میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں؟

روہنگیا برما کے شہر اراکان میں آباد ایک مسلمان گروہ ہے۔۱۹۸۹ میں برما حکومت نے ملک کے نام سمیت بہت سے علاقوں کے نام تبدیل کیے جس کے بعد سے برما کو میانمار،اراکان کو رخائن اور وہاں کے سابق دارالحکومت رنگون کو ینگون کہا جاتا ہے۔ سابق اراکان اور موجودہ رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد اندازاً 10 لاکھ سے زائد ہے۔ 1982 کے برمی شہریت کے قانون کے مطابق وہ لوگ جو 1823 کے بعد برٹش انڈیا کے کسی علاقے سے یہاں آئے برما (موجودہ میانمار) کے شہری نہیں ہیں۔ان کو سرکاری تعلیم کی سہولت مل سکتی ہے نہ سرکاری نوکری اور نہ ہی یہ عام شہریوں کی طرح آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ ان کو بنگلہ دیشی مہاجر سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت امر یہ ہے کہ یہ سولہویں صدی سے یہاں آباد ہیں۔بدھ نیشنلسٹ ان کو غیر قانونی طور پہ بنگلہ دیش سے رخائن آکر اس علاقے پر قابض ہونے کی مبینہ سازش کا حصہ سمجھتے ہیں۔ 1982 کا شہریت کا قانون ایک فوجی جرنیل ہی کا بنایا ہوا ہے اور وہ روہنگیا کو میانمار کی باقی دس نسلوں میں شامل نہیں کرتے۔روہنگیا مسلمانوں کو شہریت کا حقدار نہ سمجھنے اور ان پر بد سے بدتر مظالم روا رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ غدر کے بعد جب پورے بر صغیر میں مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے اور مسلمان طبقات درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف زاویوں سے سوچ رہے تھے، جس کے نتیجہ میں دیوبند اور علی گڑھ کی علمی تحریکوں کے ساتھ ریشمی رومال جیسے محاذبھی سامنے آئے۔ایک رد عمل میانمار کے سابقہ دارالحکومت رنگون(نیا نام ینگون جہاں بہادر شاہ ظفر کا مدفن ہے) کے مولوی عبد الکریم نےبھی دیا۔انہوں اس وقت کی روایت کے مطابق ایک جنتری لکھی جس میں کیلنڈر کے علاوہ اور بھی معلومات درج ہوتی تھیں۔مولوی عبدالکریم نے اپنی ۷۸۶ کی جنتری میں مسلمانوں کو حوصلہ دیا کہ گھبرانے کی بات نہیں اور سو سال بعد رنگون مسلمانوں کا مرکز بن جائے گا۔اس واقعہ کے ۱۲۰ سال بعد جب وہ جنتری ایک قوم پرست بدھ رہنما مانک ویراتو کے ہاتھ لگ گئی تو اس نے اس سے یہ اخذ کیا کہ مسلمانوں کا برما پر قبضے کا منصوبہ ہے اور اسی وجہ سے یہ بچے بھی زیادہ پیدا کر رہے ہیں اور ہماری لڑکیوں کو بھی مسلمان کر کے ان سے شادی کرتے ہیں۔ ویراتو نے مسلمانوں کے خلاف پورا مقدمہ بنایا جس کے بعد کی یہ صورتحال ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ سترہ سال سے کس طرح بے دردی سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اب تک تیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جا چکا ہے جبکہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد نوے ہزار تک پہنچ گئی ہے۔گزشتہ دس دنوں سے قتل عام کے اس عمل میں تیزی آئی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق ایک ہفتہ میں تین ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو بے دردی سے تہ تیغ کیا گیا ۔میانمار میں ظلم و ستم کی یہ داستان امن کا نوبیل انعام پانے والی آنگ سانگ سوچی کی ناک کے عین نیچے رقم کی جارہی ہے اور پورا عالم اسلام اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں نہ اقوام متحدہ نے گرمجوشی دکھائی نہ ہی مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کوئی کردار ادا کر سکی۔

پاکستانی حکومت نے میانمار میں مسلمانوں پر چند دنوں سے شروع ہونے والے مظالم کے نئے سلسلہ پر اپنا سکوت توڑتے ہوئے اتوار کے روز دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور جبری نقل مکانی کی خبروں پر اظہار تشویش کیا ہے اور میانمار کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ رخائن کے علاقے میں ہونے والی قتل و غارت کی تفتیش کروائے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں مسلمان اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ بین الا اقوامی برادری اور بالخصوص اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے ساتھ مل کر روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کام کرتا رہے گا۔ادھر مغربی میانمار کے رخائن صوبے میں حکام نے روہنگیا مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ انتہا پسندوں اور دہشت گروں کو پکڑنے میں تعاون کریں۔حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز "آراکان روہنگیا سیلویشن آرمی” (اے آر ایس اے) جسے حکومت نے کالعدم تنطیم قرار دیا ہے،کے جنگجوؤں کی تلاش میں ہے۔ اسی تنظیم نے گذشتہ ہفتے میانمار کے سکیورٹی حکام پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب تک تقریباً 73 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا اور ان پر فائرنگ کی ہے جبکہ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال کا موضوع اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاسوں کے ایجنڈے میں سرفہرست رہا لیکن او آئی سی کا تنازعات کے حل سے متعلق ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ تنظیم تنازعات کے حل کے معاملے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے.

یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا ،ترکی اور ایران نے بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے اور میانمار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام بند کرے۔مذہبی جماعتوں نے ۸ ستمبر کو احتجاج کی کال بھی دی ہے لیکن معاملے کی حساسیت اس امر کی متقاضی ہے کہ عوامی احتجاج کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی موثر آواز اٹھائی جائے اور او آئی سی کے ساتھ مل کر جلد اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔اگرچہ اس عرصہ میں روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال کا موضوع اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاسوں کے ایجنڈے میں سرفہرست رہا لیکن او آئی سی کا تنازعات کے حل سے متعلق ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ تنظیم تنازعات کے حل کے معاملے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں جن کو وہ فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے بروئے کار لا سکے ۔او آئی سی کے اجلاسوں میں قرار دادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن مسلم دنیا سے باہر ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔عام طور پریہ قرار دادیں مقامی آبادی کی دل جوئی اور انھیں مطمئن کرنے کے لیے منظور کی جاتی ہیں۔

او آئی سی کم از کم میانمار کے ہمسایہ ممالک پر روہنگیا مسلمانوں کے بوجھ کو کم کرنے میں تو مدد دے سکتی ہے۔ بنگلہ دیش ، تھائی لینڈ اور ملائشیا نے اس وقت ہزاروں روہنگیا مہاجرین کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔بنگلہ دیش کی حکومت یہ بھی یقین دہانی کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ روہنگیا مستقل طور پر اس ملک میں نہ رہیں کیونکہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ جانیں بچا کر آنے والے ہزاروں روہنگیا کو اپنے ہاں مستقل طور پر پناہ دے سکے۔اسلامی تعاون تنظیم کے لیے موقع ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی امداد کے لیے ممکنہ اقدامات کر کے اپنی ساکھ کو بحال کرے۔

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے