ہمیں نہ ٹرمپ چاہئے نہ کم جونگ آن

شمالی کوریا کے گزشتہ دنوںہائیڈروجن بم کے تجربے کے بعد دنیا اُس ناقابل ِ تصور جنگ کے مزید قریب ہوگئی جس میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارپہلی چوائس کے طور پر استعمال کیے جائیں گے ۔آج ڈیٹرنس کی عام تھیوریاں غیر اہم ہوچکی ہیں کیونکہ اُن کی بنیاد اس بات پر تھی کہ بحران کو مہمیز دینے والے بھی معقولیت کا دامن تھام کر سرخ لکیر عبور نہیں کریں گے ۔ لیکن آج ہمارے ایک طرف شمالی کوریا کے کم جونگ آن ہیںجن کا سنسنی خیز ایکشن جارحانہ بیان بازی سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ اُنھوںنے واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے سفارتی دبائو کا مقابلہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں، صلاحیت بھی دکھائی ہے ۔ صرف یہی نہیں، اُن پر اپنے تباہ کن حد تک فروغ پذیرجوہری اور میزائل پروگرام پر عالمی برادری کے شوروغل کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اُن کی فعالیت کی فہرست ظاہر کرتی ہے کہ اگر واشنگٹن کم کی دھمکی آمیزبیان بازی کونظر انداز کرتا ہے تو اسے تمام جزیرہ نما کوریا کے علاوہ جاپان اور امریکی سرزمین کے کچھ حصوں کی تباہی کا خطرہ مول لینا پڑے گا۔

دوسری طرف واشنگٹن میں نرگسیت کا شکار ایک غیر فعال صدر ہیں جو اپنی ٹویٹس کے ہجے بھی درست نہیں لکھ سکتے اور نہ ہی اُن دورپورٹرز میں فرق کرنے پر قادر ہیںجن کے بالوں کی رنگت ایک جیسی تھی (ایسا دراصل فن لینڈ میں ہوا جہاں ٹرمپ نے غلطی سے ایک سنہرے بالوں والی رپورٹر کو ایک اور رپورٹر سمجھا جس نے کچھ دیر پہلے ایک سوال پوچھا تھا۔ اس پر رپورٹر نے معنی خیز انداز میںصدر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’فن لینڈ میں تو بہت سے لوگوں کے بالوں کی رنگت سنہری ہوتی ہے )کیا ایسے شخص کے بارے میں خیال کیا جاسکتا ہے کہ اُنہیں شمالی کوریا کے بحران کے حوالے سے سراٹھانے والے گمبھیر خطرے کا ادراک ہوگا؟
چنانچہ پالیسی کی سمت کا تعین کرنے کا تمام بوجھ اُن کی ٹیم پر آجاتا ہے ۔ لیکن اُن کی ٹیم تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہے ۔ ہر ہفتے ٹرمپ کی ٹیم میں کسی نہ کسی کا آناجانا لگا رہتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مزاحیہ ڈرامہ ہو رہا ہو،لیکن اس کے نتائج ناگہانی تبدیلیوں کی زد میں آنے والی دنیا کیلئے المناک ہوسکتے ہیں۔ اور یہ دنیا ایک ایسی سپرپاور سے پرعزم اور معقول فیصلوں کی توقع کررہی ہے جس کی طاقت اگرچہ زوال پذیر ہے لیکن جو ابھی بھی پوری دنیا پر غلبہ رکھتی ہے۔

اس وقت ہائیڈروجن بم کا تجربہ کرگزرنے والے کم جونگ آن کے جواب میں ٹرمپ پے درپے ٹویٹس کررہے ہیں جن میں ’’تمام آپشنز استعمال کرنے پر غور ‘‘، اور ایٹمی تجربات کی مذمت کے الفاظ کی کثرت ہے ۔ مذمتی الفاظ کی زد میں شمالی کوریا اور اس کا ممکنہ خیر خواہ چین بھی شامل دکھائی دیتا ہے ۔ واشنگٹن کی طرف سے شمالی کوریا کے گرد فوجی اثاثوں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے کم کو پیغام دیا جارہا ہے کہ اُ ن کی طرف سے سرکشی دکھانے سے دبائو میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور نہ ہی تصفیے کی کوئی صورت نکلے گی ۔ لیکن کم طاقت کے اس مظاہرے پر پریشان نہیں ہوں گے، اور عین ممکن ہے کہ وہ اس کے جواب میں مزید دھماکے کردیں۔

بظاہر دکھائی یہ دیتا ہے کہ شمالی کوریا کے بحران اور تصادم کو ایٹمی سمت اختیار کرنے سے روکنے کے لئے ایک طویل، اعلیٰ سطحی، بھرپور اور تھکادینے والی سفارتی کوشش درکار ہے جس میں واشنگٹن سمیت دیگر عالمی قوتیں بھی اپنی توانائیاں جھونک دیں۔ ٹرمپ کی شمالی کوریا پر اسٹرائیک کی کوئی حمایت نہیں کرے گا، نیز اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ کم نے بہت موثر طریقے سے بنیادی حقائق واشنگٹن اور باقی دنیا کو سمجھا دئیے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ کسی صورت ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوں گے ، اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی اُن کے قریب آیا (یعنی فوجی کارروائی کی ) تو وہ اُنہیں بلا تامل استعمال کرگزریں گے ۔

یہ بحران کیا سمت اختیار کرتا یا کس طرح طے پاتا ہے، اس کے تمام دنیا کے لئے گہرے مضمرات ہوں گے ۔ پہلے ہی بہت سے قوانین از سرنو لکھے جارہے ہیں۔ جاپان بھی طویل عرصے تک شمالی کوریا کو امن پسندی کا درس دیتے دیتے اب خود بھی ایٹمی ہتھیارحاصل کرنے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے ۔ اور یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ایسی بہت سی چھوٹی ریاستیں، جنہیں بڑی ریاستوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامناہے ، وہ بھی کم جونگ آن کی راہ اپنانے کا سوچ سکتی ہیں، چاہے اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے، تاکہ مخاصمت آمیز ماحول کے دبائو کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ ’’خالی ہاتھ ‘‘ نہ ہوں۔

دنیا کے ہمارے حصے ، جنوبی ایشیا پر جزیرہ نما کوریا میں بڑھتا ہوا تنائو گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ پہلا یہ کہ اب واشنگٹن کی توجہ کا ارتکاز کم کے پیش کردہ خطرناک چیلنج سے نمٹنے پر ہے کیونکہ شمالی کوریا نے امریکہ کی اتھارٹی اور علاقائی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ چنانچہ افغانستان اور دیگر معاملات پر عارضی طور پر امریکی توجہ ہٹ جائے گی۔ اب اسلام آباد کو ملنے والی دھمکیاں اور دہلی اور کابل کوملنے والی خوشیوں کو قدرے انتظار کرنا پڑے گا۔ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اپنے بچائوکی کوششوں ( جو کہ قطعی طور پر ایک داخلی مسئلہ ہے ) سے لے کر ایٹمی تباہی کے منڈلاتے ہوئے خطرے تک ایسے بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے واشنگٹن دیگر ’’مصروفیات ‘‘ کو التوا میں ڈال سکتا ہے ۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو اضافی وقت مل جائے گا کہ وہ واشنگٹن کی نام نہاد جنوبی ایشیا کی پالیسی کا معقول جواب دے سکے ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ حلقے اس پر خوش ہوں کہ شمالی کوریا کے بحران پر پریشانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن کی بطور ایک سپرپاور سکت سمٹ رہی ہے اور وہ ایک چھوٹی سی، لیکن پرعزم ، ریاست کا رویہ بھی تبدیل کرنے کے قابل نہیں۔ اسی طرح یہ بھی سوچ راسخ ہوسکتی ہے کہ چونکہ شمالی کوریا کے بحران کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کی اسلام آبادکی طرف اٹھنے والی دھمکی آمیز انگلی اب بے جان ہوچکی ہے ، اس لئے ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ِثانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

لیکن طویل المدت مقاصد کے لئے یہ رویہ بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے ،ا ور وہ مواقع ضائع ہوسکتے ہیں جو اس بحران کی وجہ سے ہمیں مل گئے ہیں۔ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنا کیس مضبوط کرسکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کی دھمکیوں میں مبالغہ آرائی کی آمیزیش زیادہ ہوتی ہے لیکن اُنھوںنے اُسی تشویش کو دھماکہ خیز انداز میں بیان کیا ہے جن پر دیگر ممالک ذرا نرم اور سفارتی لہجے میں ہم سے بات کیا کرتے تھے ۔ ہم اس عالمی تشویش کو صرف اس لئے نظر انداز نہیں کرسکتے کہ ایک خبطی صدر نے اُنہیں بلند آہنگ لہجے میں بیان کردیا ہے ، اور یہ کہ اُن کے غیر سنجیدہ رویے کے پیش ِ نظر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے اور مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ شمالی کوریا کے بحران نے ہمیں ایک موقع فراہم کردیا ہے ، جسے ضائع نہیں جانا چاہئے ۔ اس حوالے سے سوموار کو ہونے والی BRICS کانفرنس کے بیان پر کان دھرنے کی ضرورت ہے ۔ اس نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی ہے ۔ اس کا پوائنٹ 48کہتا ہے ’’ہم طالبان، داعش، القاعدہ اور اس سے ملحق گروہوں، جیسا کہ حقانی نیٹ ورک، لشکر ِ طیبہ، جیش محمد، تحریک طالبان پاکستان اور حزب التحریر کی وجہ سے خطے کی سیکورٹی کو لاحق خطرے پر تشویش رکھتے ہیں۔‘‘

شمالی کوریا کے بحران کا جنوبی کوریا پر پڑنے والا دوسرا اثرسفارت کاری میں ایٹمی ہتھیاروں کا ’’استعمال ‘‘ ہوگا۔ کم اور ٹرمپ کی طرح انڈیا اور پاکستان کے بعض حلقے میز پر یہ ہتھیار رکھ کر بات کرنا چاہیں گے ۔ یقیناً سنجیدہ قیادت جوہری ہتھیاروں کو مذاکرات کی میز پر نہیں رکھتی ہے ، اور نہ ہی سفارتی اہداف کے لئے ان کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ ہم جنوبی ایشیا کے باسیوں کو اس سے سبق سیکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے ہاں نہ کوئی کم ہو اور نہ ہی ٹرمپ جو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو انگلیوں کے اشاروں میں بیان کرتے ہیں۔ پاگل پن امن کی راہ نہیں دیکھتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے