’’گرو جی ہمیں شاعروں سے بچا لو‘‘

ہمارے حالات دن بدن بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی ایک خرابی کی طرف توجہ دیتے ہیں تو کوئی دوسری خرابی سامنے آ جاتی ہے۔ حکومت اور ریاست جن کو ہمارے معاشرہ کی تنزیلی کا سفر روکنے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے اُن پر کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔

حکومت اور ریاستی ادارے اپنی اپنی سیاست اور طاقت کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیںجب کہ معاشرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور ریاست کی اس سنگدلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جس کی جو مرضی میں آئے وہ بلا روک ٹوک کرتا جا رہا ہے بے شک ایسا کرنا ہماری اسلامی تعلیمات اور اقدار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو یا معاشرتی حدوں کو پار کرتا ہویا پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔ گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ویڈیوز بہت عام ہو رہی ہیں۔ ان ویڈیوز میں خواتین ماڈلز اور ڈانسرز کو قربانی کے جانوروں کی رسی تھامے یا تو ڈانس کرتے دیکھایا گیا یا وہ ان جانوروں کے ساتھ کیٹ واک کر رہی تھیں۔

یہ سب کچھ کسی ہوٹل، کسی ہال میں نہیں بلکہ قربانی کے جانوروں کے لیے لگائے گئے ٹینٹ میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ معلوم نہیں یہ سب کچھ پاکستان کے کس شہر میں کیا جا رہا ہے لیکن ان ویڈیوز کے ذریعے یہ تماشا لگانے والوں تک پہنچا جا سکتا ہے اور یہ ذمہ داری حکومت وقت کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی جاہل لالچی کاروباری شخصیت نے قربانی کے مال کو اچھے داموںبیچنے کے لیے عام اشیاء کے اشتہارات کے اُسی بزنس ماڈل کا سہارا لینے کی کوشش کی ہو جس میں عورت ، ڈانس ، بے شرمی اور بے حیائی کے ذریعے اپنے مال بیچا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر تو کسی بھی صورت میں اپنا مال بیچنے کے لیے عورت اور فحاشی وعریانیت کا استعمال نہ صرف ایک غیر اسلامی اقدام ہے بلکہ ایک انتہائی گھٹیا حرکت ہے جس کے ذریعے عورت کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے جس کی کسی صورت میں بھی ہماری معاشرہ میں اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہ معاملہ تو اور بھی سنگین ہے کیوں کہ یہاں خواتین ماڈلز اور ڈانسرز کو استعمال کرنا دراصل قربانی جو کہ سنت ابراہیمیؑہے کی بے حرمتی کرنے کے مترادف ہے۔

قربانی تو اللہ کی رضا کے حصول ، ثواب کمانے اور آخرت میں گناہوں کی بخشش کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسے مقدس دینی عمل کو بھی مغرب کے بزنس ماڈل کے طور پر پیسہ کمانے کے لیے اب یہاں استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میری وفاقی و صوبائی حکومتوں سے درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیلائی جانے والی ان ویڈیوز کے مدد سے اُن افراد کو گرفتار کریں جنہوں نے اس قسم کے قابل اعتراض شوز کا انعقاد کیا۔ اگر حکومت نے اس معاملہ میں بھی اپنی سردمہری دکھائی اور کارروائی نہ کی تو پھر مجھے ڈر ہے کہ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والے حوصلہ پکڑیں گے۔ میں یہ سب کچھ اس نیت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ایک اسلامی ملک میں ایسے عمل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی سیکولر، کوئی لبرل میرے اس اعتراض پر بھی مجھے کوسے، بُرا بھلا کہے، میرا مذاق اڑائے جس کا میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا۔ میں گالی کا جواب گالی، یا مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑا کر بدلہ نہیں لینا چاہتا بلکہ صرف اس دکھ اور افسوس کا اظہار کروںگا کہ دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے یہاں بڑے بڑے لکھاری جھوٹ بیچتے ہیں۔ ایک صاحب نے جون لینن کے گانے ’’Imagine‘‘ کے متعلق میرے ایک ٹوئٹ کا ذکر کرتے ہوئے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے لیے پورا کالم لکھ چھوڑا جس کا مقصد میرا مذاق اڑانا تھا۔

کالم کا عنوان ’’گرو جی ہمیں شاعروں سے بچا لو‘‘ تھا جس میں لکھاری صاحب جان لینن کے گانے کی تاریخ لکھتے ہیں کہ کس طرح اس گانے نے پوری دنیا میں دھوم مچائی۔جناب نے یہ بھی لکھا کہ اس گانے کو 2012 کے لندن اولمپکس اور 2015کے باکو میں منعقدہ یورپئین گیمز کی اختتامی تقاریب میں بھی گایا گیا۔ جناب نے یہ بھی لکھا کہ یہ گانا جب ریلیز ہوا تو ایک جانب سے اعتراض یہ اٹھا کہ جون لینن کیمونسٹ ہے کیوں کہ ’امیجن‘ میں تصور ملکیت کی مخالفت کمیونسٹ تصور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چرچ کے کئی اہلکاروں نے اعتراض کیا کہ گیت میں ’کوئی مذہب نہ ہو‘ والی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔

ہمارے سیکولر لکھاری نے جون لینن کے ایک انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں جون لینن کی طرف سے کہا گیا کہ اُس کے گانے میں مذہب کی حوصلہ شکنی نہیں۔ اس کے بعد لکھاری صاحب میرا تمسخر اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مگر بھلا ہو گرو صحافی کی ایک ٹویٹ کا جس نے مجھ جیسوں کی آنکھیں کھول دیںــ…….. شکر ہے 46 برس میں کروڑوں عیسائیوں، یہودیوں، کمزور عقیدہ مسلمانوں اور ملحدوں کے اس گیت پر بنا سوچے سمجھے سر دھننے کے علاوہ کسی کو تو توفیق ہوئی کہ اس گیت میں پوشیدہ کفر و الحاد کا بھانڈا پھوڑ کے آنے والی نسلوں کو اسے پسند کرنے اور گانے سے بچا لے۔‘‘ان صاحب کے مطابق جون لینن کے گانے میں پوشیدہ کفرو الحاد کا بھانڈا میں نے پھوڑا جس نے اُن کی آنکھیں کھول دیں۔ یعنی تاثر یہ دیا جیسے کہ اس گانے کو کفرو الحاد کا رنگ 46 سال گزرنے کے بعد میں نے دیا جس پر وہ یہ کالم لکھنے پر مجبور ہو گئے۔

جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا کہ میں اُن کے طنز اور تمسخر کا جواب طنز اور تمسخر کے ساتھ دینے کی بجائے اُس حقیقت کے ساتھ چند ثبوتوں سمیت دوں گا جو تعجب کی بات ہے کہ جان لینن اور اُس کے گانے کی تاریخ سے اتنے واقف یہ لکھاری نہ دیکھ سکے۔ میرے بارے میں کہا گیا کہ میں نے چار دہائیوں کے بعد جون لینن کے گانے میں ’پوشیدہ کفرو الحاد کا بھانڈا پھوڑا‘۔جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ جون لینن کے اس گانے کو سالہاسال سے الحاد (Atheism)کے ساتھ مغرب یعنی گوری چمڑی والے خود جوڑ رہے ہیں۔

اگرچہ میرے ٹوئٹ میں الحاد کا بھی ذکر نہ تھا لیکن پھر بھی صرف ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ انٹرنیٹ پر میری کوئی پندرہ بیس منٹ کی ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف جون لینن کا یہ گانا (Imagine) الحادپرستی کے پانچ ٹاپ گانوں میں شامل ہے بلکہ 17 نومبر 1999 کے گارڈین اخبار کے ایک آرٹیکل (Imagine, a song to end an era)میں اس گانے کو the lyrical anthem of atheism لکھا گیا۔ اسی طرح ڈیلی ٹیلی گراف نے 28 جولائی 2009 کو ایک خبر دی کہ جون لینن کے امیجن گانے کو الحاد پرستوں نے بچوں کے سمر کیمپ میں شامل کر دیا۔

انٹرنیٹ میں موجود ایک بلاگ میں 14 اگست 2012 کو ایک آرٹیکل لکھا گیا جس کا عنوان ’’John Lennon and Atheism at the Olympics closing ceremony‘‘ تھا۔ 26 جون 2007 کے گارڈین اخبار میں ایک شخص سی لو گرین جس نے جون لینن کے اسی گانے کے بول تبدیل کیے تو اس پر الحاد پرستوں کا سخت اعتراض سامنے آیا۔ میری ان لکھاری صاحب سے گزارش ہو گی کہ انٹرنیٹ پر جائیں John lennon, Imagine, Atheism کو گوگل کریں تو کم از کم ایک بات ضرور ثابت ہو گی کہ جو انہوں نے میرے بارے میں لکھا وہ جھوٹ تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے