بکروں پر ایک غیر سیاسی کالم

لیجئے صاحب، بقر عید تمام ہوئی جو سرفروش بکرے تھے وہ کوئے یار سے نکل کر سوئے دار چلے گئے اور جن کے نصیبوں میں عید قربان پر بھی قربان ہونا نہیں لکھا تھا وہ سر نیہواڑے دوبارہ ریوڑ کا حصہ بن گئے۔ بس آپ یوں سمجھیں کہ انہیں ایک سال کی ا یکسٹینشن مل گئی ہے۔ ان میں سے جو سہل کوش ہیں اور اپنی جان کو ہر چیز سے عزیز رکھتے ہیں، وہ اپنی جان اسی صورت میں بچا سکتے ہیں کہ اپنے جیسے بکروں کی یونین بنا لیں اور اس کا تاحیات صدربننے کی کوشش کریں۔ اس عید قربان پر ہمارے بھورے اور کالے بکرے میں سے بھورا بکرا متذکرہ یونین کا تاحیات صدر بننے کا پوری طرح اہل تھا۔ دیکھنے میں بے حد نفیس، خوش اخلاق اور ملنسار تھا، چنانچہ اپنے ساتھی کالے بکرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول رہتا۔ شام کو بچے انہیں سیر کرانے لے جاتے تو بھورا بکرا، کالے بکرے کو ایک لمحے کے لئے بھی خود سے جدا نہ ہونے دیتا، لیکن جب ان کے سامنے’’دستر خوان ‘‘ بچھایا جاتا تو بھورا بکرا، کالے بکرے کو’’ٹڈھ‘‘ مار مار کر پرے دھکیل دیتا اور اس کی پوری کوشش ہوتی کہ کالا بکرا پٹھوں یا دانے کے قریب نہ پھٹکنے پائے۔ یہ بے چارہ کالا بکرا بے حد شریف تھا، چنانچہ بےبسی کے عالم میں اس کی طرف دیکھتا کہ شاید اس کا دوست انصاف سے کام لے، مگر یہ دوست ایسا تھا کہ’ ’کھانے کی میز‘‘ پر آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا تھا، چنانچہ کالے بکرے کو اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے بادل نخواستہ بھورے بکرے کو آنکھیں دکھانا پڑتیں اور وہ’’ٹڈھ‘‘ کا جواب’’ٹڈھ‘‘ سے دینے پر مجبور ہوجاتا۔ اس صورت میں بھورا بکرا فوراً مصالحت پر اتر آتا اور اسے کھانے میں شریک کرلیتا، بکرا اور انسان شاید شرافت کا گاہک کوئی بھی نہیں ہوتا۔

عید کے پہلے روز بھورے بکرے کو قربان ہونا تھا، صبح جب پرات میں چنوں کی دال ڈالی گئی تو بھورے نے حسب معمول کالے کو قریب نہ پھٹکنے دیا ، کالا کچھ دیر تو اس کا منہ دیکھتا رہا، پھر اس نے معمول سے ہٹ کر ایک حرکت کی یعنی بجائے اس کے اس پر جوابی حملہ کرکے کھانے میں اپنا حصہ وصول کرتا، اس نے اپنا اگلا پائوں پرات پر مار کر ساری دال زمین پر الٹادی، بھورے نے غصے سے اس کی طرف دیکھا پیشتر اس کے کہ وہ آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے اوریوں’’خانہ جنگی‘‘ کی سی صورت پیدا ہوجاتی، اتنے میں قصائی کاندھے پر کلہاڑی رکھے اور ہاتھ میں چھری پکڑے اندر داخل ہوا، اس نے بھورے کی رسی کھولی اسے کھینچتا ہوا دیوار کی اوٹ میں لے گیا جس پر بھورے اور کالے دونوں کو خطرے کا احساس ہوا، چنانچہ بھورے نے کالے کو مدد کے لئے پکارنے کی خاطر انتہائی دردناک آواز نکالی۔ اس وقت اس کی آواز میں بہت سوز و گداز تھا۔ اس کے جواب میں کالے نے احتجاجی انداز میں پوری قوت سے چلانا شروع کردیا اور رسی تڑا کر اس کی طرف جانے کی کوشش کی مگر زیادہ زور لگانے سے اس کے گلے میں پڑی رسی تن گئی جس سے اس کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگی، اتنی دیر میں قصائی نے بھورے کو زمین پر لٹا کر اس کی گردن پر چھری چلادی۔ ایک نہتا بکرا ایک’’مسلح‘‘ قصائی کے سامنے کتنی دیر کھڑا رہ سکتا تھا، چنانچہ کچھ ہی دیر بعد اس کی آواز آنا بند ہوگئی۔ کالے بکرے نے بھی خاموشی اختیار کرلی شاید یہ سوچ کر چلو اس کی اپنی جان تو بچ گئی مگر اگلے روز صبح قصائی پھر کلہاڑی اور چھری لئے گھر میں داخل ہوا اور اس نے کالے کو بھی اپنی ٹانگوں میں دبا کر تیز چھری سے ذبح کردیا۔

افسوس کہ دنیا سے سفر کر گیا بکرا

یہ ساری داستان بلکہ داستان الم میں نے کوئی سیاسی کالم لکھنے کی غرض سے بیان نہیں کی بلکہ یہ سارا بیان حقیقت احوال کے لئے تھا اگر میں نے سیاسی کالم لکھنا ہوتا تو میں اس واقعہ کی تمام ضروری جزئیات بتاتا، مثلاً یہ کہ ایسے مواقع پر کیسے کیسے’’شرفا‘‘اپنے اصل روپ میں سامنے آجاتے ہیں، جس قصائی کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جب بے زبان بکروں کے خون سے لتھڑے ہوئے کپڑوں میں ملبوس کلہاڑی اور چھری سے مسلح حالت میں میرے سامنے آیا تو اسے دیکھ کر بکرے سے زیادہ میں پریشان ہوگیا کیونکہ یہ احمد علی تھا جو بڑا اچھا معمار ہے اور ہمارے سامنے والا گھر اس نے بنایا تھا مگر یہ عید کے روز بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے ہاتھ میں چھری پکڑے گلی گلی گھوم رہاتھا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی، اس کے ہاتھ ایک بکرے کو ذبح کرتے اور اس کی آنکھیں دوسرے بکرے کو تلاش کرتی تھیں، لیکن یہی احمد علی ایک بار پھر ایک معزز معمار کی صورت میں ہمارے سامنے ہوگا۔ وہ چھری پر پڑے دھبے صاف کردے گا، خون آلود قمیض کی جگہ اجلے کپڑے پہنے گا اور کسی مکان کی تعمیر میں مشغول نظر آئے گا۔

بہرحال اب تو صورتحال یہ ہے کہ بستی کے مکانوں سے نکل کر بہتا ہوا خون گٹروں میں بہہ چکا ہے۔ فرش دھو دئیے گئے ہیں، خون کے دھبے چھریوں اور کپڑوں پر سے صاف کردئیے گئے ہیں، اگرچہ ہم میں سے کچھ لوگ ہر دفعہ خود قصائی کو دعوت دے کر بلاتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمیں کالا اور بھورا بکرا دونوں یاد آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور تمام متعلقین جن میں قصائی، قصائی کو بلانے والے اور ان کے بکروں کا گوشت کھانے والے شامل ہیں سب کو صبر جمیل عطا کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے