جذام سے بھی بد تر مرض

جسمانی علاج کے مرکز کو ہسپتال کہتے ہیں، لوگ اپنی جسمانی شفا یابی کے لئے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ان جسمانی امراض میں سے ایک متعدی مرض جذام یا کوڑھ بھی ہے ۔۱۹۵۸ میں جرمنی کے شہر لائزگ کی رہنے والی ایک ڈاکٹر خاتون نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔ موصوفہ کی اس وقت عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔اس تیس سالہ کافرہ عورت نے ایک مسلمان ملک میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج معالجے پر کمر باندھ لی۔

قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا،لوگ کوڑھ کو بیماری کے بجائے عذاب الٰہی سمجھتے تھے اور کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرا دی گئی تھیں جو کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں۔ لوگ منہ اور سر لپیٹ کر مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینکتے تھے اور یوں ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطوں کے اندر بیمار انسان سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔

ایسے میں اس خاتون نے جرمنی سے کراچی آنے کا فیصلہ کیا اورکراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔ انہوں نے اس مرض سے مقابلے کے لئے سوشل ایکشن پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے دو مقاصد تھے ایک لوگوں کو یہ باور کرانا کہ کوڑھ عذابِ الٰہی نہیں بلکہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور دوسرا یہ مقصد تھا کہ اس اس کارِ خیر کے لئے فنڈز اکٹھے کئے جائیں، انہیں دونوں مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی اور ملک کے متعدد حصوں میں جذام کے علاج کے مراکز قائم ہوتے گئے یہانتک کہ ۱۹۹۶ میں عالمی ادارہ صحت نے وطن عزیز پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکتی بلکہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ایشا کا پہلا ملک تھا جسے لپریسی کنٹرولڈ کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

دوسری طرف حکومت ِ پاکستان نے 1988 میں موصوفہ جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت بھی دی اور انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز ، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم عطا کیا گیا اسی طرح آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

یہ سارے اعزازات اپنی جگہ لیکن مجھے جس چیز نے تعجب میں ڈالا وہ یہ تھی کہ ہمارے مطابق ایک کافرہ عورت نے بیمار انسانوں کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج ہم سب کوڑھ سے بھی بدترین مرض مذہبی و علاقائی تعصب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
عدمِ برداشت، شدت پسندی، دھونس، سفارش ، رشوت، غیبت و تہمت اور قتل و غارت کا وائرس عام ہے۔ ان امراض کے علاج کے لئے ہمیں اپنے روحانی مراکز یعنی مساجد و مدارس کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن کیا کریں اب ہمارے ملک میں کوئی مسجد بھی اسلامی کی مسجد نہیں رہی ، ہر مسجد ایک مخصوص فرقے کی ہے ، کوئی دوسرے فرقے والا اس میں داخل ہونے کی سوچ ہی نہیں سکتا اور بعض دینی مدارس تو اس عدم برداشت اور نفرتوں کے اصلی مراکز ہیں ۔۔۔

مشال خان کے قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کا ملوث ہونا، نورین لغاری کا داعش کو جوائن کرنا، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں کے گردے نکال کر بیچ دینا اور جعلی سٹنٹ ڈالنا، بعض مساجد سے مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے جاری ہونا، بعض مدارس میں دہشت گردی کی ٹریننگ دئیے جانا، ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سوچنا، بلوچی اور پٹھان و پنجابی و سندھی کے جھگڑے ، یہ سب کیا ہے۔۔۔!؟

ایسے میں ہم سب کو اور خصوصا ہمارے دینی و سیاسی مصلحین کو سوچنا چاہیے کہ اگر ایک کافرہ عورت ہم مسلمانوں کے ساتھ محبت
اور خلوص کا برتاو کر کے پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک بنا سکتی ہے تو کیا ہم لوگ ایک دوسرے سے محبت آمیز اور خلوص بھرا برتاو
کر کے اس ملک کو شدت کنٹرولڈ اور کرپشن سے پاک ملک نہیں بنا سکتے۔

کیا ہمارے اندر ایک کافرہ عورت جتنی بھی پاکستان میں بسنے والے انسانوں سے محبت نہیں ہے۔ یا پھر ہم سب جذام سے بھی کسی بڑے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے