے بے انتہا فخر ہے نورڈاہری تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے اسرائیلی وزیراعظم کی کابینہ کے ممبران ،اسرائیلی آرمی کے عہدیداران ،اسرائیلی انٹیلی جنس کے اعلی افسران سے بھی ملاقاتیں کرچکاہے اوران سے رابطوں میں ہے۔

،،پاکستان اسرائیل الائنس کی بنیادکچھ عرصہ قبل رکھی گئی تھی جس کامقصد (پاکستانی اور اسرائیلیوںکو آپس میں قریب لانا اورپاکستان سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرواناہیں یہ الائنس ابتدائی مرحلے میں میں سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور مستقبل میں الیکٹرانک میڈیا کو بھی بروئے کار لانے کاعزم رکھتاہے۔ اس حوالے سے پاکستان اوردیگرممالک میں مقیم پاکستانیوں سے رابطے کرکے انہیں اس بات پرقائل کرناہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات کی حمایت کریں ۔

نورڈاہری نے اس حوالے سے اعلان کیاہے کہ وہ یوکے کے مختلف شہروں کا دورہ کررہے ہیں جہاں میں عوام سے ملاقاتیں اورخطابات کررہے ہیں ۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ تعلیمی اداروں میں تقاریر ہونگی اس کے بعد دوسرے ملکوں کا دورہ کریں گے،ذرائع کاکہناہے کہ پاکستان اسرائیل الائنس نے چندماہ قبل تک پاکستان میں ممبرشپ شروع کی تھی جس میں سوشل میڈیاکے ذریعے باقاعدہ ایک فار م بھی تقسیم کیاگیاتھا الائنس کے ذرائع کے مطابق انہیں ہزاروں درخواستیں موصول ہوئی تھیں جس میں سے چھان پھٹک کے بعد صرف 36ممبرپاکستان سے چنے گئے ہیں جواس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کررہے ہیں ان کے زیادہ ترممبران ادب اورلکھنے لکھانے کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔

اسی طرح اسرائیل سے بھی 36لوگ ممبربنائے گئے ہیں ذرائع کاکہناہے کہ پاکستان کے ایک مشہورپانی پتی قاری صاحب کے صاحبزادے جوعالم دین ہیں وہ بھی اس کے ممبربنے ہیں پاکستان اسرائیل الائنس کے ذمے داران کاکہناہے کہ یہودیت کی بنیاد ایک مخصوص اور یکساں نظریہ پر ہوئی وہ ہ یہ کہ یہودیوں کا اسرائیل میں رہنا ان کا بنیادی حق ہے اور اسرائیل کا اس سرزمین کا قائم ہونا جائز اور قانونی حق ہے، پاکستان اسرائیل الائنس یہ تاثردینے اورعوام کے ذہن میں یہ پروپیگنڈہ بٹھانے کی کوشش کررہاہے کہ پاکستان فلسطینی مسئلے پر اور اسرائیل پاک انڈیا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ثالث کا رول بھی ادا کر سکتا ہے۔

دونوں ملکوں کے قریب آنے سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بطور دہشت گرد دھندلائی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے ۔دونوں ملکوں کودہشت گردی کا سامنا ہے اور دونوں ملک اس سے بہتر طریقے سے نبٹ کر ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں ۔ جب ہمارے فوجی جرنیلوں اور سیاسی حکمرانوں کے اسرائیل کے ساتھ ذاتی تعلقات رہے ہیں تو اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کی با شعور عوام اس تعلق کو کھلے عام نہ صرف قبول کرے بلکہ اپنے حکمرانوں پر بھی دبا ڈالے کہ ان تعلقات کو عوامی سطح پر اجاگر کرکے ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کیا جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اپنے ملک کی خوشحالی اور کامیابی ہو۔

پاکستان اسرائیل الائنس کے بانی صدرنورڈاہری نے انگلینڈ کے آکسفورڈ کالج سے کرمنل سائیکالوجی میں ڈپلومہ کیا اور میری لینڈ یونیورسٹی- امریکا اور آئی سی ٹی- اسرائیل سے انسداد دہشت گردی کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے صوبے سندھ سے ہے ، ان کی شناخت سندھی ہے اور ان کی زندگی کا بہت عرصہ حیدرآباد شہر میں گذرا ہے۔وہ اپنے مذہب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے ہر مکتبہ فکر کی کتابوں کا بغور تحقیقی جائزہ لیا ہے اور ان کی جماعتوں سے وابستگی بھی رہی ہے۔ چاروں سنی اماموں(حنفی، مالکی۔ حنبلی، شافعی) ، شیعہ کے اماموں اور ان کے فقہ جعفریہ پر بھی تحقیق کی ہوئی ہے اس کے علاوہ قادیانی کمیونٹی کی بھی بہت ساری کتابیں زیر نظر گزری ہیں۔

چاروں صحیح احادیث کی کتابیں بشمول اصول کافی، الرسال اور شیعہ مکتبہ فکر کی نہج البلاغہ میری لائبریری کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بریلوی اور دیوبندی(تبلیغی جماعت)کے زیر اثر رہ کر کافی کام کیا ہے ۔ مگر اس وقت جس مکتبہ فکر پر کاربند ہوں اور زندگی کے آخری وقت پر کاربند رہوں گا وہ ہے سلفی مکتبہ فکر جس کو پاکستان میں اہل حدیث کیا جاتا ہے۔ الحمداللہ ۔ پچھلے دس سالوں میں اسلامی افکار اور اسی مکتبہ فکر کے زیر اثر تقریبا 150 مضامین لکھ چکا ہوں۔

وہ مزیدلکھتے ہیں کہ انگلینڈ کے ابتدائی عرصے میں دین سے بلکل الگ ہوگیا تھا اور مارکس ازم کا ایکٹو ممبر رہ چکا ہوں، اس کی وجہ پاکستان کے سیاسی مذہبی جماعتوں سے بیزاری اور ان کے ایک دوسرے پر کافر کے فتوے لگاکر قتل عام جیسے قبیح اعمال ہیں۔

پاکستان اسرائیل الائنس کے سربراہ نورڈاہری نے پاکستان کے وجودپربھی سوال اٹھادیاہے وہ اپنے ایک انٹرویومیں تحریرکرتے ہیں کہ دنیا کہتی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر اپنا قبضہ کیا ہے حالانکہ یہ بلکل غلط ہے، فلسطین اس وقت مملکت برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور اس کا پورا نام برٹش مینڈیٹ فلسطین تھا۔ اور وہ برطانیہ نے ایک معاہدہ کے طور پر دونوں قوموں کو یکساں تقسیم کیا تھا، اب اگر فلسطینی اس تقسیم سے خوش نہیں تھے تو اس میں اسرائیل کا کیا قصور؟ ہندوستان کی تقسیم بھی تو ہندوں کو ناپسند تھی اور وہ بھی تو پاکستان کے مخالف تھے ، اسی وجہ سے تقسیم کے بعد خود ہندوں نے اسی جرم میں گاندھی کا قتل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان ناجائز نہیں تو اسرائیل بھی ناجائز نہیں ہوسکتا۔ یہ ہی وجوہات تھیں کہ میں نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا۔

پاکستان اسرائیل الائنس کے سربراہ نے ملک پاکستان کے اہم اداروں اورسیاسی شخصیات پرسنگین قسم کے الزامات بھی عائدکیے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے نہ صرف پاکستان کی امریکی حکومت کے سامنے نمائندگی کی بلکہ کئی لڑاکا جہاز اور روکے ہوئے پیسے بھی دلوائے اور تو اور امریکہ سے نئی ملٹری ٹیکنالاجی بھی پاکستان کو دلوائی۔ نوازشریف اور بے نظیر کے اسرائیل کے ساتھ قریبی اور ڈائریکٹ تعلقات رہے ہیں۔

پاکستان کے کئی سیاستدانوں ، مذہبی لیڈروں اور پاکستانی میڈیا کے کئے جانے پہچانے نمائندوں نے تل ابیب اور یروشلیم میں محفلیں سجائی ہیں اور تو اور کئی نامور سیاستدانوں نے امریکہ میں اسرائیلی بانڈز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی نے اسرائیلی موساد کو نا صرف قیمتی اور حساس معلومات دی ہے بلکہ کئی مشترکہ آپریشن بھی کئے ہیں۔ میرے خیال میں دونوں ممالک کے یکجا تعلقات کے لیے اتنا ہی پیش کرنا کافی ہے باقی باتیں کسی اور وقت میں ہونگی۔ جب اتنا کچھ پردے کے پیچھے ہورہا ہے تو پھر عوام کو بے وقوف اور ان کے اندر نفریتیں پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا سوا یہ کہ ان لوگوں کی سیاست کی دکان چلتی رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے