خیال کا رہوار

خیال کا رہوار کہیں نہیں رکتا؛ اگرچہ اکثر اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ منزل تو تب نصیب ہو، فکر کو اگرکوئی بنیاد میسر آئے۔ علم کے بغیر بنیاد کیسے مہیا ہو۔ علمی اندازِ فکر تعصب سے رہائی کے بغیر ممکن نہیں… اور تعصب سے رہائی کیسے نصیب ہو؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت نے آج بہت آزردہ کیا ، اپنے انتقال کے ایک عشرہ بعد۔ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج نے اشارہ دیا ہے کہ عیدالاضحی سے قبل ، وہ قتل کے مقدمے کا فیصلہ صادر کر سکتے ہیں۔ اس پہ غور کرتے ہوئے، ایک سوال نے سر اٹھایا اور چہار سمتوں کو گھیر لیا۔ کیا وہ ایک خوش نصیب خاتون تھیں؟

53 سال کی عمر میں دنیا سے چلی گئیں۔ سکون اور قرار کے کتنے برس ان کے مقدر میں لکھے گئے ؟ اگر اقتدار کو کامرانی قرار دیا جا سکے تو چار برس۔ باقی تمام اسیری، انتظار، آرزو اور آزمائش کی حیات۔ کشمکش، الزامات، آنسو اور امید و بیم کے مہ و سال۔ نامور لوگوں پہ ہم رشک کیوں کرتے ہیں ۔ آخر کو سکھ کی نیند اور ذہنی سکون کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔

بیس برس ہوتے ہیں ، چند درویشوں کو اسلام آباد میں انہوں نے مدعو کیا۔ بعد میں ان میں سے ایک نے بتایا: روحانی جہت پر جب بات کی گئی تو آنسوئوں کے ساتھ وہ رو دیں اور یہ کہا: میں بہت دور نکل آئی ہوں ۔ دور کہاں ؟ سکرات سے پہلے، موت کی ہچکی سے پہلے کون سا فاصلہ۔ ایک حرفِ دعا ، ایک سجدہ اور ایک سچی توبہ۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ ”پروردگار کو لوگوں نے کیا سمجھ لیا؟‘‘ سید صاحب مرحوم کہا کرتے ”نعوذ باللہ وہ کوئی سود خور بنیا تو نہیں‘‘ یومِ حساب سبھی کے لیے ہے اور اٹل ہے ۔ جلیل القدر انبیا کرامؑ کو بھی اس سے فرصت نہیں ۔ ہاں مگر اس جہان میں معافی کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے ۔ کیا ان میں سے کسی نے یہ بات کہی؟ ایک اصول جو ناقابلِ تنسیخ ہے ۔ عمر بھر کی خطائیں قلم زد کر دی جاتی ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نیکیوں سے بدل دی جائیں ۔ کیا عجب ہے کہ خالقِ ارض و سما نے انہیں معاف ہی کر دیا ہو۔ فرمان تو یہی ہے ۔ بے خبر اور بے علم تو نہیں تھیں۔ وہ ایک تبادلہء خیال کرنے والی خاتون تھیں۔

وہ سوال مگر اپنی جگہ پہ قائم رہا ۔ کیا وہ خوش قسمت واقع ہوئی تھیں ؟ نامور گھرانوں میں نمایاں ترین خاندان ۔ بیدار مغز ماں باپ، لاکھوں جاں نثار۔ محلات اور سب آسائشیں۔ آسائشوں سے مگر کیا ہوتا ہے۔ دل کو اگر چین عطا نہ ہو ، اگر کھٹکا لگا رہے ۔ اگر اندیشوں سے رہائی نصیب نہ ہو ۔

اس سے کیا فائدہ رنگیں لبادوں کے تلے
روح جلتی رہے، گھلتی رہے، پژمردہ رہے
ہونٹ ہنستے ہوں دکھاوے کے تبسم کے لیے
دل غمِ زیست سے بوجھل رہے، افسردہ رہے

”موت کا کیا ہے ، اس سے کیا ڈرنا؟‘‘ فقیر نے کہا ”ابھی آ جائے‘‘ سننے والے مبہوت رہ گئے اور کسی نے ایک لفظ تک نہ کہا ۔ پھر وہ مسکرائے اور اضافہ کیا ” خواب میں کسی نے میری عمر شمار کی ۔ شاید کئی سال ابھی باقی ہیں۔‘‘

اصحابؓ کے درمیان سرکارؐ تشریف فرما تھے ۔ فرمایا: سب لوگ اللہ کی رحمت سے جنت میں جائیں گے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ آپ بھی؟ فرمایا: ہاں! میں بھی ۔ رحمتِ پروردگار ہی اگر آخری اساس ہے، تو فقط اسی کی تمنا کیوں نہ پالی جائے؟ ”اے اللہ، ہم تیری مدد کے آرزومند ہیں اور تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں اور تجھ پر ایمان رکھتے ہیں اور تجھ پر توکل کرتے ہیں اور تجھی سے خیر کی امید رکھتے ہیں‘‘۔

تو یہ ہے پوری کہانی ۔ مگر توکّل کرتا کون ہے ۔ یاں! سیاستدانوں میں ایک تو تھا ۔ عمر بھر جس نے کبھی کسی سے مدد نہ مانگی ۔ التجا کیا، امید کا ہاتھ بھی کبھی نہ پھیلایا۔ جینا پونجا کا فرزند ، محمد علی جناح۔ تو کیا وہ ایک مثالی مسلمان تھے ؟ اپنے مکتبِ فکر سے بغاوت کر کے، حریت کا علم لہرانے والے مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے کہا تھا: وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے… اور حرف و بیاں کے اس نابغہ، اسداللہ خاں غالبؔ نے یہ کہا تھا:

ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو، آئے کرے شکار مجھے

غالبؔ کا کیا ہو گا؟ عارف سے پوچھا گیا ، بادہ نوش، سہل کوش؛ اگرچہ اردو زبان کو اس نے شاہراہ پہ ڈالا، مسلم برصغیر کو
جس نے ناطق کر دیا۔ ”غالبؔ؟‘‘ وہ ہنسے: اس آدمی کو کیوں اذن عطا نہ ہو گا، سیرتِ سرورِ عالمؐ میں جسے انہماک تھا۔ اور اس کا شعر پڑھا:

غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دان محمدؐ است

غالب اگر بخشے گئے تو سبھی بخشے گئے ؟ سب کیسے ، جو قرآنِ کریم کو مانتے ہی نہیں ، خیر البشرؐ کو جو کامل نمونہء عمل تسلیم نہیں کرتے ، وہ کیسے ؟ آدمی خیالات کے جنگل اگا لیتے ہیں ۔ عمر بھر ان میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ راستے میدانوں میں ہوتے ہیں ۔ منزل پہ شاہراہیں لے جاتی ہیں ۔ ریت کے ٹیلوں اور بیابانوں میں بھٹکنے والے راستوں کے ہوتے ہیں ، منزلوں کے نہیں۔

”اس نے ہمیں ہماری مرضی سے پیدا نہیں کیا‘‘ درویش نے کہا: وہ ہمیں اس کا الائونس دے گا۔ تیرہویں صدی کا صوفی یاد آیا۔ دمِِ وداع اپنے شاگردوں سے اس نے کہا تھا: مجھ سے جب پوچھا گیا ، اپنے ساتھ تم کیا لائے ہو تو میں یہ کہوں گا: اپنے ساتھ میں مغفرت کی امید لایا ہوں۔ تم سے سوال کیا جائے گا ، تم بھی یہی کہنا۔

تو پھر کامیابی کی شاہ کلید امید ہی ٹھہری؟ ہاں! کتاب یہی کہتی ہے : اے ابنِ آدم، تجھے اپنے مہربان رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ تو کیا آدمی کی سب سے بڑی خطا مایوسی ہے ؟ اس سوال کا جواب اثبات ہی میں ہونا چاہیے ، ابلیس کے معانی مایوسی کے ہیں۔ ابلیس کیوں مایوس ہوا؟ کتاب کہتی ہے : ابیٰ واستکبر۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کا مرتکب ہوا ۔

بے بس و لاچار ، پژمردہ و نحیف ، خود سے اور غور و فکر سے گریزاں آدمی میں تکبّر کہاں سے در آتا ہے ؟ افسوس کہ علمائِ کرام ہماری کوئی مدد نہیں کرتے ۔ حسنِ اعمال پر زور دیتے رہتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ حسنِ عمل کی بنیاد کیا ہوتی ہے۔ نفسِ انسانی کی پیچیدگیوں پر ماہرینِ نفسیات ہی بات کرتے ہیں یا صوفی ۔ نفسیات دانوں کی ہم سنتے ہی نہیں کہ ایمان سے محروم ہیں ۔ رہے صوفیا تو مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ان کا مذہب ہی جدا ہے ۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی کہ وہ بھی…! کیا مولوی کو مقبولیت کا خبط ہوتا ہے ؟ کیا کبھی پورا سچ اسے نصیب ہوتا ہے ؟

کامل اس فرقہء زہّاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے

اقبال ؔ ملّا کا ایسا شدید ناقد کیوں ہے ؟ علمائِ کرام کا سیاسی اتحاد پھر سے تشکیل پانے والا ہے؟ کیا وہ سرفراز ہوں گے ؟ ان کی ہر کامیابی کو مشرق کا شاعر شکست کی تمہید کیوں کہتا ہے؟ ”میں جانتا ہوں انجام اس کا/ جس معرکے میں ملّا ہوں غازی‘‘۔

خیال کا رہوار کہیں نہیں رکتا؛ اگرچہ اکثر اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ منزل تو تب نصیب ہو، فکر کو اگرکوئی بنیاد میسر آئے۔ علم کے بغیر بنیاد کیسے مہیا ہو۔ علمی اندازِ فکر تعصب سے رہائی کے بغیر ممکن نہیں… اور تعصب سے رہائی کیسے نصیب ہو؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے