ایم کیوایم، پی ایس پی اور لندن

ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین بڑے مظالم کے مرتکب ہوئے اور اب خود اپنے اوپر بھی ظلم کرنے چل پڑے ہیں ۔ دیگر قومیتوں اور اداروں سے جنگ کے بعد اب ریاست پاکستان سے جنگ چھیڑ کر تو انہوں نے اپنی سیاست کےتابوت میں خود اپنے ہاتھوں سے آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔ ورنہ تو ان کے بے پناہ جرائم کے باوجود ، ایم کیوایم جیسی تنظیم کا قیام ان کا ایک ایسا کارنامہ تھا کہ موت کے بعد بھی اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے نام پر کٹ مرنے کو تیار رہتی ۔ جس طرح الطاف حسین کی ذات مختلف انتہائوں کا مجموعہ ہے ، اسی طرح انہوں نے ایم کیوایم کو بھی ایسی بنیادوں پر استوار کیا کہ وہ دو انتہائوں کا مجموعہ بن گئی اور ہم جیسے لوگ بھی اس سے متعلق کشمکش بلکہ لو اینڈ ہیٹ (Love and hate) والی کیفیت سے دوچار رہے ۔

ایم کیوایم کا ایک رخ تو یہ ہے کہ وہ کراچی جیسے روشنیوں کے شہر میں تشدد کی بانی قرار پائی ۔ اس نے سیاست میں دھونس اور جبر کو متعارف کرایا۔ اپنے بارے میں میڈیا کی زبان بندی ہی نہیں کی بلکہ اسے مہار ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق چلاتی رہی۔ اس جماعت نے سب سے بڑے پاکستانیوں اور پاکستان کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے مہاجروں کو کبھی پختونوں سے لڑایا، کبھی سندھیوں سے ، کبھی پنجابیوں سے تو کبھی فوج سے ۔ بلکہ ایم کیوایم حقیقی کے بن جانے کے بعد تو مہاجروں کو مہاجروں سے بھی لڑایا۔ وہ مہاجر جو قربانی، محبت ، ادب اور تہذیب کی علامت تھے اور ہیں، تشدد کے اس عنصر کی وجہ سے پورے ملک میں بدنام ہوئے ۔

یوںیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایم کیوایم کے تشدد کے اس رخ کی وجہ سے اس نے سب سے زیادہ نقصان خود ان مہاجروں کو پہنچایا جن کے حقوق کے لئے یہ تنظیم قائم ہوئی تھی ۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تشدد کے عنصر کو نکال دیا جائے تو ایم کیوایم جیسی سیاسی جماعت اور کوئی نہیں ۔ یہ پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے کہ جو حقیقی معنوں میں مڈل کلاس کی نمائندہ ہے (جماعت اسلامی شاید اس معیار پر پورا اترتی ہو لیکن وہ مذہبی جماعت ہے سیاسی نہیں)۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے کہ جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگوں کو حکمراں بنایا اور بڑے بڑے سیٹھوں اور کھرب پتیوں کوان کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور کیا ۔

ایم کیوایم کی قیادت کی صفوں میں اگر کوئی امیر نظر آتا بھی ہے تو وہ بعد میں امیر بنا ہے لیکن حقیقتاً اس جماعت کی قیادت کے دروازے سرمایہ داروں اورجاگیرداروں پر بند رہے ۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے کہ جو موروثیت سے مکمل طور پر پاک تھی اور ہر طرح کے لوگ محنت اور قابلیت سے آگے بڑھ سکتے تھے ۔ یہ جماعت جتنی منظم تھی ، شاید ہی پاکستان کی کوئی جماعت اتنی منظم ہو ۔ جماعت اسلامی منظم ضرور ہے لیکن وہ عوامی جماعت نہیں لیکن ایم کیوایم بھرپور عوامی جماعت بن جانے کے باوجود جتنی منظم تھی، اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ منظم رہ کر عوامی بن جانا بڑا مشکل ہوتا ہے اور عوامی جماعت ہوکر منظم رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے لیکن یہ واحد جماعت تھی کہ جو ان دونوں معیارات پر پورا اترتی تھی ۔ سیاسی موضوعات پرجتنا ہوم ورک اور تیاری یہ جماعت کرتی ہے ، پاکستان کے کسی جماعت کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اس جماعت کے رہنمااور کارکن جتنی محنت کرتے ہیں ، وہ ناقابل بیان ہے ۔

مصطفیٰ کمال، فاروق ستار ، فیصل سبزواری اور اسی نوع کے دیگر رہنمائوں کے شب وروز دیکھ کر ہم حیران ہوتے ہیں کہ یہ لوگ سوتے کب ہیں یا پھر خاندان کو کب اور کیسے وقت دیتے ہیں ۔سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ جماعت حقیقی معنوں میں لبرل نظریات رکھنے والی جماعت تھی ۔ مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے خلاف شاید سب سے توانا آواز تھی ۔ گویا تشدد کا عنصر نہ ہوتا تو ایم کیوایم ہم جیسے لوگوں کے لئے ایک مثالی جماعت تھی لیکن افسوس کہ تشدد کے اس عنصر نے اس کی خوبیوں کو بھی نظروں سے محو کردیا تھا۔ ہم جیسے لوگ دعائیں کیا کرتے تھے کہ ایم کیوایم سے تشدد کا عنصر نکل جائے لیکن بظاہر یہ کام ہمیں بھی ناممکن نظرآرہا تھا۔ ایک طرف الطاف حسین اتنے بڑے بت بن چکے تھے کہ ایم کیوایم کے کسی رہنما کے لئے ان کو چیلنج کرنا ناممکن نظرآرہا تھا ۔

ان کو چیلنج کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا اور دوسری طرف ان کو چیلنج کئے بغیر ایم کیوایم کے ہاں سے تشدد کے عنصر کا خاتمہ ناممکن تھا۔ تاہم یہ ناممکن اس وقت ممکن بنتا دکھائی دیا کہ جب عوامی سطح پر ایم کیوایم کے مقبول ترین رہنما مصطفیٰ کمال اور تنظیمی سطح پر کلیدی اہمیت کے حامل انیس قائم خانی نے کشتیاں چلا کرالطاف حسین کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ درجنوں کی تعداد میں رضاہارون اور ڈاکٹر صغیر جیسے دیگر رہنمائوں نے بھی ان کی تقلید کی لیکن افسوس کہ ان لوگوںسے بعض بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جس کی وجہ سے وہ ایم کیوایم کے کارکنوں کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے ۔ پھر جب مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی اور فاروق ستار کی ایم کیوایم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے لگیں تو ہم جیسے لوگوں کی خوشی تشویش میں بدل گئی ۔

ہم مائنس تشدد ایم کیوایم کو غنیمت سمجھتے تھے ۔ کراچی اور پاکستان کے لئے مائنس تشدد ایم کیوایم کی موجودگی ضروری سمجھتے تھے لیکن تب ہمیں یہ تشویش لاحق ہوئی کہ ایک طرف تو فاروق ستار کا ایم کیوایم ، الطاف حسین یا بالالفاظ دیگر تشدد سے جڑے رہنے پر مجبور ہوئی اور دوسری طرف پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیوایم کے تصادم کا خطرہ بڑھ گیا۔ پھر جب ہم نے مصطفیٰ کمال جیسے ایک دوست کو ایک طرف اور فیصل سبزواری جیسے دوست کو دوسری طرف مورچہ زن دیکھا تو تشویش اور بھی بڑھ گئی ۔

یہ تو شکر ہے کہ خود الطاف حسین سے ایسی حرکت سرزد ہوگئی کہ جس کی وجہ سے ان کے ساتھ جڑا رہنا کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے ممکن نہیں رہا۔ ریاست پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے انہوں نے جس طرح اپنی حقیقت آشکار کردی ، اس کے بعد فاروق ستار والی ایم کیوایم کے لئے ان سے ناتا توڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایم کیوایم، الطاف حسین کے کسی حکم سے سرتابی کرسکے گی لیکن چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھ لیا کہ اسی ایم کیوایم نے اسمبلی میں الطاف حسین کی مذمت میں قراردادیں پاس کروائیں ۔ چنانچہ تشدد اور نفرت کا بڑا حصہ خود الطا ف حسین اور ایم کیوایم لند ن کی شکل میں الگ ہوگیا اور ایم کیوایم میں جس تطہیر کے ہم آرزو مند تھے ، وہ خود الطاف حسین کے ہاتھوں ہونے لگی ۔

اس عمل کے بعد بظاہر ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے ادغام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے تھی اور جب بھی موقع ملا میں نے دونوں گروپوں کے دوستوں سے التجائیں کیں تاہم ایم کیوایم پاکستان کے دوستوں کو ایک طرف مصطفیٰ کمال کی جذباتیت کی شکایت تھی اور دوسری طرف ان کو شک نہیں بلکہ یقین تھا کہ ان کے پیچھے نادیدہ طاقتیں ہیں ۔ دوسری طرف پاک سرزمین پارٹی کے دوستوں کو بھی شک نہیں بلکہ یقین تھا کہ ایم کیوایم پاکستان حقیقتاً ، ایم کیوایم لندن سے الگ نہیں ہوئی ۔ ہوسکتا ہے شروع میں واقعتاً ایسا ہی تھا لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران ایم کیوایم پاکستان کے رہنمائوں نے ایم کیوایم لندن کے بارے میں جن خیالات اور خدشات کا اظہار کیا ہے اور دوسری طرف لندن گروپ نے ان کے خلاف جس طرح بیانات دیئے اور جو اقدامات کئے ، اس کے بعد ان دونوں کا اگرکوئی رابطہ باقی ہے بھی تو بہت جلد ختم ہوجائے گا ۔

کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ایم کیوایم پاکستان تشدد کے عنصر سے مکمل طور پر پاک ہوچکی ہے لیکن میرے خیال میں اب وہ اس سے مکمل طور پر پاک کرائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح تو پاک سرزمین پارٹی میں بھی سب فرشتے جمع نہیں ہوئے ہیں۔یوں اب اگر دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور ایم کیوایم حقیقی کو بھی ساتھ ملا کر اپنی اپنی صفوں میں حقیقی تطہیر کے ذریعے خالص سیاست کی طرف آجائیں تو کراچی کو دوبارہ روشنیوں اور خوشیوں کا شہر بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ کراچی اورپاکستان دونوںکی ضرورت یہ ہے کہ ایم کیوایم کے بطن سے نکلے ہوئے تمام سیاسی دھڑے ایک ہوجائیں۔ دونوںکی صفوں میں تشدد پر یقین رکھنے والے جو عناصر موجود ہیں، ان کو پورے خلوص کے ساتھ نکال کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کیا جائے۔ جواب میں ریاستی ادارے بھی لڑانے کی بجائے مائنس تشدد ایم کیوایم کو ایک کرنے میں مدد فراہم کریںکیونکہ تشدد کے بغیر ایم کیوایم جیسی تنظیم صرف مہاجروں اور کراچی کی نہیں بلکہ پاکستان کی ضرورت ہے۔ یہ تنظیم ٹکڑوں میں بٹ کر آپس میں لڑپڑی یا پھر بکھر گئی تو یہ صرف مہاجروں اور کراچی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے