امریکا سےاربوں ڈالر نہیں، صرف مونگ پھلیاں ملیں: نثار کا ٹرمپ الزامات پر ردعمل

اسلام آباد: جنوبی ایشیاء کے لیے نئی پالیسی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ان الزامات کے ثبوت پیش کیے جائیں، بغیر ثبوت کے اعتماد بحال نہیں ہوسکتا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے چوہدری نثار نے مطالبہ کیا کہ امریکا سے 10 سال میں جتنی امداد آئی ہے اس کا آڈٹ ہونا چاہیے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ میں 50 کروڑ ڈالر کی بات کی جاتی ہے جبکہ صرف 20 کروڑ ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، ’پچھلے 20 سال میں پاکستان کو لاکھوں ڈالر نہیں مونگ پھلیاں ملی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تعاون چاہتا ہے لیکن یہ تعاون یک طرفہ، اور دشمنوں کے ایجنڈے پر نہیں ہوسکتا‘۔

قائم مقام نائب وزیر خارجہ اور پاکستان افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی ایلس ویلز کے دورہ پاکستان ملتوی کرنے کو اچھا اقدام قرار دیتے انہوں نے کہا کہ ’ایسا نہ ہو عید کے بعد وہ پھر دورہ کریں اور وزیر خارجہ، وزیراعظم اور آرمی چیف کو کال آن کریں‘۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ’پہلے مرحلے میں رابطہ سرکاری ہونا چاہیے، سیکرٹری خارجہ پاکستان آئیں تو ان کا ہم منصب ہی ملاقات کرے، سیکرٹری اسٹیٹ وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گی تو معاملہ خراب ہوگا۔‘

افغانستان میں عدم استحکام پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں حالات پاکستان کی وجہ سے خراب نہیں بلکہ ان کی اپنی لاغر حکومت کی وجہ سے ہیں جس کا ملک کے 70، 80 فیصد حصے پر کنٹرول ہی نہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو اس معاملے میں شامل کرنا افغانستان کو غیرمستحکم کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے، ’بھارت کی نہ افغانستان سے کوئی سرحد ملتی ہے نہ کوئی تعلق ہے لیکن ہم نے راستہ دیا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا افغانستان کے استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا‘۔

چوہدری نثار کے مطابق مفاد کی خاطر چپ رہنے کی وجہ سے بار بار قیمت ادا کرنا پڑی ہے لیکن اس بار سب یک زبان ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’قرارداد سے کچھ نہیں ہوگا بیانیہ بنائیں، وزارت خارجہ کو بلائیں، حکومت اپوزیشن ادارے بیٹھیں اور یک زبان ہو کر جواب دیں‘۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سینیٹ، قومی اسمبلی صرف تقاریر کے لیے نہیں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ آج ہم یکجا اور یک زبان ہیں، حکومت کو اس اتفاق سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے اسپیکر سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ امریکی کانگریس کے سربراہ کو خط لکھیں، پاکستان ایک کمیٹی بنائے اور افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی نشاندہی کرے اور امریکا کے پاس اگر پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے ثبوت ہیں تو ہمیں فراہم کرے۔

’4 سال تک حکومت کا دفتر خارجہ لاوارث رہا‘
اس سے قبل اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ نے ٹرمپ الزامات پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ مشترکہ اجلاس ہوتا تو مشترکہ اور طاقتور قرارداد لائی جاسکتی تھی۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ ’ہماری تجویز تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا، عید کے بعد مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہیے‘۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ہمسائیوں کو سامنے رکھ کر قرارداد لانی چاہیے، جذبات میں آکر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ آج کی بحث وزیر خارجہ خواجہ آصف کو شروع کرنی چاہیے تھی، چار سال میں جو ناکامی ہوئی اسے ماننا چاہیے، ’ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے خارجہ سفارتی چینل کو بالکل استعمال نہیں کیا‘۔

خورشید شاہ نے کہا کہ ‘یہ ہماری سیاسی جنگ ہے، اس میں توپیں نہیں کھڑی کرنی چاہیئیں بلکہ سوچنا ہوگا کہ امریکا ہمیں کیوں دھمکیاں دے رہا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے پڑوسی ممالک اور ماضی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آزادانہ حیثیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کی جانب سے امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کو لکھے گئے خط پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عبدالباسط کا خط حکومت کی ناکامی ہے‘۔

خورشید شاہ کے مطابق ’امریکا میں پاکستانی سفیر کے لیے جو خط لکھا گیا یہ مذاق ہے، کیاواشنگٹن اور دہلی کے پاس یہ خط نہیں گیا ہوگا، یہ گورننس کی ناکامی ہے‘۔

اپوزیشن لیڈر نے سوال کیا کہ ’آج ہم کیوں اس پوزیشن پر پہنچے ہیں، 4 سال ہماری خارجہ پالیسی کیوں کمزور رہی؟‘

انہوں نے کہا کہ ‘ہم 4 سال وزیرخارجہ کے تقرر کا مطالبہ کرتے رہے لیکن 4 سال نواز شریف ملک کے وزیرخارجہ رہے’۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ’ن لیگ میں پڑھے لکھے اور ٹیلنٹڈ لوگ ہیں، آپ کو ایک وزیرخارجہ نہیں ملا،حکومت کا دفتر خارجہ لاوارث تھا‘۔

’کسی قوم نے اس سے بھاری قیمت نہیں ادا کی‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں امریکی صدر کے الزامات پر حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان اتحاد کی تعریف کی۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اجلاس میں تمام رہنماؤں کی تقاریر واضح کرتی ہیں کہ پاکستان نے متحد ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کردیا۔

شاہ محمود قریشی کے مطابق ’ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ضروری کردار ادا نہیں کررہا، لیکن مجھے کوئی ایک ملک ایسا بتائیں جس نے اس جنگ میں اس سے بھاری قیمت ادا کی ہو‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری فوج، پولیس اور عوام تک نے اس جنگ میں اپنی جان کی قربانیاں دیں، کوئی ملک نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس سے بڑھ کر کچھ کیا‘۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکی معاونت کا شکرگزار ہے لیکن دونوں ممالک کو ساتھ بیٹھ کر ’ہمیں دی جانے والی امداد اور ہم سے لی جانے والے ہر چیز کا تخمینہ لگانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کس نے زیادہ خرچ کیا‘۔

انہوں نے تجویز دی کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا امریکی پالیسی پر مشاورت کے لیے چین، روس اور ترکی کا دورہ کرنا اچھا ہے لیکن انہیں ایران بھی جانا چاہیے جس کی سرحد پاکستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ ملتی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے اسپیکر سے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے عید الاضحیٰ کے بعد قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اعلان کردیا۔

’قرارداد میں ٹرمپ پالیسی کو نشانہ بنانا چاہیے‘
شاہ محمود قریشی کے بعد وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بیان دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی قرارداد میں کشمیر اور نیوکلیئر پروگرام کا تذکرہ کرنے کی تجویز دی۔

ان کا کہنا تھا کہ قرارداد میں پیسوں کی بات شامل نہ کی جائے کیونکہ ہم نے کبھی پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا، قرارداد میں ٹرمپ پالیسی کو نشانہ بنانا چاہیے۔

خواجہ آصف نے قرارداد میں سے یورپ میں پناہ گاہوں کے الفاظ نکالنے کی تجویز بھی دی جس پر پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک پاکستان میں علیحدگی پسند رہنماؤں کو پناہ دیتے ہیں، اس کا تذکرہ بھی قرارداد میں شامل ہونا چاہیے۔

ٹرمپ کے الزامات کے خلاف قرارداد منظور
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے خلاف قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کر لی گئی۔

قرارداد میں امریکی صدر کی پاک-افغان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی پالیسی اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل نکلسن کے بیان کو ‘جارحانہ’ اور ‘خطرناک’ قرار دیا گیا۔

قرارداد میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی تمام فورسز کی قربانیوں کی تحسین اور آپریشنز کی مکمل حمایت کی گئی۔

دوسری جانب پاکستان کی سرحد کے ساتھ دہشت گردوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ ہی دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

قرارداد میں حکومت سے دونوں ممالک کے عہدیداروں کے دوروں اور امریکا سے تعاون پر غور کا مطالبہ بھی کیا گیا اور امریکی امداد کی عدم موجودگی میں اقتصادی پالیسی مرتب کرنے کی اپیل بھی کی گئی۔

نئی امریکی پالیسی اور ٹرمپ کے الزامات
رواں ماہ 21 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کردیا۔

امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے، ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے‘۔

دوسری جانب افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد ’بلینک چیک‘ نہیں، ’ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں’۔

اپنی تقریر میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’بھارت، امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت، افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے