یونیورسٹیاں انتہا پسندی کے نئے مراکز

چند سالوں سے پاکستان میں دھشتگردی کے رونما ہونے والے واقعات میں پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتذہ کے ملوث ہونے کے انکشافات نے قوم کو حیرانگی میں مبتلا کردیا وہ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن پر حملہ ہو یا صفورا گوٹھ میں ھونے والا دہشتگردی کا واقعہ ہو یا مردان یونیورسٹی کے طالبِ علم مشعال کا بہیمانہ قتل آخر ان واقعات میں یونیورسٹی طلبہ اور پروفیسرز کا ملوث ہونا ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے .

یونیورسٹی کسی بھی معاشرے میں ایک جزیرے کی مانند ہوتی ہے جہاں حصول علم کے لئے طلبہ اور استاتذہ لسانی فرقہ ورانہ اور مذھبی تعصبات سے بالاتر ہو کر منطق دلیل استدلال اور سائنسی نظریات کے ذریعے علم کی منازل طے کرتے ہیں ۔چونکہ میرا تعلق بھی شعبہ تعلیم سے ھے اور میں ایک سرکاری یونیورسٹی سے وابستہ ہوں لہذا میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ آج ہماری یونیورسٹیوں میں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے سوچ اور فکر پر پہرے ہیں تحقیق کا معیار گر رہا ہے یونیورسٹی استاتذہ اعلیٰ تعلیم ایک سے دوسرے گریڈ میں ترقی کے حصول کے لئے استعمال کررھے ھیں ہائر ایجوکیشن کمیشن پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد میں اضافے سے غرض رکھتا ہے ان کے معیار سے نہیں آج ھماری یونیورسٹیاں نوجوان نسل کی تربیت اور آبیاری کے بجائے پروڈکشن فیکٹریاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں ۔

اس صورتحال کے ہم سب ذمہ دار ہیں حکومتوں کے لئے تعلیم کبھی بھی ترجیح نہیں رہی گزشتہ چند دہائیوں سے ہماری اشرافیہ کے بچوں کی تعلیم کا ذریعہ سرکاری تعلیمی ادارے نہیں پاکستان میں انکی تعلیم نجی شعبے میں ہوتی ہے اور اسکے بعد وہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے تشریف لے جاتے ہیں لہذا پاکستان میں سرکاری شعبے کی زبوں حالی ان کا مسلئہ ہی نہیں ۔

نوجوان طلبہ میں غیر نصابی سرگرمیوں کا فقدان ان کے اندر تشدد اور عدم رواداری کو فروغ دے رہا ہے آج ہماری یونیورسٹیوں میں نہ تو ادبی سرگرمیاں ہیں نہ ہی ڈرامیٹک کلب نہ موسیقی اور فنون لطیفہ کو فروغ دیا جاتا ہے کھیلوں اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی طالب علموں کو صرف اے ٹی ایم مشینیں سمجھا جاتا ہے جن سے بھاری بھرکم فیس وصول کی جاسکتی ہے ۔

1980کی دہائی تک طلبہ سیاست نظریاتی بنیادوں پر استوار تھی طلبہ قوم ملک اور معاشرے کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں مذھبی اور لسانی بنیادوں پر مخصوص طلبہ تنظیموں کو حکومتی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا افغان جہاد کی ضروریات کے پیش نظر ان طلبہ تنظیموں کو جہادی مقاصد کے فروغ کے لئے استعمال بھی کیا گیا یونی ورسٹی استاتذہ میں بھی رجعت پسندی اور انتہا پسندی کے فروغ کے لئے مذھبی جماعتوں سے وابستہ افراد کو فیکلٹی میں شامل کیا گیا اسامہ بن لادن کے مذھبی پیشوا عبداللہ عزام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیتے تھے جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر آج تک اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ میں ایک مذھبی جماعت کے سیاسی راھنماوں کی نمائندگی آج تک چلی آرہی ھے حال ھی میں یونی ورسٹی انتظامیہ نے یونی ورسٹیوں میں انتہا پسندی اور تشدد کے واقعات پر ہونے والے سیمنار کا انعقاد روک دیا ۔

اگر یونی ورسٹیوں سے منسک کچھ اساتذہ ہی دائش جیسی دھشتگرد تنظیموں کے بارے میں نرم گوشہ رکھیں گے دائش کے نظریات کا پرچار کریں گے ریاست ملک اور قوم کے میں منفی خیالات کا اظہار کریں گے تو اس ریاست کی سلامتی کو زیادہ خطرات بیرونی سے زیادہ اندرونی ذرائع سے ہوں گے ۔

اس خطرناک روش کا اظہار کسی ڈھکے چھپے انداز سے نہیں بلکہ سرعام ہو رہا ہے نمونہ کے طور پر نمل یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ کے علمی اور تحقیقی مجلہ البصیرہ کے جون 2015 کے شمارے میں شائع ہونے والے مقالے بعنوان خلافت اور جمہوریت عصر حاضر کے تناظر میں کے مطالعہ سے کیا جا سکتا ہے مقالہ نگار ڈاکٹر حافظ محمد خالد شفیع آئی بی اے سے وابستہ ہیں فرماتے ہیں کہ ‘ خلافت کو قائم کرنا پوری دنیا کے مسلمانوں پر فرض ہے یہ ایک لازمی فریضہ ہے جس میں کوئی اختیار اور کسی قسم کی سستی کی کوئی گنجائش نہیں لہذا اس کی اقامت میں کوتاہی کرنا ان بڑے عظیم گناہوں میں سے ایک ہے جن پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے اپنے استدلال کی حمایت میں وہ علامہ اقبال کی تشریح بھی کرتے ہیں ۔

جمہوریت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مغرب میں جمہوریت اور جمہوری حق سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی شہری آزادی کے ساتھ شعائر دین کا مذاق اڑا سکتا ہے ماں بہن اور بیٹی کے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھ سکتا ہے اگر ایک پی ایچ ڈی پروفیسر مغرب اور جمہوریت کے بارے میں ماورائے عقل اور نفرت انگیز خیالات رکھتے ہیں تو پھر ان کے طالبِ علموں کا کیا حال ہو گا حیرت کی بات تو یہ ھے کہ اس طرح کے مقالہ جات کو ہونی ورسٹیوں کا ادارتی بورڈ شائع ہونے کے قابل سمجھتا ہے وقت آگیا ہے کہ ھم یونیورسٹیوں میں کتاب اور نصاب کا جائزہ لیں ہمارا نصاب قوم سازی اچھی شہریت رواداری برداشت جمہوریت آئین اور قانون کی حکمرانی کو فروغ نہیں دے رہا پاکستان کے قیام کی اینٹ علی گڑھ یونیورسٹی میں رکھی گئی آج اسکی اندرانی سلامتی کو درپیش خطرات بھی یونیورسٹیوں میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کو فروغ دے کر ہی دور کئے جا سکتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے