مسئلہ کشمیراورنئی چانکیائی چالیں

انڈیا اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں اور بارڈر پر متعدد بار ہونے والی سنگین جھڑپوں کے باوجودمسئلہ کشمیرہنوز حل طلب ہے۔کشمیر، تقسیم ہند سے قبل برصغیر کی ان 565آزاد ریاستوں میں شامل تھی جنھیں پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا اختیار حاصل تھا۔کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کی آزاد حیثیت کا خواہاں تھا لیکن بعد ازاں بھارت نے پاکستانی قبائلیوں کے کشمیر پر حملہ کو جواز بنا کر اپنی فوجیں وادی میں داخل کردیں اور کشمیر کے دوتہائی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ برطانیہ چونکہ کشمیر کے قضیے کا ایک اہم فریق تھا سو برطانیہ کی تجویز پر بھارت 1948میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے گیا جس کے نتیجے میں یکم جنوری1949کو پاکستان اور انڈیاکے درمیان کشمیر میں سیز فائر ہو گیا۔

اگست 1948میں منظور ہونے والی یو این او کی ایک قرارداد کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کا فیصلہ کیاگیالیکن اس کیلئے تین شرائط رکھی گئیں جن کے مطابق کشمیر میں مکمل سیز فائرہو گا ، پاکستانی افواج کا کشمیر سے اخراج اور تیسری شرط یہ تھی کہ بھارت بھی اپنی فوجوں کوکشمیر سے نکال لے گا۔یہ تین شرائط کبھی پوری نہ ہو سکیں۔2002میں بھارت کے ایک دورے کے دوران یو این اوکے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے تسلیم کیا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں اب قابل عمل نہیں رہیں۔

مسئلہ کشمیر پر تین بڑی جنگوں کے بعد 1999میں دونوں ملکوں میں کارگل کے محاذ پر خونی جنگ ہوئی جو امریکہ کی مداخلت کے باعث ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوتے ہوتے رہ گئی۔ کئی بار کی جنگوں اور محاذ آرائیوں کے باوجود کشمیر کی جغرافیائی کیفیت میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔آج انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر میں 778کلومیٹر پر محیط لائن آف کنٹرول ہے،جموں سیکٹر میں 198کلومیٹر پر انٹرنیشنل بارڈر ہے جبکہ سیاچن گلیشیر میں 120کلومیٹر پر مشتمل ایریا جو علاقہ جس کی ملکیت میں ہے کی بنیاد پر ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن (actual ground position line)کہلاتاہے۔

کئی دہائیوں تک بھارت پاکستان پر کراس بارڈر ٹیررازم کا الزام لگا کر کشمیر پر بات چیت سے پہلو تہی کرتا رہا۔اگرچہ پاکستان کا مؤقف یہی ہے کہ مسلح جدوجہد میں اسکا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ بھارتی فوجوں کی بربریت سے تنگ آکر خود کشمیریوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے متعدد بار پیش رفت ہوئیں لیکن آج ستر سال گزرنے کے باوجود یہ مسئلہ حل طلب ہے۔کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوجوں کی بڑے پیمانے پر تعیناتی سے پوری دنیا تشویش کا شکار ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں ۔ آخری بار 2004 میں بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بی بی سی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اشارہ دیا کہ "اگر ضرورت پیش آئی تووقت آنے پر لائن آف کنٹرول میں کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔”

مسئلہ کشمیرکے حل کی پہلی امید 1962 میں چین بھارت جنگ کے بعد پیدا ہوئی جب امریکی اور برطانوی حکومتوں نے اس مسئلے کے حل کیلئے کچھ اقدامات اٹھائے۔اس مشن کی سربراہی ایورل ہیری مین (Averell Harriman) اورڈنکن سینڈیز(Duncan Sandys)نے کی اور1962-63 کے دوران بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سردار سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹوکے درمیان گفتگو کے چھ دور منعقد کرائے گئے۔امریکی صدر کینڈی نے ان مذاکرات کی خود نگرانی کی لیکن ان مذاکرات کے نتیجے میں جو بات سامنے آئی اور جسے امریکی تائید بھی حاصل تھی وہ یہ تھی کہ دونوں ملک لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرلیں جو ظاہر ہے پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی نفی تھی ۔

کشمیر پر انڈیا نے جو لچک اب تک دکھائی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے زیر قبضہ کشمیر پر کنٹرول برقرار رکھ سکتا ہے اور بھارت وادی سری نگر کے شمال اور مغرب کے کچھ علاقے بھی پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار ہے لیکن وادی کی باقی جغرافیائی حیثیت میں کوئی تبدیلی کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف پاکستان پوری وادی پر اپنا اقتدار اور قبضہ چاہتا ہے جبکہ شمال میں لداخ اور جنوب میں جموں کے کچھ علاقے بھارت کے حوالے کرنے کو تیار ہے جبکہ پاکستان لداخ اور جموں کے درمیان رابطے کیلئے بھارت کو راہداری کی پیشکش بھی کر چکا ہے لیکن مسلم اکثریت کی سری نگر وادی پر کنٹرول کے معاملے پر مذاکرات تعطل کر شکار ہو جاتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک امکان 1964میں اپریل اور مئی میں ہونے والے مذاکرات سے پیدا ہوا۔ یہ بات چیت تین راہنماؤں کے درمیان ہوئی جن میں کشمیر سے شیخ عبداللہ، پاکستان سے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو شامل تھے۔ان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تین تجاویز سامنے آئیں ۔ پہلی تجویز کے تحت کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی مشترکہ حاکمیت (condominium) کی تجویز پیش کی گئی جس کے مطابق کشمیر کے دفاع اور خارجہ پالیسی مشترکہ طور پر پاکستان اور بھارت کی ذمہ داری ہوگی۔دونوں ملک لائن آف کنٹرول کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو وسیع خود مختاری دیں گے۔اور سب سے زیادہ خوفناک تجویز یہ تھی کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیر آپس میں ایک مضبوط کنفیڈریشن قائم کریں گے۔تاہم 1964میں نہرو کی وفات کے بعد یہ تجاویز بھی تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو گئیں۔

1965میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بعد تاشقند میں پھرکشمیر پر مذاکرات ہوئے۔ روسی وزیر اعظم کوسیجن(Kosygin) کی خواہش تھی کہ پاکستان لائن آف کنٹررول کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لے لیکن ایوب خان وادی سری نگر پر پاکستانی کنٹرول کے بغیر معاہدے کے حق میں نہ تھے۔لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی بارڈر تسلیم نہ کرنے کے پاکستان کے سخت اور اصولی مؤقف کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1971میں سانحہ مشرقی پاکستان اور نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کی بھارت میں قیدکے باوجود پاکستان ڈٹا رہا۔شملہ معاہدے میں بھٹو نے اگر لائن آف کنٹرول میں کوئی تبدیلی قبول بھی کی تو وہ محض لفاظی کی حد تک جس میں لائن آف کنٹرول کومحض امن کی لائن (line of peace)میں تبدیل کرنے پر اکتفا کیا گیا۔

مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کا ہٹ دھرمی پر مبنی یہ مؤقف ہے کہ 1947کی تقسیم کے بعد وہ ایک اورتقسیم کو ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اورآرٹیکل35-A کے مطابق کوئی غیر کشمیری کشمیر میں رہ سکتا ہے ا ور نہ ہی جائیداد خرید سکتا ہے لیکن اب بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل370 اورآرٹیکل35-Aکے خاتمے کیلئے بھارتیا جنتا پارٹی کی قانونی ٹیم کی طرف سے رٹ دائر کی گئی ہے تاکہ اس کی آڑ میں کشمیر میں وسیع پیمانے پر ہندوؤں کو آباداور مسلمانوں کو اقلیت میں بدلا جاسکے۔

کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی تجویز اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز نے بھارتی حکومت کو دی تھی جس کے تناظر میں کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کیلئے ایک گھناؤنی سازش عروج پر ہے جس کا بروقت تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔بھارت کشمیر میں وار فیئر (war fare)کے ساتھ ساتھ لاء فیئر (law fare)کے محاذوں پر بھی سرگرم ہے۔اگر بھارت کشمیر سے متعلق آرٹیکل370اورآرٹیکل35-A میں ترمیم کرانے میں کامیاب ہو گیا جو کہ بہت ممکن ہے تو پاکستان کشمیر سے بالکل ہی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

اس وقت بھارتی حکومت کشمیر میں مغربی پاکستان سے ہجرت کرنے والے سکھوں اور ہندوؤں کی کشمیر میں آبادکاری کے بعد اب کشمیر میں پنڈت کالونیوں ، سینک کالونیوں کے قیام سے ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں کی کشمیر میں آبادکاری اور بھارتی ہندو طلباء کو کشمیر میں مستقل رہائش کی اجازت دینے کے فارمولے پر تیزی سے کام کررہا ہے ۔

اس تناظر میں پاکستان کو مؤثر سفارتکاری کے ساتھ ساتھ فوری طور پر بین الاقوامی قوانین کے ماہرین پر مشتمل ایک وکلاء کی ٹیم بنانے کی ضرورت ہے جو کشمیر میں چانکیہ کی نئی چالوں کو روک سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے