درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری

بھارتی صوبہ ہریانہ میں سکھوں کے ایک فرقہ ڈیرہ سچا سودا کے چیف گورمیت سنگھ عرف بابا رام رحیم کو عدالت نے آبروریزی کے کیس میں کیا قصوروار ٹھہرایا، کہ کئی صوبوں، ہریانہ ، پنجاب، راجستھان اور دارالحکومت دہلی میں تشدد بھڑک اٹھا۔ بابا کے مریدبے قابوہوکر تشدد پر اتر آئے۔ وہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں، کہ بابا جو انکی نظر میں بھگوان کا روپ ہے، قصوروار ہوسکتاہے اور ایک انسان چاہے وہ جج ہی کیوں نہ ہو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اسکو سزا بھی سنا سکتا ہے۔ بھارت میں سیاستدانوں اور خودساختہ روحانی گوڑوؤں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ شردھا ماتا، دھریندر برہمچاری، چندرا سوامی، پنڈت این کے شرما، آشوتوش، رام ورکش یادو، رام پال، آسا رام باپوگورو رجنیش، بابا رام رحیم ، یوگ گورو بابا رام دیو جیسے ان گنت نام ہیں، جنہوں نے مختلف ادوار میں سیاستدانوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا ۔

سکھوں کے اس فرقہ ڈیرہ سچا سودا کے بنیاد 1948ئمیں بابا مستانہ بلوچی نامی ایک سَنت نے ڈالی۔ و ہ سکھ مذہب میں ہندوؤں کی طرح ذات پات اور دیگر برائیوں کی آمیزیش سے دلبرداشتہ تھا۔ گورو نانک کی بنیادی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے مستانہ بلوچی نے متحدہ پنجاب کے شہر سرسہ میں ڈیرہ ڈالا۔ یہ شہر بعد میں ہریا نہ کا حصہ بنا۔ 1960ء میں مستانہ کے انتقال کے بعد ڈیرہ کی سربراھی ستنام سنگھ کو ملی اور ان کے انتقال کے بعد 1990ئمیں انکے چیلے گورمیت سنگھ نے کمان سنبھالی۔ اس ڈیرہ کی خاص بات یہ ہے، کہ اس کے عقیدت مندوں میں بیشتر نچلی ذات دلت طبقہ کے سکھ اور غریب ہندو اور عیسائی شامل ہیں۔ چونکہ پچھلی کانگریسی حکومتیں اکثر و بیشتر اکالی سکھوں کے ساتھ برسرپیکار ہوتی تھیں، انہوں نے اس فرقہ کو سکھوں کی مرکزی حیثیت اور لیڈرشپ کے خلاف بھر پور استعمال کیا۔ 80ء کی دہائی میں جب سکھوں کی طرف سے ایک علیحدہ وطن خالصتان کی تحریک عروج پر تھی، تو آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے لیکر پنجاب کے کانگریسی وزراء اعلیٰ نے اس فرقہ کو خاصی مراعات بخش کر اکالیوں کے مقابلہ میں کھڑا کیا ۔ اب چونکہ بساط پلٹ چکی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے پچھلے انتخابات میں ہریانہ میں کانگریس کو ہرانے کیلئے اس فرقہ سے ناتا جوڑ لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے، کہ جہاں ہریانہ میں مودی نے ڈیرہ سچا سودا کو سیاسی اغراض کیلئے استعمال کیا، پنجاب میں انکی سیاسی حلیف ڈیرہ کی حریف اکالی دل تھی۔دو ناہموار کشتیوں پر سوار مودی نے شمالی بھارت میں اپنا سکہ جمائے رکھنے کی خاطر، ڈیر ہ کے لاکھوں حامیوں کو عدالت کے فیصلہ کے روز سٹرکوں پر آنے اور اسکے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت دی۔

مجھے یاد ہے، کہ میڈیا کی نگاہیں ڈیرہ کے کرتوتوں پر 2000ء سے ہی لگی تھیں۔اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں ڈیرہ میں موجود ایک خاتون سادھو (سادھوی) کا ایک دردبھرا خط وزارت عظمیٰ کے دفتر پہنچا۔ وزارت عظمیٰ کے دفتر نے کارروائی تو نہیں کی، مگر یہ خط میڈیا کے ہاتھ لگ گیا۔ کافی جستجو کے بعد اس سادھوی کو ڈھونڈنے کے بعد جو اسنے واقعات سنائے ،وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے تھے۔ مگر کسی بھی مین اسٹریم میڈیا نے اس سادھوی کے درد کو رپورٹ کرنے یا ڈیرہ کی تفتیش کرنے سے گریز کیا۔ بالآخر 2007ء میں ہفتہ وار جریدے تہلکہ نے ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے ڈیرہ کا کچا چٹھا کھول دیا۔ سفید لباس میں ملبوس پنجاب سے تعلق رکھنے والی اس سادھوی کا کہنا تھا، کہ گریجویشن کے بعد اسنے دنیا تیاگ کرکے ڈیرہ میں پناہ لی تھی۔ اس کے مطابق اسکے والدین کو ڈیرہ کے مہاراج گورمیت عرف رام رحیم کے ساتھ اندھی عقیدت تھی۔ دو سال تک ڈیرہ پر مختلف خدمات انجام دینے کے بعد ایک رات اسکو گورمیت سنگھ کے حجرے سے بلاوا آگیا۔ مہاراج کی طلبی سے وہ بہت خوش تھی۔کمرے میں پہنچ کر جب آٹومیٹک دروازہ بند ہوگیا، تو اس نے دیکھا کہ ریموٹ ہاتھ میں لئے گوروجی بیڈ پر لیٹے قابل اعتراض فلم دیکھ رہے ہیں اور ان کے سرہانے ایک ریوالور رکھا ہو ا تھا۔ گورو کا یہ روپ اسکے لئے حیران کن تھا۔ ’’مجھے اضطراب میں دیکھ کر گورو نے مجھے پانی پینے کیلئے کہا اور یاد دلایا کہ سنیاسن بن کر اور ڈیرہ میں آمد کے وقت میں نے ایک عہد نامہ پر دستخط کئے ہیں، کہ میرا سب کچھ گورو کیلئے وقف ہے۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ سری کرشن بھی ایک بھگوان تھے۔ وہ 360گوپیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اس لئے ان حرکتوں پر سیخ و پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری سرد مہری دیکھ کر وہ دھمکیوں پر اتر آئے۔ اس نے ریوالور اٹھا کر کہا ، کہ وہ مجھے قتل کرکے ڈیرہ میں ہی اسطرح دفن کریں گے، کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ میں ڈیرہ میں آئے دن سیاستدانوں ، وزیروں اور افسروں کے قافلے آتے جاتے دیکھتی تھی اور مجھے معلوم تھا، کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت شاید ہی کوئی کرسکے گا۔مجھے یاد دلایا گیا کہ کس طرح ڈیرہ کے منیجر فقیر چند کو غائب کردیا گیا۔‘‘ اس مکالمہ کے بعد سادھوی کے بقول اسکی آبروریزی کی گئی۔ اور کئی برسوں تک وہ اس عذاب میں مبتلا رہی۔ ہر 25-30دن کے بعد اسکی باری آتی تھی۔

ڈیرہ میں باقی مردوں کو عورتوں کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مرکزی تفتیسی بیورو یعنی سی بی آئی کی تفتیش میں 400ایسے افراد کے بیانات ہیں، جن کو خصی بنایا دیا گیا تھا، ا ن کو بتایا گیا، کہ ایشور تک پہنچنے کیلئے ان کا ایسا ہونا ضروری ہے۔سادھوی کے مطابق ڈیرہ میں موجود اکثر لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ’’ہم سفید کپڑے زیب تن کرتی ہیں، سروں کو ڈھک کر رکھتی ہیں۔ مردوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی ہیں۔عوام کیلئے ہم دیویاں ہیں۔ وہ ہمیں پوجتے ہیں ۔ مگر ہم اصل میں طوائفیں بن چکی ہیں۔جب میں نے یہ سرگزشت اپنے والدین کو سنائی تو بجائے ہمدردی کے انہوں نے الٹا مجھے ہی ڈانٹا۔ بٹھنڈہ اور کوروشیتر کی دو لڑکیوں نے ہمت دکھا کر گورو کے کارناموں پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی، تو ان کو اسطرح بری طرح زد و کوب کیا گیا، کہ ان کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے۔‘‘ گورو رام رحیم کے خلاف موجودہ کیس اس بات کی دلالت ہے کہ عدل و انصاف فقط حشر پر ہی موقوف نہیں بلکہ زندگی میں بھی گناہوں کی سزا دی جاسکتی ہے۔اس سادھوی کی آواز نے بالآخر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کوجگایا اور 2008ء میں یہ کیس سی بی آئی کے سپرد کیاگیا۔ 18سنیاسنوں نے گورو کے خلاف عدالت میں گواہی دی۔ گورو کے خلاف قتل کا بھی ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔

بھارت میں پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے زمانے سے ہی سیاست میں ان روحانی گوروؤں کا عمل دخل رہا ہے۔ نہرو خود نہایت ہی مذہب بیزار اور سائنسی طور پر چیزوں کو پرکھنے کے قائل تھے۔ صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی طرف سے صدارتی محل میں سادھوں سنتوں کی آؤ بھگت ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ مگر ایک پر اسرار سادھوی شردھا ماتا کے سات ان کے تعلقات زبان زد و خاص وعام ہیں۔ ان کے پرائیوٹ سیکرٹری ایم او متھائی کے بقول اس سنیاسن نے نہرو کے ایک بچے کو کو بھی جنم دیا تھا۔ انکی دختر اندرا گاندھی ، جو بھارت کی انتہائی طاقتور سیاستدان تصور کی جاتی ہے، کی جان بھی ایک سادھو سوامی دھریندر برہمچاری میں اٹکی ہوئی تھی۔ وہ اس کے خلاف کچھ بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہوتی تھی۔ سوامی کی شہ پر کابینہ میں ردو بدل ہوتا تھا۔ متھائی کے بقول ایک دن وزیر اعظم نہر و کا کوئی پیغام پہنچانے کیلئے تین مورتی ہاؤس کی دوسری منزل پر واقع اندرا گاندھی کے بیڈ روم کے دروازہ پر جب اس نے دستک دی، چند ساعتوں کے بعد جب دروازہ کھلا تو اندر بیڈ پر دھریندر برہمچاری نظر آئے۔ اندرا گاندھی نے بعد میں صفائی پیش کرتے ہوئے متھائی کو بتایا ،کہ وہ گورو جی سے یوگا سیکھ رہی ہیں۔80ء کی دہائی میں اسوقت کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ ناچاقی کی ایک وجہ بھی دھریندر برہمچاری بنا۔ سوامی نے جموں اور سرینگر کے بیچ پیر پنچا ل پہاڑ کی چوٹی پٹنی ٹاپ پر جنگل کی وسیع و عریض زمین پر قبضہ کرکے ایک عالیشان کوٹھی اور ہیلی پیڈ بنوایا تھا۔ جموں میں ایک بندوق بنانے کی فیکٹری بھی کھولی۔ سی آئی ڈی نے شیخ عبداللہ کو خبردار کیا تھا، کہ اس فیکٹری کی بندوقیں جموں میں ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہیں۔اندرا گاندھی کے قتل کے بعددھریندر برہمچاری کا سورج بھی غروب ہوگیا اور ایک نئے سوامی امی چند گاندھی عرف چندرا سوامی کا ظہور ہوا۔گو کہ وہ پہلے بھی میدان میں ہاتھ مار رہے تھے، مگر برہمچاری ان کی چلنے نہیں دیتا تھا۔ چندرا سوامی کا سورج چندر شیکھر اور نرسمہا راؤ کے وزرات عظمیٰ کے زمانے میں نصف النہار پر تھا۔ سابق وزیر نٹور سنگھ ، جو خارجہ سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں‘ بتاتے ہیں، کہ جب وہ 1975ء میں لندن میں نائب ہائی کمشنر تھے، تو ایک سینئر وزیر کے اصرار پر انہوں نے برطانیہ میں ان ہی دنوں حال ہی میں لیڈر آف اپوزیشن کے عہدے پر تعینات مارگریٹ تھیچر کی ملاقات چندرا سوامی سے کروائی۔

سوامی نے تھیچر کو بتایا کہ وہ برطانیہ کی وزیر اعظم بننے والی ہیں اور اسکو مخصوص ڈریس پہننے اور ایک تعویذ ساتھ رکھنے کا مشور ہ دیا۔ نٹور سنگھ رقم طراز ہیں، کہ سوامی کی ان پیشن گوئیوں کو انہوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی، مگر تھیچر کافی متاثر نظر آرہی تھی۔1979ئمیں جب وہ واقعی وزیر اعظم بنی ، تو زیمبیا میں دولت مشترکہ کانفرنس کے موقعہ پر اسنے نٹور سنگھ سے درخواست کی، کہ چند برس قبل لندن میں سوامی اور اسکی ملاقات کووہ یادداشت سے نکال دیں اور آئندہ اسکا کہیں ذکر نہ کرے۔دہلی اور اسکے اطراف میں سوامی کے وسیع و عریض آشرم اور جائیدادیں ابھی بھی ماضی میں اسکے اثر و رسوخ کی گواہ ہیں۔ اس کا انتقال حال ہی میں انتہائی گم نامی میں ہوا۔ 1996ئسے ہی اسکا سورج غروب ہونا شروع ہوگیا تھا، اور مختلف کیسوں میں تفتیشی ایجنسیوں نے اس کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا اور کئی بار اس نے جیل کی ہوا بھی کھائی۔بی جے پی کے دور اقتدار میں آسا رام باپو کو خاصی شہر ت حاصل ہوئی۔ اٹل بہاری واجپائی ، لال کشن ایڈوانی، مودی اور متعدد وزراء اعلیٰ اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ مگر وہ بھی فی الوقت آبروریزی اور قتل کے الزام میں جیل میں بند ہیں۔ آج کل حکومت کی سرپرستی کا کل بار یوگ گورو بابا رام دیو کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے ملک اور بیرون ملک 40ہزار کروڑ مالیت کی بزنس ایمپائیر کھڑی کردی ہے۔ اب مکافات عمل کب اور کس وقت ہوتا ہے ؟وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ دنیا میں بھی جزا ور سزا کا عمل جاری ہے۔

اگر مذہب ، سیاستدان کو راست بازی ، خود احتسابی اور بغیر تفریق کے عوام کے مسائل سلجھانے کی ترغیب دیتا ہے تو یہ ایک تریاق ہے۔ مگر جب مذہب کے نام پر ڈبہ پیر، شیطان صفت سادھو اور بازیگرسیاست دانوں کی راہنمائی کرنے لگیں، تو یہ قوم و ملک کیلئے انتہائی خطرناک رجحانات کا حامل ہوتا ہے ۔ہریانہ اور پنجاب کے واقعاتکچھ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

بشکریہ :روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے