کہیں ہم امریکا و بھارت کی پاکستان کے خلاف مدد تو نہیں کر رہے؟

امریکا کو خوش کرنے کے لیے ہم نے اپنے ملک کی خودمختاری کا کوئی خیال نہ رکھا۔ جو کچھ دے سکتے ہیں وہ بنا مانگے امریکا کے حوالے کیا۔ اپنے ائیرپورٹس اُن کے حوالے کر دیے اپنی فضائی حدود اُن کے لیے کھول دیں، امریکی جاسوسوں اور بلیک واٹرز ایجنٹوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ پاکستان کے جس حصہ میں چاہیں جائیں اور جو مرضی آئے کرتے پھریں۔

جس جس پاکستانی یا غیر ملکی کو امریکا نے مانگا اُن کے حوالے کر دیا۔ نہ کوئی قانون دیکھا، نہ آئین پاکستان اور بنیادی اور انسانی حقوق کا خیال رکھا۔ اس خواہش پر کہ شاید امریکا خوش ہو جائے ہم نے امریکا کو پاکستان میں ڈرون حملوں تک کی اجازت دے دی۔ ہم نے سلالہ حملہ بھی برداشت کیا، ہم امریکا کی طرف سے ایبٹ آباد حملہ پر بھی خاموش رہے۔ 9/11 کے بعد ہمیں کہا گیا کہ پاکستان امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے لیکن ہمیں خبر بھی نہ ہونے دی اور دہشتگردی کو پاکستان کے اندر دھکیل دیا گیا اور آج تک ہم ستر ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی قربانی دے چکے۔

ہمیں جو حکم ملا ہم نے اُسے پورا کیا چاہے وہ ہماری خودمختاری کے خلاف تھا یا ہماری عزت نفس کی توہین۔ کابل میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد افغانستان میں موجود پاکستان مخالف اور بھارت دوست قوتوں کو مضبوط کیا گیا، انہیں افغانستان میں اقتدار دیا گیا۔ ہم یہاں امریکا کی ڈو مور ڈو مور کو خوش آمدید کرتے رہے اور اسی امید میں رہے کہ اب انکل سام ہم سے خوش ہوتا ہے لیکن امریکا نے ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کاکردار افغانستان میں بڑھایا اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ افغان فوج اور انٹیلیجنس ایجنسی کے ساتھ ساتھ کابل حکومت مکمل طور پر بھارت کی گرفت میں ہیں اور پاکستان دشمنی میں کابل اور دہلی میں کوئی فرق نہیں۔

گزشتہ روز موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے افغاستان کے متعلق اپنی پالیسی اعلان میں اپنے پیشرووں کے مقابلہ میںپاکستان کے متعلق زیادہ سخت الفاظ کا استعمال کیا اور پاکستان کی تمام تر قربانیوں کویکسر بھلا کر ایسا تاثر دیا جیسے تمام بیماریوں کی جڑ صرف اور صرف پاکستان ہی ہے۔ ہم نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے اپنے آپ، اپنی خودمختاری، اپنی عزت نفس سب کچھ دائو پر لگا دیا لیکن امریکا نے ایک بار پھر پاکستان پر الزامات کی بارش اور بھارت کی تعریف کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان امریکا سے اربوں ڈالر لے کر امریکا ہی کے دشمنوں کو پناہ دیتا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ بھارت سے اپنی شراکت داری مضبوط کریں گے اور پاکستان کو دھمکی دی کہ دہشتگردوں کی مدد کی تو بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ جو ٹرمپ نے کہا وہ اُسی پالیسی کا تسلسل ہے جو اُس کے پیشرووں کی تھی۔ ہاں اب الفاظ میں تلخی اور الزامات کی سنگینی بڑھ گئی ہے۔

یہ وہ حالات ہیں جن کی طرف اُس وقت سے اشارہ کیا جا رہا تھا جب ہم نے بلا سوچے سمجھے 9/11 کے بعد اپنا سب کچھ امریکا کے حوالے کر دیا۔ ہمارے سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ امریکا اپنی ناکام افغان پالیسی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ پاک فوج کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کی حمایت کا تاثر مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان کئی بار کہہ چکا کہ وہ اپنی سر زمین کسی کو بھی کسی دوسرے ملک کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دےگا۔ بلاشبہ پاکستان دہشتگردی کا خود بہت بڑا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہی پالیسیاں تھیں جو امریکا کو خوش کرنے کے لیے جنرل مشرف نے 9/11 کے بعد بنائیں۔ لیکن پاکستان کی بات نہ امریکا سننا چاہتا ہے اور نہ ہی سمجھنا چاہتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے پاکستان ہو یا افغانستان یا چین، اس خطہ کی سیاست کے لیے امریکا اور بھارت کے مقاصد ایک ہیں۔ دونوں چین کے خلاف ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور اس کام کے لیے افغانستان کی زمین کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا بھارت اور کئی دوسروں کے لیے پاکستان اس لیے قابل قبول نہیں کیوں کہ پاکستان واحد مسلم ریاست ہے جو ایک نیوکلئیر پاور بھی ہے اور جس کی فوج اور دفاع مضبوط ہے۔

پاکستان کے دشمن اس کو اس کے نیوکلئیر سٹیٹس سے محروم کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے امریکا بھارت سمیت کئی قوتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کو اندر سے کمزور کیا جائے، یہاں دہشتگردی کو ہوا دی جائے۔ جو بات میں یہاں کر رہا ہوں اس کا ہماری فوج، ہماری سول گورنمنٹ، ہمارے پارلیمنٹیرینز وغیرہ سب کو بخوبی علم ہے۔ لیکن افسوس اس بات کاہے کہ ان بیرونی سازشوں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے ہم خود پاکستان کو اندر سے کمزور کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان، ہمارے ادارے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ مضبوط ہو اور دوسرا کمزور۔ سب سمجھ لیں کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں اس لیے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے لیے ہم سب کو چاہے ہمارا کسی بھی ادارہ یا شعبہ سے تعلق ہو کو آئین پاکستان کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

ہم اندرونی طور پر اُسی وقت مضبوط ہوں گے جب یہاں آئین کی بالادستی ہوگی، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے گا، کرپشن و بدعنوانی کا خاتمہ اور احتساب کے بہترین نظام کا قیام ہو گا، لوگوں کو انصاف ملے گا، تعلیم و صحت پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اگر ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوں گے تو دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہم سب کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم اپنی اپنی سیاست ، اپنے اپنے اختیار اور آپس کی لڑائیوں کے ذریعے کہیں پاکستان کو کمزور تو نہیں کر رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے