انقلاب، آئین کی توہین کرنے سے نہیں آتا

نااہل قرار پانے والے سابقہ وزیر اعظم جناب نواز شریف کے سنگین جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے شریف خاندان اور ان کی پارٹی نے جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے لاہور تک نکالی گئی ریلی میں جگہ جگہ نواز شریف نے اپنے خطابوں میں جس جملے پر تکیہ کلام کیا گیا وہ یہ تها کہ” ہم انقلاب لائیں گے ” ان کا یہ جملہ دانشمندان سمیت زمینی حقائق سے باخبر اور پاکستانی سیاست کا شدبد رکهنے والوں کے لئے ایک خندہ دار لطیفہ ہونے کے ساتهہ ساتهہ اس جملے کا مصداق تام تها کہ ” چور مچائے شور”

بدون تردید انہوں نے اپنی پرانی عادت کے مطابق جگہ جگہ ریلی میں انقلاب کا نعرہ لگا کر ایک بار پهر عوامی فریبی کی شمپو سے اپنے ماتهے پر آئے ہوئے سیاہ دهبے اور داغیں صاف کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، میاں صاحب” انقلاب آئین کی پائمالی اور توہین کرنے سے نہیں آتا ہے، انقلاب مختلف اسباب وعلل کا معلول ہے ،انقلاب لانے کے لئے بہت ساری شرائط درکار ہیں، جنہیں بلاکم وکاست انسان اپنے اندر پیدا کرنے کے بعد ہی وہ معاشرے میں انقلاب برپا کرنے میں موفق ہوجاتا ہے، جن میں سے اہم اور بنیادی شرط قانون کی پاسداری ہے – کسی بهی ملک میں انقلاب کی کامیابی اور اس کے آئین کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے میں ناقابل تفکیک اتصال پایا جاتا ہے ، مگر سابقہ وزیراعظم نے نہ فقط شخصی اور ذاتی طور پر پاکستان کے آئیین وقانون کا احترام نہیں کیا بلکہ اپنے ساتهہ اپنی پوری پارٹی کو بهی قانون کی بے احترامی کروانے کے لئے سڑکوں پر لے آئے اور غریب عوام کو جی ٹی روڈ پر قانون کے خلاف لانگ مارچ کرنے پر مجبور کردیا،

شاید لانگ مارچ کرتے کرتے اچانک ان کے دماغ میں یہ بات آئی ہوگی کہ دنیا میں اب تک جتنے انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں ان کی کامیابی کے عناصر میں سے ایک عنصر خون اور شہادت ہے جس کا نواز شریف کو اپنی انقلابی ریلی میں فقدان دکهائی دیا اور جب ایک بارہ سالہ بچے کو گاڑی تلے رونڈ ڈال کر خون ناحق میں ڈبوکر قتل کیا گیا تو نواز شریف اور اس کے ہمفکروں کو خوشی ہوئی چونکہ ان کے انقلاب کی کامیابی کی راہ میں حائل خون کی کمی کا جبران ہوا ، جب بچہ قتل ہوا تو میڈیا والوں نے نواز شریف کے دائیں اور بائیں بازو کی حیثیت کے حامل افراد سے انٹرویو لیا گیا، انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ یہ بچہ جمہوریت کی راہ میں شهید ہوا ہے، اس کا خون رنگ لائے گا وغیرہ اس طرح بیان دے کر انہوں نے داغدار والدین کے زخمی دل پر نمک پاشی کی ہے ،آخر اس پهول کا کیا قصور تها جسے غنچے سی باہر نکلتے ہی مسل کر مرجها دیا گیا، اگر چہ بظاہر انہوں نے ایک بچے کو قتل کردیا ہے لیکن اللہ تعالی کی لاریب کتاب کی تعلیمات کے مطابق حقیقت میں انہوں نے پوری انسانیت کو قتل کرچکے ہیں، نص قرآن ہے کہ( جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا ہے، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی، اور ہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں)۔

نواز شریف صاحب” پانامہ کے بارے میں عدلیہ کا فیصلہ آنے سے قبل یہ کہتے نہیں تهکے کہ آیین کے مطابق جو فیصلہ ہوگا وہ مجهے منظور ہے ، ان کی رضایت سے ہی پانامے کی تحقیق کے لئے جے آئی ٹی کی ٹیم بنی ،جب انہوں نے پوری تحقیق کرکے نتیجہ عدلیہ کو دے کر عدلیہ نے اسے مجرم قرار دے کر اس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور وزارت عظمی کے عہدے سے آنجناب کو نااہل قرار دیا تو وہ اپنے قول سے مکر گئے اور کہنے لگے کہ عدلیہ نے میرے ساتهہ ناانصافی کی ہے، اب انصاف کی تلاش میں انہوں نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو بغاوت کرنے پر اکسایا اور انقلاب کا نعرہ بلند کیا، بے چارے عوام کو مختلف شعار کے ذریعے اپنے گهروں سے باہر لائے عوام کی اکثریت تو ان کی اس غلط حرکت کے تماش بنی رہی، صرف پنجاب سے تعلق رکهنے والوں نے نواز شریف کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی ریلی میں شرکت کرکے ان کے احسانات کا بدلہ دینے کی کوشش کی گئی،چونکہ نواز شریف صاحب نے اپنے اقتدار کے ادوار میں صرف پنجاب کو ہی پورا پاکستان سمجهتے ہوئے اسے خوب بنایا اور سجایا ہے ، پنجاب کے علاوہ خیبر پختون خواہ، کراچی سمیت گلگت بلتستان کو انہوں نے یکسر طور پر نظر انداز کردیا ہے, یہی وجہ ہے کہ ان جگہوں سے نواز شریف کی ریلی کی حمایت میں کہیں کوئی جلسہ جلوس نہیں نکلے,

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب "انقلاب لانے کے لئے عوام کے دل پر حکومت کرنا ضروری ہے اور عوام کے دل پر حکومت وہی افراد کرسکتے ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتهہ انصاف کا برتاو کریں، جناب عالی نے قومی سرمائے پر ڈاکہ مار کر عوام کے دل میں نفرت اور دشمنی کاشت کی ہے صرف اپنے خاندان اپنی پارٹی اور اپنے دور اقتدار کے کاسہ لیسوں کو جمع کرنے کرکے انقلاب لانے کی باتیں کرنا خواب اور بهول ہے،” عوامی طاقت” انقلاب کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے اس حقیقت کی عملی تصویر ایران کے انقلاب میں دکهائی دیتی ہے ۔ ایران کی سرزمین پر حضرت امام خمینی کی قیادت میں آئے ہوئے انقلاب میں عوامی طاقت کا بنیادی اسباب میں سے ہے، عوام کے دلوں پر امام خمینی کی حکومت تهی جس کے سبب ان کے اشارے سے سارے مرد وزن گهروں سے باہر نکلے، زیادہ تر لوگ میدان میں آئے اور شاہی حکومت کی سرنگونی اور اسلامی نظام کی برقراری کا مطالبہ کیا۔ فوجی، کاریگر، مزدور، کسان، علماء و طلاب اسٹوڈنٹس، معلم، غرض ملک کے ہر طبقہ کے لوگ اس انقلاب میں حصہ دار اور شریک تهے۔ دوسرے انقلابات میں زیادہ تر فوجیوں اور پارٹیوں کا ہاته رہا ہے جنہوں نے مسلحانہ جنگ کرکے کام کو تمام کیا ہے اور عوام نے ان کی حمایت کی ہےلیکن ایران کے انقلاب میں سارے لوگ شریک رہے ہیں اور پورے ملک میں پوری قوت کے ساتھ رضا شاہ پہلوی کا مقابلہ کیا

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ” نواز شریف کی ریلی میں شریک عوام کا نعرہ مجرم کو غیر مجرم اور بے انصاف کو انصاف دلوانے کا تها جو خود خلاف منطق اور غیر منصفانہ مطالبہ ہے جب کہ ایرانی عوام کے نعرے جو ان کے مطالبات کو بیان کرتے ہیں ذیل کے چار اصلی عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں: ۱۔ استقلال بلاتردیدظالم شاہی حکومت کے خلاف ہوئے مقابلوں میں لوگوں کا سب سے بنیادی نعرہ استقلال طلبی تها۔ شاہ کے زمانے کا ایران علاقہ میں محافظ دستہ کے حکم میں امریکا اور مغرب کے لئے کام کرتا تها۔ قانون سرمایہ داری جو حکومت نے پیش کیا اور اس وقت کی قومی مجلس عاملہ نے اس کو تصویب کیا اس سے امریکی مشیر کاروں کو تحفظ ملا، تاکہ وہ کسی اضطراب اور وحشت کے بغیر ایران کے اندر عوام کی عمومی ثروت و اموال کو لوٹ لیں۔ شاہ کی فوج بهی مکمل طورپرامریکی جنرل کے اختیار میں تهی اور اس کا اپنا کوئی ارادہ نہ تها، استقلال اور آزادی ایرانی عوام کے لئے انقلاب اسلامی کا بہت بڑا تحفہ تهی، یہی وجہ ہے کہ جمہوری اسلامی ایران کااساسی قانون اپنے متعدد بند میں واضح الفاظ میں استقلال پر زور دیتا ہے اور آج بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایران آزادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے اچها ملک شمار ہوتا ہے۔ ۲۔ آزادی آزادی آخری دو صدیوں میں عوامی مطالبات کے زمرے میں ہمیشہ انقلابوں اور تحریکوں کے اہداف و مقاصد میں سرفہرست ایران کی استقلال طلبی اور آزادی خواہی رہی ہے۔ ظالم اور ڈکٹیٹر شاہ پہلوی نے اضطراب اور گهٹن کا ماحول بنا کر ایرانی قوم کو معمولی آزادی سے بهی محروم کردیا تهااور اس جگہ پرقید خانے راہ حق میں جہاد کرنے والوں سے بهرے ہوئے تهے اور مجلسیں اور کٹه پتلی حکومتیں یکے بعد دیگرے آتی جاتی رہتی تهیں اور اس درمیان جس چیز کی کوئی اہمیت نہ تهی وہ قانون اور عوام کا کردارتها ۔ شاہ کی ہر طرح سے حمایت کرنے کے لئے ایران میں ۲۸/مرداد ۱۳۳۲ه ش)۱۰/اگست ۱۹۵۳م( کی بغاوت کے بعد امریکا اور انگلینڈ کی ہدایت کے مطابق فوجی حکومت تشکیل پائی اوراس نے آزادی اور مجاہدین راہ حق کو کچلنے اور پسپا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ایسے گهٹن کے ماحول میں ایرانی عوام نے جمہوری اسلامی کے ہمراہ آزادی اور "استقلال” کا نعرہ بلند کیا ۔ ۳۔ جمہوری اسلامی شہید آیۃ اللہ مطہری کا خیال تها کہ "جمہوری” حکومت کی شکل ہے اور اس کا اسلامی ہونا ادارہ ملک کے مفہوم کی نشاندہی کرتا ہے۔ جمہوری اسلامی نے ۹۸فیصد سے زیادہ ایرانی عوامکے ووٹ سےشاہی سلطنت کی جگہ لی ۔ امام خمینی رح نے اس دن کو عید کا دن اعلان کیا اور اپنے پیغام میں فرمایا: تمہیں وہ دن مبارک ہو جس دن تم نے جوانوں کی شہادت اور طاقت فرسا مصیبتوں کےبعد دیو صفت دشمن اور فرعون وقت کو زمیں بوس کردیا اور اس کو ایران سے فرار کرنے پر مجبور کردیا اور اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے بهاری اکثریت سے شاہی سلطنت کی جگہ جمہوری اسلامی کو بٹها کر حکومت عدل الہی کا اعلان کیا، ایسی حکومت جس میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکها جائے گا اور عدل الہی کا سورج سب پر یکساں نورافشانی کرے گا اورقرآن و سنت کی باران رحمت سب پر یکساں نازل ہوگی۔ )صحیفہ امام، ج۶، ص۴۵۳( نہ شرقی نہ غربی کا اہم نعرہ گویا ملک کےداخلی امور میں غیروں کے تسلط کی نفی ہے ۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ جمہوری اسلامی کی نہ غربی نہ شرقی نعرہ کے ضمن میں خارجہ پالیسی مندرجہ ذیل چند اصول پر استوار ہے: ہرطرح کی تسلط جوئی اور تسلط پذیری کی نفی: ہمہ جانبہ استقلال اور ملک کی سرزمین اور سرحدوں کی حفاظت، تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، سامراجی اغیار سے کوئی عہد و پیمان نہ کرنے کا عہد، جنگ نہ کرنے والی حکومتوں سے صلح آمیز روابط، ہر اس معاہدہ پر پابندی جو اغیار کے تسلط کا موجب ہو اور دنیا کے کسی بهی گوشہ و کنار میں موجود مستکبرین عالم کے مقابلے میں مستضعفین عالم کے حق طلب مقابلہ کی حمایت، ایسی سیاست اپنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران میں استعماری طاقتوں سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور اغیار سے جنگ کرنے اور سامراج مخالف تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑی (1)
۔ جی میاں نواز شریف صاحب انقلاب آئین کا احترام کرنے سے آتا ہے نہ بے احترامی کرنے سے

(1) حوالہ :
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/انقلاب

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے