حج، مقام خودسازی اورشناخت مبداءومعاد

قرآن اور سنت کی روشنی میں انسان کی خلقت کا ہدف عبادت پروردگار ہے اور عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے ،صرف نماز اور روزہ رکهنے کا نام عبادت نہیں، عبادت لفظ عبد سے مشتق ہوئی ہے جس کے معنی ہے بندہ یا غلام ، غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا کے حکم سے سرمو اختلاف نہ کرے ،اس کی پوری پوری اطاعت کرے، بنابریں ہر وہ کام جس میں رضایت الہی ہو، جو حکم پروردگار کے مطابق ہو عبادت ہے- مسلمان اپنے روز مرہ کے تمام حرکات وسکنات, معمولات اور معاملات زندگی کو عبادت بناسکتے ہیں یعنی اگر انہیں احکام خداوندی کے مطابق، اس کی رضا کے حصول اور قربت کا قصد کرکےبجالائیں تو یہ سارے عبادت بن جاتے ہیں – اور عبادت کی بہت ساری قسمیں ہیں، بنیادی طور پر ہم اسے دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں ،انفرادی عبادت جیسے نماز روزہ وغیرہ اور اجتماعی عبادت جیسے حج ،اسلام میں ہر وہ مسلمان جو صاحب استطاعت ہو اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا واجب ہے –

حج مظہر اخوت واتحاد اور مقام خودسازی ہے، یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس سے انسان کے افکار واعمال میں نظم وانضباط پیدا ہوجاتا ہے، چنانچہ حج کے سلسلے میں جو خواہشات ترک کئے جاتے ہیں اس سے صبر وتحمل اور ضبط نفس کی مشق ہوتی ہے ،جو برائیوں سے محفوظ رہنے کا پیش خیمہ ہے ،سفر کی سختیوں اور صعوبتیں جهیلنے سے سستی وسہل انگاری مستعدی وآمادگی سے بدل جاتی ہے اور دل ودماغ میں ایسے تاثرات پیدا ہوتے ہیں جو ایک طرف سے مبدا سے وابستہ کرتے ہیں تو دوسری طرف معاد کا تصور تازہ کرتے ہیں، چنانچہ جب انسان میقات پر پہچ کر احرام باندهتا ہے اور زبان سے اللهم لبیک لاشریک لک لبیک کہتا ہے تو یہ تصور بهی پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح آج یہ احرام لپٹے گهر بار اور اہل وعیال کو چهوڑ کر اس کی آواز پر لبیک کہہ رہا ہے اسی طرح ایک دن وہ ہوگا جب احرام کے بجائے کفن لپیٹے اس دنیا سے منہ موڑ کر داعی موت کی آواز پر لبیک کہے گا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوگا- جب احرام باندهتے ہوئے عرفات میں پہنچتا ہے تو یہ منظر دیکهنے میں آتا ہے کہ لوگوں کا جمع غفیر ہے جن کا پہناوا ایک ،لباس ایک ،وضع ایک، نہ غربت وامارت کا امتیاز, نہ چهوٹے بڑے کا فرق ،سب دست بدعا ،ہر ایک کی زبان پر توبہ واستغفار، ہر ایک اپنے گناہوں پر پشیمان اور عفو وآمرزش کا طلبگار ،ہر شخص فریاد کناں، ہر شخص گهبرایا اور سہما ہوا ،ایک کو دوسرے کی خبر نہیں ،نفسانفسی کا عالم، نہ سر چهپانے کی جگہ اور نہ سایہ کی اجازت جسے دیکهہ کر حشر کا نقشہ آنکهوں کے سامنے کهینچ جاتا ہے – جب اس مرحلہ سے فارغ ہوکر مشعرالحرام کی طرف آتا ہے سنولایا ہوا چہرہ شاداب اور دل مطمئن ہوتا ہے اس لئے کہ حرم میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی ہے –

پهر مشعر الحرام سے منی میں آتا ہے جہاں حضرت ابراہیم ع نے اس مقام پر شیطان پر پتهر مارے تهے تو گویا وہ اپنے اس عمل سے شیطان کو اپنے سے ہنکاتا اور دور کرتا ہے، پهر قربانی کرتا ہے یہ عمل نفس امارہ کو کچلنے اور نفسانی خواہشات کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے، پهر خانہ کعبہ کو طواف کرتا ہے تو اس طواف ظاہری ہے طواف باطنی کی طرف بهی توجہ پیدا ہوتی ہے، پهر صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتا ہے تو گویا اللہ تعالی کی طرف دوڑتا ہے ،اس کی جانب بڑهتا ہے اور حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے تو عملی طور پر یہ ثابت کررہا ہوتا ہے کہ یہ عمل شرک نہیں بلکہ وابتغوا الیہ الوسیلہ کا بہترین مصداق ہے- اگر حج ان احساسات کو بیدار نہ کرے تو وہ ایک بے روح عمل ہے –

حج کے مناسک پر زرا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انفرادی عبادت نہیں بلکہ اجتماعی عبادت ہے کائنات کے تمام گوش وکنار سے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوکر حج ادا کرتے ہیں۔ لغت میں حج کے معنیٰ ہیں، کسی قابل تعظیم چیز کا قصد کرنا اور اصطلاح شریعت میں عبادت کی غرض سے بیت اﷲ کے قصد کو حج کہتے ہیں۔

حج کا اجتماع پوری دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے یہ وہ منفرد عبادت ہے کہ جس میں پوری دنیا کے اطراف واکناف سے ہر رنگ, ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شرکت کرتے ہیں اور اس عظیم اجتماع میں سارے مسلمان تمام امتیازات سے بالاتر ہوکر سفید کفن نما لباس زیب تن کرکے جسم واحد اور جسد واحد کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں

لباس، رنگ، علاقائیت، زبان اور نسب و نسل کے تمام امتیازات کو کلی طور پر ترک کرکے مسلمان خانہ خدا کے گرد طواف کرتے ہوئے خدائے وحدہ لا شریک کی بارگاہ میں خالص عبد حقیقی ہونے کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں ، حج ایسی اجتماعی عبادت ہے کہ جس میں اسلامی اخوت و برادری، اتفاق و اتحاد اور نظریاتی ہم آہنگی کا کهلا مظاہرہ دیکهنے کو ملتا ہے،

حج کے عظیم موقع پر مشرکین سے نفرت و بیزاری کا اظہار ایک دینی فریضہ ہے۔ اسی نکتے کی جانب رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ
العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقع پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے متعلق اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں سے ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔ حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔

ڈاکٹر محی الدین غازی اس سلسلے میں لکهتے ہیں کہ حج کے موقع پر یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے، کہ امت نے اختلافات کوحقیقت سے زیادہ اہمیت دے رکھی ہے ، جب حج کے طریقہ پر سب کا اتفاق ہے تو آخر ان کے درمیان ہر سطح پر اتحاد واتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے، حج کا موقعہ اتحاد امت کی تجدید کا موقعہ ہے، کہ اس وقت پوری امت کے نمائندے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔یہ اللہ کی طرف سے ایک زبردست انتظام ہے ، اس کے ذریعہ ایک امت ہونے کا احساس ہر سال تازہ ہوتا ہے، گوکہ خاکی حدوں اور خود ساختہ لکیروں کے پجاری حج کے اس پہلو کو بے اثر بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

حج کے موقع پر یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ نماز کی مختلف صورتوں پر جو شدید قسم کے اختلافات اور جھگڑے امت کے مختلف گروہوں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب بے معنی ہیں، اور رائی کا پہاڑ بنانے کے مثل ہیں، حقیقت میں فرق بہت معمولی ہے، اس قدر معمولی کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے بھی پوری امت ایک امام کے پیچھے ایک جماعت بناکر نماز ادا کرسکتی ہے۔ نماز میں بندہ قبلہ کی طرف رخ کرکے اپنے آپ کو مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز سے وابستہ کرلیتا ہے، حج کے موقعہ پر بندہ حسب توفیق مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ محسوس کرتا ہے کہ دنیا کی ہر مسجد مسجد حرام کا امتداد ہے، وہی سلسلہ ہے جو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔

ہر سال حج پر جانے والے سارے حاجیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس روشنی کو عام کریں جو وہ امت کے مرکز میں حج کے موقعہ پر دیکھتے ہیں، وہ اجتماعیت کے مبلغ اور حرکت وعمل کے خوگر بن کر لوٹیں ، کیونکہ امت ایک طرف شدید قسم کے جمود میں مبتلا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کا شیرازہ بکھرچکا ہے اورپوری امت بدترین قسم کی فرقہ بندی کا شکار ہے، دل ودماغ میں پلنے والے خیالات عقیدہ بن گئے ہیں، فرقوں اور جماعتوں نے امت سے زیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے۔ ہر شخص ایک چھوٹے سے کنویں میں محصور ہے اور اسی کو وہ سمندر سمجھ بیٹھا ہے، امت کے افراد کوکنویں کی اس ذہنیت سے باہر نکالنا ضروری ہے، اور یہ کام حجاج کرام بہت بہتر طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ امت ایک بہت وسیع سمندر ہے یہ کوئی چھوٹے چھوٹے تالابوں اور کنووں کا مجموعہ نہیں ہے، وہ اس وسیع سمندر کے خوش نما مناظر دیکھ کر اور وہاں کی فرحت بخش فضا کا لطف لے کر آتے ہیں۔

قرآن مجید کی آیت ، لیشہدوا منافع لھم ، پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ حج کے ذریعہ امت کتنی زیادہ منفعتوں کا مشاہدہ کرسکتی تھی لیکن مصلحت پسندوں نے بہت سارے حجاب حائل کرڈالے۔ یا رب ، ان حجابوں کو ہٹادے اور محروم تماشا کو پھر دیدہ بینا (2)

منابع
ttp://article.tebyan.net (1)

http://rafeeqemanzil.com (2)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے