پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں، مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔ افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ، دوسری صورت میں نقصان ہوگا۔

آرلینگٹن کےفوجی اڈے سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے افغانستان اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہماری نئی پالیسی میں افغانستان اور پاکستان خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ سفارتی، سیاسی اور فوجی حکمت عملی کو یکجا کرکے اقدام کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم ان پر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے جو دہشت گردوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی قوم پچھلے 16 سال کی جنگوں سے پریشان ہوچکی ہے، انھوں نے مزید کہا کہ مجھے بھی امریکی عوام کی طرح افغان جنگ کی طوالت پر مایوسی ہوتی ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد افغانستان اور جنوبی ایشیاکی حکمت عملی پر غور کیا اور افغانستان کو ہر ممکنہ زاویے سے دیکھا اور کابینہ سے ملاقات کرکے اسٹریٹیجی بھی تیار کی۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہماری قوم کو فوجیوں کی قربانیوں کا صلہ چاہیے۔ عراق سے تیز انخلا کا نتیجہ داعش کے تیزی سے پروان چڑھنے کی صورت میں نکلا لہذا عراق کی طرح انخلا کرنے کی غلطی افغانستان میں نہیں دہرائی جائے گی۔

ڈونلڈٹرمپ نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان اکثر ان افراد کو پناہ دیتا ہے جو افراتفری پھیلاتے ہیں، ہمیں افغانستان اور جنوبی ایشیا میں چیلنجنگ صورتحال کا سامنا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے کردار کے معترف ہیں،چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے۔ انھوں نے کہا کہ صرف فوجی طاقت سے افغانستان میں امن نہیں آسکتا۔ افغان عوام کے ساتھ مل کر کام کریں گے ۔

پالیسی جاری کرنے سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کرکے نئی امریکی پالیسی پر اعتماد میں لیا تھا۔

اپنے خطاب میں امریکی صدر نے خبردار کیا کہ ان کا نقطہ نظر اب تصوراتی سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد ’بلینک چیک‘ نہیں، ’ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں‘۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے‘۔

افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’اوول آفس کی ڈیسک کے پیچھے سے صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے امریکی فوج کے تیزی سے انخلاء کی صورت میں ایک خلاء پیدا ہوگا جسے دہشت گرد فور طور پر بھر دیں گے‘۔

گو ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات کیے جانے والے امریکی فوجیوں کی کُل تعداد سے متعلق خاموش رہے تاہم وائٹ ہاؤس کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اپنے سیکریٹری دفاع کو افغانستان میں مزید 3900 فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار دے چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے