کرپشن، دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف سندھ مارچ

یہ بات بلکل بھی درست نہیں کہ سندھ میں سیاست صرف پیپلز پارٹی کے گرد ہی گھومتی ہے یا شہروں کی سیاست پہ صرف ایم کیو ایم کا ہی راج ہے۔
اس تحریر کے ساتھ منسلک تصویر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی سیاست کی عوامی طاقت کا تازہ منظر ہے۔

کراچی کے دل صدر میں یہ لاکھوں لوگ دو دن قبل بیس اگست کے دن کرپشن، دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف سندھ مارچ نعرے تلے جمع ہوئے ـ جن میں ایک بہت بڑی تعداد خواتین کی بھی تھی۔

سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے روح رواں جلال محمود شاہ ، برصغیر کے نامور قوم پرست رہنما سائین جی ایم سید کے پوتے ہیں۔ جلال شاہ نے اپنے دادا کی سندھی قومپ رستی والی سیاست اور اپنے والد امداد محمد شاہ کی پارلیمانی سیاست کے امتزاج پے مبنی سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی بنیاد دس سال قبل ڈالی تھی ۔ جس کی شاخیں اس وقت سندھ کے ہر ضلع میں ہیں۔

امداد محمد شاہ ، سائین جی ایم سید کے کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے ایوب خان کی آمریت کے دور میں ان کے خلاف الیکشن لڑنے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ پھر جب سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بول رہا تھا تو امداد محمد شاھ شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ کھڑے تھے۔

وہ عوامی لیگ کے مرکزی ھاری ( پیزنٹ ) سیکریٹری بھی رہے۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر ان کی شاندار کارکردگی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔

الیکشن میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکنے کے باوجود ( جس کی ایک بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا سندھی قوم پرستوں کو اسمبلیوں سے دور رکھنے کی خواہش بھی ہے) سندھ یونائیٹڈ پارٹی پورے سندھ میں اپنا وجود رکھتی ہے اور اقتدار میں رہنے والی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی کرپش کی سخت مخالف ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اردو میڈیا نے کراچی میں لاکھوں لوگوں کے اس مجمع کی کوریج نہ ہونے کے برابر کی۔ حالانکہ اس سندھ مارچ کی ایجنڈا کرپشن، دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف کھڑا ہونے کی تھی۔

اتنی بڑی تعداد میں کراچی میں کرپشن، دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف جمع ہونے پر سندھ کے لوگوں کے مزاج کی مکمل جانچ ملتی ہی کہ وہ ان تینوں چیزوں کے سخت خلاف ہیں۔

موجودہ زرداری پیپلز پارٹی کی الیکشن سیاست میں کامیابی کا راز بے انتہا دولت، وڈیروں کی سنگت، اقتدار میں ہونا، نگران حکومت میں ہونا، الیکشن کے دوران پولیس کا استعمال اور اوپر کی آشیرواد ہے۔

ورنہ ۲۰۱۳ کے الیکشن کے نتائج اس لحاظ سے حیران کن ہیں کہ سندھ میں قومی اسیمبلی کی سیٹیں تو پیپلز پارٹی کو ملیں تھیں مگرعام ووٹوں کی تعداد ان کی مخالفت میں زیادہ تھی۔

۲۰۱۳ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے کراچی سے باہر باقی سندھ میں قومی اسمبلی کی ۴۱ جنرل سیٹوں پر ٹوٹل اکتیس لاکھ اور کچھ ہزار ووٹ حاصل کیئے تھے جبکہ ان کی مخالفت میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد ۳۲ لاکھ سے زیادہ ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ دولت، پولیس ، حکومت اور وڈیراشاہی کی مدد سے سیٹیں تو حاصل کی جا سکتی ہیں مگر عوامی مینڈیٹ نہیں۔
بہر حال بغیر کسی غیبی طاقت کی مدد سے کراچی میں سندھیت کے نام پہ جمع ھونے والے ان لاکھوں لوگوں کے مطالبے کافی پرزور تھے کہ

سندھ میں کرپشن کے خلاف میرٹ پر بنا کسی فرق کے بے رحم آپریشن کیا جائے۔ ملک میں ایک اور این آر او لانے کی کوشش ہو رہی ہے جس کی شدید مخالفت کی جائے گی

سندھ میں کرپٹ لوگ دندناتے پھر رہے ہیں مگر انہیں کچھ نھیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیئے سندھ اسمبلی سے نیب کے خلاف قانون پاس کروایا گیا ہے۔

اس اجتماع میں سندھ سے لاپتہ کیئے گئے سیاسی کارکنوں کوظاہر کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے