نیلہ بٹ،سردارعبدالقیوم اورکچھ ذاتی یادیں

ریاست جموں وکشمیر خصوصاً آزاد جموں وکشمیر کے بڑے سیاستدانوں میں سردار ابراہیم خان ‘ سردار عبدالقیوم خان ‘ کے ایچ خورشید ‘ ممتاز راٹھور مرحوم عوامی مقبولیت کے لحاظ سے نمایاں نام رہے ہیں ۔ جن کو اب بھی ان کے محلات ‘کوٹھیوں ‘ اثاثوں اور برادریوں سمیت وی آئی پی لائف سٹائل نہیں بلکہ ان کے انداز سیاست اور بطور حکمران طرز عمل کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ‘ ان چاروں مرحوم شخصیات کے پس منظر میں کوئی پولیٹیکل بیک گراؤنڈ یا ذرائع اسباب نظر نہیں آتے ہیں ‘ اپنے اپنے انداز ‘ محنت ‘ طریقہ کار سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور دارفانی سے چلے جانے کے بعد بھی ان کے نام متعبر جانے جاتے ہیں ‘ ان چاروں مرحوم ناموں میں سردار عبدالقیوم خان کا نام مقبولیت و اقتدار و سیاست پر زیادہ دسترس کے ساتھ ساتھ متنازع ہونے میں سبقت کا حامل رہا ہے ‘

سردار عبدالقیوم خان سے منسوب یوم نیلہ بٹ کو ان کی زندگی میں منائے جانے کا سلسلہ جاری تھا ‘ جہاں وہ خود خطاب کرتے تھے اور نواز شریف سمیت دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے خطابات کیے ان کی طرح اس مقام سے منسوب واقعے کو بھی متنازعہ سمجھا جاتا تھا اور ہے ‘ جس کی درستی خود سردار عبدالقیوم نے راقم کو ہدایت کرتے ہوئے کہا آپ لکھیں ‘ نیلہ بٹ سے پہلی گولی نہیں چلی بلکہ یہاں بھی ایک میٹنگ ہوئی تھی ‘ جس میں ڈوگرہ افواج کے خلاف شرکاء نے حکمت عملی تشکیل دی ‘ اور خطہ کے دیگر مقامات و لوگوں کی طرح ان شرکاء نے بھی مزاحمتی عمل اختیار کیا ۔

یوم نیلہ بٹ کے موقع پر میں نے ایک بار کالم لکھا اور پختہ یقین ہو گیا جو بات سینہ بہ سینہ پھیل جائے پھر اس کا صحیح حقیقت کے معنوں میں پرچار کرنا اور یقین کرنا ممکن نہیں رہتا ہے ‘ اس لیے سیاستدانوں کو بات کرتے ہوئے بہت ذمہ داری سے کام لینا چاہیے ان کے ذریعے بشمول علماء اور میڈیا آگے نکلنے والی بات سینہ بہ سینہ پھیل کر اہمیت اختیار کر جاتی ہے ‘ اور سچ بھی جھوٹ کے ملنے سے بے رنگ ہو کر رہ جاتا ہے ‘ پہلی گولی چلنے کا چرچا نکال کر باقی نیلہ بٹ کی میٹنگ اور اپنے طرز پر شرکاء کی مزاحمت کا لائحہ عمل حقیقت ہے مگر اس سے بڑھ کر سردار عبدالقیوم خان کی سیاسی زندگی کے پہلو زیادہ اہمیت افادایت کے حامل ہیں ‘

گو کہ ان کی سیاست کے پہلوؤں پر حمایت اور مخالفت میں حقائق عذرات کے ساتھ گھنٹوں بات ہوسکتی ہے۔بقول ان کے جانشین ‘اکیڈمک ڈسکشن ہوسکتی ہے۔بہت ساری باتیں واقعات جن کا خود صرف کانوں سے سنا ہی نہیں آنکھوں سے مشاہدہ بھی کیا ‘ سردار عبدالقیوم خان نے خود نکیال جا کر سردار سکندر حیات خان کو منایا اور س ‘ ق دھڑوں کو ایک کرتے ہوئے جماعت کو متحد کیا

2006ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس نے کامیابی حاصل کی تو اس بار سردار عبدالقیوم خان کے سیاسی جانشین ان کے فرزندسردار عتیق بھی وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار تھے ‘ اور ممبران کا بھاری گروپ حمایتی تھا ‘ سکندر حیات بھی بطور اُمیدوار مقابلے میں تھے اولڈ سیکرٹریٹ زلزلہ میں ختم ہو جانے والے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے ہال میں سکندر حیات رونق لگائے ہوئے تھے تو وی آئی پی روم میں سردار عبدالقیوم خان موجود تھے ہم اخبار نویس کون بنے گا وزیراعظم کی خبر کی جستجو میں موجود تھے ‘ ایک شور بلند ہوا سردار عتیق حامی ممبران کو لے کر چلے گئے ہیں ‘ پتہ خبر کرنے پر کچھ معلوم نہ ہونے پر سردار سکندر حیات کی طرف سے سردار عبدالقیوم خان کو پیغام بھیجوا گیا ‘ عتیق خان کا پتہ کریں ‘ کہاں ہیں ‘ جنہوں نے لوگوں سے پوچھا تو جواب نفی میں تھا ‘ کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا ‘ خاموشی چھا گئی ‘ کچھ دیر بعد گاڑی لگوانے کا اشارہ کیا اور فرنٹ سیٹ پر جابیٹھے ‘ان کے اسسٹنٹ پی ایس کے ساتھ میں بھی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا ‘ گاڑی ان کے اشاروں کے مطابق چلتی ہوئی عیدگاہ پیرعلاؤالدین گیلانی ؒ کی زیارت جا کر پہنچی ‘ اُترے اور زیارت کے اندر زانو شکستہ بیٹھ کر تسبیح کی دُعا کے بعد دوبارہ گاڑی میں سوار ہوئے ‘ جو نیلم ویو ہوٹل جا کر رُکی ‘

اس سارے سفر میں مکمل خاموشی تھی ‘ جونہی گاڑی سے نکل کر ہوٹل نیلم ویو کے اندر داخل ہوئے تو سامنے خواجہ شفیق سی ایم ایچ روڈ والے تھے ‘ جو سردار عبدالقیوم خان پر نظر پڑتے ہی ششدر رہ گئے اور سگریٹ اپنے ہاتھ کی مٹھی میں دبا کر بجھاتے ہوئے سردار عبدالقیوم خان کے ایک ہی جملہ کہاں ہیں عتیق خان؟ کا جواب دیا وہ اوپر ہیں جن کو بلانے کا کہا تو وہ آ گئے ‘ تین میزوں کے گرد سب بیٹھے ‘ مانسہرہ قدرتی آفت میں بڑے حادثے اور انسانی جانوں کے ضیاع کا ذکر ہوا تو کہا کہ وہ پانی کا راستہ رہا ہو گا ‘ جس میں لوگوں نے گھر بنا لیے ہوں گے ‘ پانی جہاں سے ایک بارگزرے دوبارہ وہاں کا رُخ کرتا ہے ‘ اس لیے تباہی ہوئی ہو گی ‘ بعد ازاں تصدیق ہوئی ایسا ہی تھا ‘ تاہم بڑے محتاط انداز میں بات چھڑی ‘ مرتضیٰ گیلانی نے درخواست کی ‘ وزارت عظمیٰ سردار عتیق کا حق ہے ‘ وقفے سے کہا جماعت کی صدارت ملنی چاہیے اور سردار عتیق کے کہنے پر چپ ہو گئے تو سردارعبدالقیوم نے کہا سب ٹھیک ہو جائے گا

چند منٹوں بعد پھر ساتھ چلنے کا اشارہ کیا ‘ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پہنچ کر بغیر کسی جرگہ ‘ بحث کے فیصلہ ہو گیا ‘ سردار سکندر حیات وزیراعظم ہوں گے ‘مگر بعد میں سردار عتیق جماعت کے صدر اور وزیراعظم بنے تو واضح ہو گیا وہ بڑی خاموشی سے مستقبل کے فیصلوں پر نظر رکھتے تھے۔جس کی مثال جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ان کے دھیرکوٹ راولپنڈی کے سفر زیادہ ہوتے تھے ‘ ہفتہ دس دن بعد پیغام ملتا تھا سردار قیوم دھیرکوٹ سے راولپنڈی جا رہے ہیں ‘ آپ کوہالہ آ جائیں ‘ نیا محلہ والے شیخ رشید اپنی پجارو لے آتے ‘ محسن ترک حال لاہور (نیا محلہ) ایک دو ساتھیوں سمیت جا ملتے ‘ اور وہاں کبھی مسجد کے اندر کبھی باہر بات چیت کرتے جو سخت مگر مہذب الفاظ میں جنرل مشرف کے خلاف ہوا کرتی تھی ‘ جن کی خبر بڑی احتیاط سے بنا کر بھجواتا ‘ جو پھر نیوز پیپرز کی سپر لیڈ اور لیڈ سے کم شائع نہ ہوئی تھی ‘

ایک بار مجھے پیغام ملا آپ ٹھیک نہیں کر رہے ‘ سو پریشانی ہوئی ‘ شیخ خورشید کو فون کیا ‘ سردار صاحب کے پاس جانا ہے وہ آ گئے اور ممتاز ہمدانی نیوز ایڈیٹر’’ محاسب‘‘ بھی ساتھ تھے ‘ راستے میں گاڑی خراب ہونے کے باعث رات دس ساڑھے دس بجے غازی آباد پہنچے ‘ تو بہت دیر ہو چکی تھی ‘ موسم سردتھا ‘ مگر سردار عبدالقیوم خان خود آئے اور باورچی خانے لے گئے ‘ جہاں بکرے کا گوشت ڈی فریزر سے نکلوا کر خود پکایا ‘ اور ہمیں کھانا کھلایا ‘ خود بھی گوشت کا ذائقہ لیتے رہے ‘ مولانا مودودی کا قصہ چھیڑنے پر وقت گزرتا رہا ‘ اور رات کے ساڑھے بارہ بج گئے ان کی گفتگوکے دوران لقمہ دینا ممکن نہ تھا ‘ پھر خود ہی پوچھا کیوں آئے تھے بتایا یہ پیغام ملا ہے۔پوچھا کہ آپ کے کتنے اثاثے ‘ کاروبار ‘ اکاؤنٹس وغیرہ ہیں بتایا ‘ اثاثے ‘ کاروبار ‘اکاؤنٹس کچھ نہیں ہے ‘ کہا کچھ نہیں ہوتا ‘ بے فکر ہو جاؤ میں دو منٹ کے جملوں کے بعد واپس ہوئے اور پھر واقعتا کچھ بھی نہیں ہوا مگر ان کے اور مشرف کے تعلقات اچھے ہو گئے ‘ سردار عتیق وزیراعظم بن گئے وہ اپنی نشستوں میں سیاسی کارکنوں کو نصیحت کرتے تھے ‘ سیاست کا پہلا اُصول برداشت،برداشت اور برداشت ہے

آج کے وزیراعظم فاروق حیدر خان کے والد حیدر خان مرحوم کی برسی کی تقریب اپر اڈہ بلدیہ کے بڑے ہال میں ہوئی ، ایک طرف وزیراعظم سکندر حیات دوسری طرف صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد اور درمیان میں خود بیٹھے تھے ‘ جن کا اختتامی خطاب تھا ‘ جس میں انہوں نے سکندر حیات اور سردار عتیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دونوں انتقامی سوچ نکال دو تو کامیاب رہو گے ‘ مگر دونوں نے ہی اپنے اپنے انداز میں اپنی اپنی طبیعت مزاج کو ردوبدل اختیار کرنے سے گریز کیا ‘ اور اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں ‘ اور بھی بہت سارے آنکھوں دیکھے قصے ہیں مگر سارا نچوڑ انتقام سے پاک برداشت ‘ برداشت ‘ برداشت کی سیاست ہی طویل وقتی کامیابیوں کی ضامن ہوئی ہے ‘ جس کا ثبوت سردار قیوم کی زندگی ہے ‘ تو تاریخ کو درست کرنا بھی سب کی ذمہ داری ہے جیسا کہ سردار خالد ابراہیم نے کہا ہے کہ سردار ابراہیم خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب نہیں کیا تھا ‘ ان سے منسوب یہ بات خلاف حقیقت ہے ‘ تاریخ کو ٹھیک کریں گے۔یہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی خدمت ہو گی اور ہمیشہ یادگار رہیں گے ورنہ خلاف حقیقت چیزیں حقیقت کے ساتھ مل کر سچ کو دھندلا دیتی ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے