کیا راخائن میں کوئی جہاد ہورہا ہے

کیا راخائن میں کوئی جہاد ہورہا ہے

ایسا نہیں ہے ۔۔

روہنجیا مسلمانوں کا معاملہ سراسر لسانی مسئلہ ہے اور ان کی عسکری تنظیم اراکان روہنجیا سلویشن آرمی اس معاملے کو قومی جنگ قرار دیتی ہے

روہنجیا مسلمانوں کی تنظیم کا قیام 2013 میں کراچی میں پیدا ہونے والے ایک برمی عطااللہ نے کیا جسے ابوامر جنجونی کے نام سے جانا جاتا ہے

عبداللہ سلویشن آرمی کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ روہنجیا مسلمانوں کے معاملے کو جہاد کی کوئی قسم نہ سمجھا جائے، ان کی لڑائی مذہبی نہیں ہے

برما کے حکام بھی راخائن مسلمانوں کی مزاحمت کو جہاد سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ انہیں بنگالی دہشت گرد کہتے ہیں، میانمار میں 27 تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، ان میں ایک سلویشن آرمی بھی ہے اور ان کو بنگالی دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کی گئی ہے

برما اور روہنجیا مسلمانوں میں مذہب وجہ تنازع نہیں بلکہ شہریت وجہ تنازع ہے، میانمار انہیں اپنے ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتا، انہیں بنیادی حقوق کے ساتھ سفر کی سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے اور شہریت کا یہ تنازع برما کے ایک ڈکٹیٹر کی پالیسی سے شروع ہوا، جس کی حمایت آنگ سانگ سوچی بھی کررہی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے

میانمار کا معاملہ مذہبی جنگ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کا مسئلہ ہے، روہنجیا مسلمانوں پر برمی فوج ظلم کررہی ہے اور دنیا کو تمام تفریقات بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا، برمی مسلمان بھی روہنجیا مسلمانوں کے لئے وہی جذبات رکھتے ہیں جو جذبات برمی بدھسٹ کے ہیں

برما کے معاملے پر جذبات کو بھڑکا کر نوجوانوں کو کسی اور جنگ کی جانب اکسانا یا مسلمانوں سے راخائن کے نام پر اموال سمیٹنا کسی طور درست نہیں، روہنجیا مسلمانوں کی حالت زار کے نام پہ نیپالی اور انڈونیشین فلموں کی تصاویر اور ویڈیوز ان دنوں وائرل ہیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا جاسکے، یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے، راخائن میں حالات ضرور کشیدہ ہیں مگر یہ جنگ دوطرفہ ہے، ہلاک ہونے والے برمی فوجیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے اور برمی فوجیوں میں بھی مسلمان شامل ہیں

فلسطین کاز کو حماس نے مذہبی بنا کر غزہ تک محدود کرتے ہوئے تباہ کردیا ورنہ پہلے مسیحی اور مسلمان بالخصوص اور یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد یروشلم کی آزادی کی جدوجہد میں ہمرکاب تھی، یہ انسانوں کی غاصبوں کے خلاف جنگ تھی، اب یروشلم کسی کو یاد بھی نہیں، اسرائیل بھی غزہ کی مذہبی جنگ میں دنیا کو مصروف رکھ کر مشرقی یروشلم کا بنیادی تنازع سائیڈلائن کرچکا ہے، پی ایل او اور الفتح کا نام کسی کو یاد نہیں، یاسر عرفات کی طرح صابرہ اور شتیلا کے سانحات بھی بھلادئیے گئے

یہی حال کشمیر میں ہوا کہ 80 کے دہائی کی وسط تک چلنے والی وہ لڑائی جسے جموں کے ہندو پنڈت بھی اپنا کہتے تھے، مذہبی جنگ میں تبدیل ہوگئی، کشمیر اس کے باسیوں کے لئے جیل بن گیا، جدوجہد کے مواقع کم ہوگئے، پاکستان کو بیک فُٹ پہ آکر دنیا کے سامنے دراندازی کے الزام کے بعد جارحانہ سے دفاعی پوزیشن اپنانا پڑی

کیا اب برما کے نام پہ نوجوان جہاد کے لئے بھرتی ہوں گے؟ کیا یونی ورسٹیوں سے قتال کے نعرے لگاتے ہوئے طلبہ نکلیں گے؟ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ شدت پسندی ہے اور جعلی ویڈیوز سے اس شدت پسندی کو ابھارا جارہا ہے

روہنجیا مسلمانوں کی نسل کشی ایک غیرانسانی فعل ہے مگر اس نسل کشی پہ دکانیں چمکاتے انتہاپسندی کے ٹھیکے دار بھی قابل مذمت ہیں

عثمان غازی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے