اُدھر رحمتوں کی برستی گھٹائیں

خوش قسمت اہل ایمان قافلہ در قافلہ سوار وپیادہ مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں اور لبیک لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے حضور گریہ وزاری میں مصروف عمل ہیں۔۔۔پیچھے رہ جانے والوں میں کچھ وہ ہیں جو ابھی تک اس لذت سے آشنا ہی نہیں اُنکا درد بھی درد ہے لیکن وہ جو ایک دفعہ بھی سفر کرچکے ہیں اُن کا حال تو ان ایام میں بہر حال ناقابل برداشت اور سفر سے محرومی کا غم نمایاں رہتا ہے وہ ہر جانے والے سے التماس کرتے ہیں میرے لیئے دعا کیجئے ۔۔۔میرا بھی بلاوا آجائے اور میں بھی حرم کی معطر فضاؤں میں یہ مبارک ایام عبادات میں گزار سکوں ۔۔۔ اگر چہ دنیا بھر کے سارے انسان بیک وقت یہ عبادت ادا نہیں کرسکتے ۔۔۔لیکن اس تڑپ میں اور اس غم کو محسوس کرنے میں کوئی عار نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کو اس کی برکت سے رجوع الی اللہ نصیب ہوتا ہے ۔۔۔اور ساتھ میں دل کی گہرائیوں سے یہ بھی دعا ہونی چاہیے کہ یہ سفر محض اللہ کی رضاء کیلئے ہو ۔۔۔کوئی سیاسی یادنیاوی غرض نہ ہو وگرنہ اس سفر سے بھی سوائے تھکاوٹ اور تکلیف کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔۔۔

عقیدت اور محبت کا یہ سفر جب کسی مسلمان کے نصیب میں نہ ہو تو اس کا حال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے ۔۔۔یہ کیسا درد ہے اور یہ کیسا مرض ہے۔۔۔یا اللہ تیرے گھر کے دیدارکا مرض۔۔۔روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے شرف کا مرض۔۔۔بس جذبات کا ایک بحر بیکراں ہے۔۔۔دل میں حد درجہ تڑپ ہے۔۔۔ذہن و قلب پر صرف ایک ہی سوچ حاوی ہے ۔۔۔ہائے کاش وہاں پہنچنے والے ان خوش قسمتوں میں میرا بھی نام شامل ہوتا ۔۔۔ہر روز مکہ مکرمہ سے براہ راست نشر ہونے والے مناظر کلیجہ منہ کو لے آتے ہیں ۔۔۔کبھی محبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ہر جانے والے پر رشک آتا ہے اور کبھی یہ کہ یہ کیوں جارہا ہے میں کیوں نہیں۔۔۔

یہ دن یہ صبح یہ شام ۔۔۔ہائے حرم کی رونقیں،برکتیں،رحمتیں۔۔۔اُف کیا عالم ہوگا۔۔۔اور میرے آقا ﷺ کے روضہ مبارک کا منظر ،روضہ مبارک کی وہ جالی ،حسین و جمیل اور بے مثال گنبد حضراء ۔۔۔بس درد کی وہ کیفیات ہیں جو صرف محسوس کی جاسکتی ہیں اوروہ ناقابل بیان و ناقابل تحریر ہیں۔۔۔پھر وہ کونسا لمحہ ہوگاجب میں گنبد خضراء کے سامنے ہونگا ،ریاض الجنۃ میں ہونگا۔۔۔ہاں جب ہی یہ ممکن ہے جب بلاوا آئے گا۔۔۔میرا نام بھی سعاتمندوں میں شامل ہوگا۔۔۔مولا اپنے گھر کے دیدار سے محروم نہ رکھنا ۔۔۔اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر پیش ہونے کا شرف بخشنا۔۔۔مولامدینہ کی زندگی اور شہر نبی کی موت نصیب فرمانا ۔۔۔یہ التجائیں صرف میری ہی نہیں میں سمجھتا ہوں میری طرح ہر اُس شخص کی ہیں جسکو اللہ نے حج و عمرہ کی سعادت سے بہرہ مند فرمایا ہے ۔۔۔خلاق عالم کی بے پناہ رحمتوں اور عنایات کے طفیل بے سرو سامانی کے عالم میں جب بندہ ناچیز کو حج بیت اللہ نصیب ہوا۔۔۔ تو نہ جانے کیسے انتظام ہوا ۔۔۔

بظاہر نہ کچھ زاد سفر اور نہ ممکنہ صورت حال اور تو اور جس ادارے سے میری جز وقتی وابستگی تھی وہاں بھی ایک عجیب و غریب قسم کی سیاست ،سازش اور منافقت،کچھ سمجھ نہ آئے کہ یہ جو کہ رہا ہے وہ درست ہے یا وہ جو کہ رہا ہے وہ درست ہے ۔۔۔لیکن قدرتی طور پر اس بات کا اطمینان تھا کہ اگر میرے مقدر میں ہوا تو یہ سفر ضرور ہوگا اور اگر بلاوہ نہ آیا تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا اور نہ یہ میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں ۔۔۔پھر بھی مجھے حوصلہ دینے والے اور میرے لیئے اس مبارک سفر میں معاون بننے والے مجھے حرم میں لمحہ بلمحہ یاد آئے بلکہ دل سے اُنکے لیئے دعائیں نکلیں ۔میں درحقیقت سوچ یہ رہا تھا کہ ایک طرف اسباب کی دنیا ہے اور دوسری طرف قدرت ۔۔۔ہمیشہ قدرت ہی غالب رہتی ہے اور منافقت،شیطنت ،دجل،مکر اور فریب ناکام و نامراد ہوتا ہے ۔۔۔اور اللہ کریم کے سہارے کے آگے تو فرعون کی طاقت بھی بال بیکانہیں کرسکتی ہے ۔

۔۔۔ میری ممانی اہلیہ محترمہ قاری عبد الاکبر رحمۃ اللہ علیہ جو میری حددرجہ محسنہ اور مربیہ ہیں وہ مجھے اکثرمیری والدہ محترمہ کے سامنے فرمایا کرتی تھیں کہ ۔۔۔تو ایک دن ضرور حج کرے گا ۔۔۔وہ تو اس تڑپ کے ساتھ دُنیا سے رخصت ہوگئی ۔۔۔لیکن اُنکے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعدہی ۔۔۔رب کریم کے کرم سے دل میں حج بیت اللہ کی سعادت کا داعیہ بڑی شدت سے پیدا ہوا بزرگوں سے دُعاؤں کی بھی درخواست کی اور مولا نے چند محبین کے طفیل اس سفر کو انتہائی پُرسکون اور خیر و برکت والا بنادیا ۔۔۔ واپسی پر جس شدت سے مجھے اپنے اس سفر کو کسی کے سامنے بیان کرنے اور گھنٹوں جن کی محفل میں بیٹھ کر داستان سفر سُنانے کا شوق رہا وہ وہی نیک سیرت خاتون تھیں ۔۔۔آہ اُنہیں میں کیسے سناؤں اور کہاں سے اُنہیں ڈھونڈ لاؤ۔۔۔اللہ غریق رحمت فرمائے اور کروٹ کروٹ مرحومین اُمت مسلمہ کو جنت نصیب فرمائے ۔

بزرگ عالم دین ،پیرطریقت میرے مرشد اور میرے والدحضرت مولانا پیر برکت اللہ ربانی فرمایا کرتے ہیں کہ میرے تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تین چیزوں کیلئے اگر قرض لیا جائے تو رب کریم جلد ہی اُسکا انتظام فر دیتے ہیں شادی،حج اور ضرورت کے گھر کیلئے ۔۔۔بہت سے احباب ارادہ سے بھی گریز کرتے ہیں ۔۔۔بہر حال ہمیں ہر لمحے اس سعادت کیلئے ارادہ کرنا اور دل میں داعیہ پیدا کرنا چاہیے ۔۔۔نامعلوم زندگی کی کتنی سانسیں ہیں ۔۔۔ہمارا ہر لمحہ غنیمت ہے ۔۔۔بس فکر کرکے ۔۔۔توجہ دے کر ۔۔۔اور بارگاہ ایزدی میں گڑ گڑا کے اس سعادت کے حصول کیلئے دعائیں مانگیں ۔۔۔واللہ اس سے بڑھ کرکوئی دولت نہیں ۔۔۔اس حوالے سے تلبیہ ’’لبیک اللھُم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد و النعمۃ لک والملک لا شریک لک‘‘کا کثرت سے ورد کریں ۔۔۔نامعلوم قبولیت کی کسی گھڑی میں آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوں اور رب کریم خزانہ غیب سے انتظام فرمادے بس پھر کیا لطف و عنایت ہوگا ،کرم نوازی ہوگی اور آقاﷺکے روضے کا دیداراور جنت کے مناظر ہونگے اور آپ ہونگے۔۔۔ اللہ کریم بار بار سب کو نصیب فرمائے ۔آمین

کیفی صاحب نے ہمارے ان ہی جذبات کی ترجمانی ان الفاظ میں کچھ یوں کی

شب وروزاب تو یہی ہیں دعائیں
خدا دن وہ لائے مدینے کو جائیں
عرب کے بیاباں کا ہر ذرہ چومیں
غبار حرم کو گلے سے لگائیں
وہ دنیا کی جنت ، وہ جنت کی دنیا
معنبر ہوائیں ،معطر فضائیں
کبھی دور اس سبز گنبد کو دیکھیں
کبھی پاس آکر نگائیں جھکائیں
ادھر سے امڈتے ہوں اشک ندامت
اُدھر رحمتوں کی برستی گھٹائیں
فضاؤں میں نغمہ ہو صلی علیٰ کا
سلام علیکم کی لب پر صدائیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے