سراپا حلم و حکمت: میرے والد گرامی علیہ الرحمہ

آج انہیں اس دنیا سے گئے ہوئے ایک سال ہونے کو ہے۔ وہ اب واپس نہیں آئیں گے اور ہماری زندگیوں میں کوئ دوسرا ان جیسا کبھی نہیں آئے گا۔  اپنا والد ہر شخص کو ہی بہت پیارا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اولاد اور خاص کر بیٹوں کا والد کے ساتھ ایک عجیب سا رشتہ ہوتا ہے۔ ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے والد کو ایک دوست کی مانند پایا ۔۔۔ بے تکلف اور بے تحاشا محبت اور خیال کرنے والے والد کے طور پر ڈانٹ ڈپٹ ان کے مزاج سے کوسوں دور کی چیزیں تھیں۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو پڑھا اور سنا کہ اولاد کو سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی نگاہ سے دیکھنے کا فارمولا مروج ہے۔ ہم نے جانا کہ ہمارے والد صاحب نے اس فارمولے کے اولین حصے کو اختیار کرلیا اور دوسرے کو یکسر فراموش، وہ کبھی بھی کسی طرح کی سختی کے قائل نہیں تھے۔ سراپا مہربان’ سراپا محبت اور سراپا درگزر کرنے والے ابا جانی تھے وہ جو گذشتہ سال 9 ستمبر کو ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔

جب میں اسکول جانے لگا اور دوستوں کا حلقہ کچھ پھیلا تو اندازہ ہوا کہ ساتھ کے کلاس فیلوز کو جیب خرچ وغیرہ کے حصول میں وہ کشادگی میسر نہیں جو مجھے ہمیشہ سے رہی۔ کچھ بڑے ہوئے تو سمجھ آیا کہ ہم جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والدین بڑی مشکل سے سفید پوشی کا بھرم رکھ کر سارے معاملات چلاتے ہیں۔ پھر احساس ہوا کہ ہمارے والد کتنے عظیم ہیں کہ جب مانگا اور جو مانگا وہ لا دیا اور مڑ کر پیچھے دیکھا بھی نہیں۔ اس کے بعد ساری زندگی تشکر کا یہ احساس میرے ساتھ رہا اور رہے گا کہ رب نے کتنے کشادہ دل اور سخی انسان کو میرا باپ بنایا تھا۔ وہ اس دنیا کے باسی نہیں تھے۔ لگتا تھا کہ ان کی روح بھول کر ادھر آنکلی ہے۔ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، طرز تکلم، دل کی فراخی، سخاوت و مہمان نوازی، صلہ رحمی اور درگزر کرنے کی انتہائی غیر معمولی صلاحیتیں میں نے کم از کم ابھی تک کی اپنی زندگی میں کسی دوسرے میں اس درجے میں نہیں دیکھیں۔

میں اکثر کہتا ہوں کہ دوسری کی لغزشوں اور زیادتیوں معاف کرنا بڑی بات ہے اور اللہ کے کئی بندے نفس کو قابو میں رکھ کر یہ کر گذرتے ہیں۔ ابو جان مگر اس معاملے میں بہت ہی بلند درجے پر فائز تھے۔ وہ دل سے بات کو ایسے مٹاتے تھے کہ اگر بعد میں کہیں ذکر بھی ہو تو ان کو یاد بھی نہیں رہتا تھا کہ کیا ہوا تھا اور کس نے کیا تھا۔

ولایت کی باتیں ہم کتابوں میں پڑھتے اور سنتے تھے۔ والد علیہ الرحمہ جس طرح اس دنیا سے گئے اس سے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے رب کے کتنے مقرب بندے تھے۔ جو انہوں نے چاہا اور جیسی دعا کی، اللہ نے ان کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کردیا۔ مسجد کے منبر سے آخری سانس تک وابستہ رہنے کی خواہش تھی سو اللہ نے وہاں کھڑا کر کے خطبہ مسنونہ کے دوران ہی اہنے پاس بلانے کا سندیسہ بھیج دیا۔ محتاجی سے بچنے کی دعا کرتے تھے اللہ نے کسی مالی و بدنی محتاجی سے محفوظ رکھ کر چلتے پھرتے آرام و سکون سے اپنے پاس بلا لیا۔

میں ان کے ساتھ تھا اور گواہ ہوں کہ بغیر کسی کراہنے اور تکلیف کے پیشانی پر عرق کے ابھرتے ابھرتے وہ ہمارے ہاتھوں سے رخصت ہوگئے ۔ يا ايتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية وادخلي في عبادي وادخلي جنتي!

ان کے بارے میں ہم لکھتے رہیں گے کہ پھول کی پتیوں کی طرح ان کی شخصیت کے کئی پرت تھے۔ جہاد کشمیر کے آغاز میں جب مجاھدین پاکستان اور آزاد کشمیر آئے تو جماعتی ربط کے ساتھ ان کو مربوط کرنے کے لئے والد مرحوم کی ناقابل فراموش خدمات ہیں جن کا تفصیلی تعارف محترم تنویر الاسلام اور ان کے اس وقت کے ساتھی پیش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح 9/11 کے بعد جب کچھ بین الاقوامی مسلم تنظیموں کو پاکستان میں مشکلات کا سامناکرنا پڑا تو والد علیہ الرحمہ نے ان کی قانونی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا نام پیش کیا اور یہ وہ وقت تھا جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح کے تعلقات اور اداروں کے بورڈز میں شامل ہونے کے باوجود کبھی بھی ریالوں اور رومالوں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے۔ مندرجہ ذیل اجزائے ترکیبی انکی شخصیت میں نمایاں تھے: 

[pullquote]اعتدال اور فرقہ واریت سے مکمل اجتناب [/pullquote]

والد علیہ الرحمہ چالیس سال سے زائد اسلام آباد میں مرکز اھل حدیث میں خدمات سرانجام دیتے رہے اور یہاں ہی سے اللہ کو پیارے ہوئے۔ اپنے منہج سے ان کا تعلق غیر متزلزل رہا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب وہ آئے تو اکیلے تھے اور جب وہ گئے تو گلشن میں بہار عروج پر تھی۔ ان کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے جن کی بڑی تعداد دوسرے مسالک کے لوگوں اور علماء کی تھی۔ دیوبندی’ بریلوی’ جماعت اسلامی اور دیگر تمام مکاتب فکر کے اکابرین و علماء اشکبار ہوکر ان کی مسجد کے ہال میں موجود تھے اور انہیں رخصت کرنے آئے تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ والد مرحوم کا اعتدال پر مبنی رویہ اور فرقہ واریت کے خلاف ان کا جاندار موقف تھا۔ وہ اپنے موقف کا دفاع پورے شرح صدر اور شد و مد سے کرتے تھے اور مرکز اھل حدیث اسلام آباد میں دیئے گئے ان کے خطبات اس پر واضح طور پر دلالت کرتے ہیں مگر ان کا اسلوب اتنا شائستہ اور معتدل ہوتا تھا کہ کسی دوسری رائے اور موقف کے حاملین کی دل آزاری نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں مروجہ مناظرانہ ماحول اور ان جلسوں کا ٹرینڈ جن میں مخالفین کو صرف چڑانا مقصود ہوتا ہے اور فضول کی تک بندی کی جاتی ہے اس کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ہمیشہ فرماتے تھے کہ پوری پوری رات کے بے مقصد اجتماعات سے بہتر ہے کہ کسی باعمل اور متبحر عالم دین کو بلا کر جمعہ پڑھوایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی فرماتے تھے کہ میری یہ رائے اپنے شہر کے ماحول کے تناظر میں ہے۔ کسی دوسری جگہ خاص کر کے دیہاتوں کے ماحول میں واعظین کی دعوتی خدمات کو نہ صرف سراہتے تھے بلکہ ستائش کی نظر سے دیکھتے تھے۔ 

اسلام آباد میں وہ اتحاد کے رمز کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ کوئی بھی بین المسالک ہم آہنگی کا مسئلہ ہو یا تنازعہ اس کے حل کے لئے نجی و سرکاری حلقے ان ہی طرف دیکھتے تھے اور وہ بھی دوستی و تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس بات کو درست سمجھتے تھے اسے حکمت و تدبر سے بیان کردیتے۔ کتنی ہی مساجد کے تنازعات کو انہوں نے حل کروایا اور لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کی۔ 

ہمیں ہمیشہ اعتدال کی راہ پر چلنے کی نصیحت کرتے تھے اور اس کی عملی طور پر خود روشن مثال تھے۔ مسائل میں کبار علمائے اھل حدیث کے آراء کو صائب جانتے تھے اور کچھ نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے سطحی "تخریجی” منہج کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے استاد گرامی حضرت علامہ یوسف کلکتوی علیہ الرحمہ کے فقہی موقف کی چھاپ ان کی آراء پر رہتی تھی مگر اس سلسلے میں کسی پر سختی نہیں فرماتے تھے۔ کہتے تھے کہ جس کا دل میری رائے اور دلیل سے مطمئن ہوتا ہے وہ اسے اختیار کرلے اور جو نہیں مانتا وہ اپنی راہ لے۔ ایک زمانے میں شیعہ کافر کا نعرہ ملک بھر میں گونجنے لگا اور اسلام آباد میں اس تحریک کا مرکز والد مرحوم کی مسجد سے قریب ان کے دیرینہ ساتھی اور دیوبندی مکتب فکر کے مشہور عالم مولانا عبداللہ شھید رحمہ اللہ کی لال مسجد تھی۔ مولانا عبداللہ اور والد محترم کے بہت پرانے اور گہرے تعلقات تھے۔ تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی کی جدوجہد میں دونوں اکٹھے شریک رہے اور پابند سلاسل بھی رہے۔ مولانا عبداللہ اکثر اوقات نمازفجر کے بعد ہمارے ہاں تشریف لے آتے تھے۔ خوبصورت شخصیت کے حامل تھے اور بے تکلف گفتگو فرماتے تھے۔ مجھے کئی مرتبہ انہیں دودھ کا گلاس پیش کرنے کی سعادت ملی کہ والد مرحوم کے برعکس چائے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ عشاء کی نماز کے لئے تشریف لائے تو جماعت کے قیام میں وقت تھا۔ والد علیہ الرحمہ نے انہیں نماز پڑھانے کا کہا اور مولانا عبداللہ شھید نے مرکز اھل ھدیث میں جماعت کی امامت فرمائی! غور فرمائیں کہ ہمارے بزرگوں کا کیا طرز عمل اور تعامل تھا۔ والد محترم نے نماز پڑھانے کا کہا’ مولانا عبداللہ نے پڑھائی اور آفرین ہے ہمارے نمازیوں پر کہ انہوں نے اتباع میں بلاجھجک نماز ادا کی۔ آج جو ماحول ہم نے بنا دیا ہے اس میں یہ باتیں ایک خواب لگتی ہیں اور اگر کوئی کسی مخصوص حالت میں ایسا کرنا بھی چاہے تو مقتدیوں میں سے لوگ ایسے امام کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح والد مرحوم کے ایک دیرینہ دوست کی وفات ہوئی تو ان کا جنازہ لال مسجد کے صحن میں ادا کیا گیا اور وہ جنازہ تعلق و وصیت کے مطابق والد مرحوم نے پڑھایا اور کسی کی بھی اپنے مسلک سے وابستگی میں کمی نہ آئی! 

مولانا عبداللہ شھید سے اتنے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود والد محترم ان کے تکفیر شیعہ کے عمومی موقف کے سخت ناقد رہے اور ہمیں ہر موقع پر بتاتے رہے کہ امت کے اجتماعی موقف سے برخلاف کوئی بھی موقف اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ وقت نے ہمارے سامنے ان کے موقف کی صحت ثابت کی۔ 

اسی طرح جس زمانے میں "جہاد” کا غلغلہ گلی محلے بلند ہوا اور خاص کر والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانے کے حوالے سے بحثیں مسجدوں اور دینی جرائد میں تنازعہ کی شکل اختیار کرگئیں تو ہمارے دیکھتے دیکھتے کتنے ہی لوگ "مجاھدین” کے طمطراق اور آنیاں جانیاں دیکھ کر دل پھینک بیٹھے۔ خود والد علیہ الرحمہ کے تربیت یافتہ کچھ نوجوان اسی رو میں بہہ نکلے مگر آفرین ہے ان پر کہ اتنے غیر متزلزل انداز میں اپنے جماعتی موقف پر کھڑے رہے کہ بسا اوقات تو یوں لگتا تھا کہ یہ ساری بحثیں ان کے نزدیک سرے سے قابل التفات ہی نہیں تھیں۔ جہاد کی نج کاری کے وہ قائل نہیں تھے اور نہ ہی آخری سانس تک اسے درست سمجھتے رہے۔ ان کے حلقہ احباب میں بڑے بڑے نامی گرامی جہادی راہنما شامل تھے۔ محبت کا تعلق اپنی جگہ قائم رہا مگر اپنے موقف پر وہ ساری زندگی ڈٹے رہے۔ اعتدال اور توازن کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ بھرپور تعلقات کے باوجود اپنا منبر اور اسٹیج کسی بھی ایسے شخص کو پیش نہیں کرتے تھے جس کے بارے میں گماں ہوتا کہ یہ وسطیہ اور اعتدال پر مبنی منہج سے ہٹا ہوا ہے۔ وہ اپنے نمازیوں کی اس حوالے سے تربیت کرنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ دیکھے بھالے بغیر کسی کو بھی درس و تقریر کے لئے نہیں مدعو کرنا چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسٹیج پر کبار علمائے اور واعظین کو ہی بیٹھنے کا موقع ملا اور غیر محتاط گفتگو کرنے والوں کی حسرت ہی رہی کہ وہ اسلام اباد میں دعوت و توحید کے سب سے بڑے اور پرانے مرکز میں خطاب کرسکیں۔ 

[pullquote]جماعتی وابستگی اور نظم کا احترام[/pullquote]

والد علیہ الرحمہ ساری زندگی مرکزی جمعیت اھل حدیث سے وابستہ رہے اور آخری دم تک یہ تعلق نبھایا۔ وہ اس تعلق کو ایک تحدیث نعمت کے طور پر فخریہ انداز میں بیان کرتے تھے اور اپنے تمام احباب کو اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ اصل زندگی جماعتی نظم سے وابستہ رہنے میں ہے۔ اس سے انسان فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ان کا زندگی کے آخری چند ماہ کے دوران ایک جماعتی نشست سے خطاب اس حوالے ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے کہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں’ نظم جماعت کی پابندی ضروری ہے۔ آج کل کے نوجوانوں اور ان حضرات کو جنہیں نئی جماعتیں بنانے کا تازہ تازہ ابال آیا ہوا ہے انہیں والد علیہ الرحمہ کی وہ گفتگو بھی سننی چاہیئے اور ان کی پوری زندگی کے طرز عمل پر بھی غور کرنا چاہیئے۔ عہدے ہوں تو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا ہر کسی کو اچھا لگتا ہے مگر جب تنظیمی عہدہ نہ ہو یا پاس سے جا رہا ہو،اس وقت کس سنجیدگی و متانت کی ضرورت ہے، یہ ہم نے ان سے سیکھا۔ انہوں نے تو جماعت سے تعلق کو نبھایا ہی مگر جماعت نے بھی ان کے اکرام میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ جماعت کے پاکستان لیول کے اہم ترین عہدے تک پہنچے اور ایسے پہنچے کہ نہ ان کی کوئی لابی اور نہ ہی کوئی گروپ! وہ اسے جماعت سے تعلق کا نتیجہ ہی قرار دیتے تھے اور اکثر فرماتے تھے کہ مجھے میری جماعت نے بھرپور عزت و احترام سے نوازا ہے۔ عہدوں کی لالچ اور اس کے لئے کہنیاں مار کر دوسروں کو پیچھے دھکیلنے کے خواہش مندوں کو ان کے طرز عمل کی طرف ضرور دیکھنا چاہیئے۔ جب جماعت کی مرکزی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے تو اس کے بعد زیادہ تندہی سے جماعت کی خدمت کا جذبہ لئے ہوئے تھے۔ اسلام آباد میں ضلعی سطح پر مرکزی جمعیت کو پروان چڑھانے اور استوار کرنے کے لئے ان کی خدمات سب سے زیادہ تھیں۔ جماعت کا نظم انہوں نے خود قائم کیا اور سالہا سال اس کے امیر رہے۔ برسوں بعد جب خرابئ صحت کی بنا پر یہ ذمہ داری چھوڑی تو حافظ مقصود صاحب امیر منتخب ہوئے۔ ان کے ساتھ جو تعاون کیا اس کے شاہد و معترف خود حافظ صاحب ہیں۔ پہلے سے بڑھ کر جماعتی پروگراموں میں شرکت کرتے اور سب سے پہلے تعاون کرنے والوں مین شامل ہوتے۔ کتنی ہی مساجد کو شروع کرتے وقت اپنا ذاتی تعاون پہلے پیش کرتے اور پھر دوسروں کی توجہ دلاتے۔ 

علامہ احسان الہی ظہیر شھید کے دور میں جب تنظیمی اختلاف پیدا ہوا تو علامہ صاحب کے ساتھ تمام تر تعلق کے باوجود اپنی وابستگی مرکزی جمعیت کے ساتھ رکھی۔ مجھے یاد ہے کہ جن دنوں علامہ شھید مشاورت کا سلسلہ کر رہے تھے تو رات گئے ہمارے گھر کے مہمان خانے میں والد علیہ الرحمہ کے ساتھ طویل نشستیں رہتی تھیں۔ دوستی کا تعلق اپنی جگہ قائم رہا مگر جماعتی وابستگی کے حوالے سے وہ اتنے غیرمتزلزل موقف کے حامل تھے کہ کسی ایک لمحےکے لئے بھی کوئی دوسری سوچ نہ آسکی۔ 

میاں فضل حق مرحوم کے دیرینہ ساتھیوں میں سے تھے۔ میاں صاحب کی جماعتی خدمات کو ہمیشہ سراہتے تھے اور میاں صاحب بھی ان سے بہت محبت رکھتے تھے۔ گلیات و کشمیر کے دوردراز علاقوں میں مساجد کے قیام کے لئے میاں فضل حق مرحوم کی جو سنہری خدمات ہیں ان میں والد علیہ الرحمہ سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کی جماعتوں میں والد مرحوم کو ایک غیر معمولی پذیرائی حاصل تھی۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور میں مجلس شوریٰ کے ممبر ہونے کے ناطے میاں صاحب جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے اور اس کے بعد بھی تو قیام اگر اسلام آباد میں ہو تو ہمارے پاس مسجد میں ٹھہرتے تھے۔ مجھے بارہا میاں صاحب کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ میرا میاں فضل حق سے کم سنی کے باوجود ایسا تعلق قائم ہوگیا کہ مجھے اسلام اباد سے توحیدآباد اور ایوبیہ کے ایک دورے پر اکیلے ہی ساتھ لے گئے جہاں میاں صاحب کے ایوبیہ میں اس وقت زیر تعمیر گھر کا معائینہ بھی کیا۔ مجھ سے اتنی شفقت فرمائی کہ اپنے بیٹے میاں نعیم طاہر مرحوم کی شادی کے موقع پر والد مرحوم کو کہا کہ حافظ (مجھے پیار سے یہی کہا کرتے تھے) کو ضرور لے کر آنا ہے۔ بعد ازاں علیحدہ دعوت نامہ میرے نام سے ارسال کیا اور میں والد علیہ الرحمہ کے ساتھ لاھور میں میاں نعیم الرحمن طاہر کے ولیمے میں شریک ہوا۔ ولیمے والے دن اس میز پر بیٹھنے کی سعادت کچھ کچھ یاد ہے جس پر قاری عبدالخالق رحمانی رحمہ اللہ بھی پوری شان و شوکت سے براجمان تھے۔ اللہ مغفرت کرے کہ یہ سب بزرگ اس کے حضور پیش ہوچکے ہیں۔ ان کا آپس کا تعلق کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں تھا بلکہ خالص عقیدہ توحید کی ترویج کا مشن ہی تھا جو سب کو جوڑے ہوئے تھا!

[pullquote]
سخاوت ‘ فیاضی اور حسن شخصیت[/pullquote]

ان کی شخصیت کے معنوی و ظاہری پہلوؤں میں سخاوت و فیاضی اور دل آویز خوبصورتی نمایاں تھی۔ وہ ہاتھ کے بہت کھلے اور سخی تھے۔  گھر والوں پر اور اپنے تعلق والے تمام احباب پر خرچ کرنا ان کو بہت پسند تھا۔ اچھا کھانا، اچھا پہننا، اچھی سواری اور اچھی مصاحبت انہیں بہت پسند تھیں۔ ساری زندگی کسی نہ کسی شکل میں چھوٹا موٹا کاروبار کرتے رہے اور اس سے اپنے لئے باعزت اور احسن طرز زندگی اختیار کئے رکھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ توکل اتنا تھا کہ کبھی بھی ضرورت سے زائد جمع نہیں کیا اور خود کو دنیاوی جھمیلوں سے محفوظ رکھا۔ وہ جس ماحول میں رہتے تھے وہاں پلاٹوں، بزنس، بینک بیلنس، گھروں اور گریڈوں وغیرہ کا ذکر معمول کی چیزیں تھیں مگر یوں محسوس ہوتا تھا کہ انہیں اپنی جائز ضرورت سے زیادہ کسی چیز کی حاجت و خواہش ہے ہی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنی اور گھر والوں کی ضروریات کو درجہ احسان میں پورا کرتے تھے۔ کبھی حساب کتاب اور مالی قدغنوں میں نہیں پڑے۔ اتنی آسانیاں ہمارے لئے پیدا کیں کہ اس کا اجر ان کے رب کے پاس ہی مل سکتا ہے۔ 

ان کی شخصیت میں ایک خاص طرح کا ٹھہراو بھی تھا۔ اپنے فیصلوں اور زندگی کے جس راستوں کو انتخاب کیا تھا اس پر لمبی چوڑی گفتگو نہیں کرتے تھے مگر ازحد مطمئن تھے۔ انہیں بارہا سعودی جامعات میں پڑھنے کے مواقع میسر آئے۔ سعودی جامعات کے کئی فاضلین ان کے پاس داخلے کے دنوں میں آکر قیام کرتے تھے۔ ان کی جو مدد کرسکتے تھے وہ کرتے تھے مگر خود سعودی جامعات میں نہیں گئے۔ انگلینڈ کی جماعت کے سرخیل مولانا محمود میرپوری مرحوم ان کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ ان کے بارہا اصرار کے باوجود وہاں نہیں گئے۔ کہتے تھے اللہ نے ہمارے حصے کی خدمت یہاں رکھی ہے اور اسی میں ہمارے لئے عزت ہے۔ زندگی کے آخری سالوں مین تحدیث نعمت کے طور پر فرماتے تھے کہ میرے فیصلے درست رہے اور مسلک و جماعت کی خدمت کے ساتھ ساتھ میری اولاد بھی اچھی تعلیم سے بہرہ ور ہوکر کسی نہ کسی شکل میں دین کی خدمت کررہی ہے۔ 
ان کی شخصیت کی نفاست اور دل آویز مسکراہٹ ان کے چاہنے والوں کے دل کی دھڑکن تھی۔ ان کی شخصیت ظاہری طور پر بھی اتنی خوبصورت تھی جتنا کہ ان کا دل صاف شفاف اور کسی بھی طرح کے منفی جذبے سے خالی! سب کے لئے خیر ہی خیر اور اخلاص و معافی کا جذبہ لئے ہوئے وہ ہر کسی سے ملتے تھے۔ ہماری مسجد کے کتنے ہی ملازمین جو باقاعدہ طور پر کسی سزا کے طور پر فارغ کردیے گئے وہ ساری زندگی ان سے ایسے ملتے رہے کہ جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ جو بھی شخص ان کی وفات کے بعد آیا اس کا یہی کہنا تھا کہ میرے ساتھ ان کا ایک خاص تعلق تھا۔ ان کی وفات پر لوگ ہم سے تعزیت کے لئے آتے رہے اور ہم انہیں دلاسہ دیتے رہے کہ وہ سب کے تھے اور سب  ہی کو چھوڑ کر چلے گے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے