اکیسویں صدی کے بھارتی توہم پرست سیاستدان

بھارت میں روحانی گوروں، نجومیوں اور مستقبل پر نظر رکھنے والے پنڈتوں کا صدیوں سے سیاست میں عمل دخل رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی راجہ مہاراجوں نے فوجی ماہرین کے بجائے نجومیوں کے کہنے پر جنگوں کے نقشے طے کئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر و بیشتر وہ جنگیں ہار گئے ہیں۔ 21ویں صدی میں بھی چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاستدان الیکشن مہم شروع کرنے سے لیکر دفتر کی بناوٹ، اسٹاف کی سلیکشن وغیرہ پنڈتوں سے صلاح و مشورہ کے بعد ہی کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں ردو بدل کیلئے پنڈتوں نے بتایا کہ یہ ایکسرسائز3ستمبر کی دوپہر سے پہلے ہونی چاہئے کیونکہ اس کے بعد 18دن بدشگونی کے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ 1977ء کے انتخابات میں کراری شکست کے بعد آنجہانی اندرا گاندھی خاصی سیاسی بے یقینی کا شکار تھیں ، کیونکہ جنتا پارٹی حکومت نے اسکے خلاف کئی کیسز دائر کر رکھے تھے جنوبی بھارت سے ضمنی انتخابات جیتنے کے بعد لوک سبھا کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دے کر اسکی رکنیت ہی خارج کردی تھی۔لگتا تھا کہ اندرا گاندھی کی سیاست اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اسی دوران ایک جدت پسند مولوی صاحب نے ان کے دروازے پر دستک دی اور بشارت دی کہ ان کو خواب میں الہام ہوا ہے کہ اگر وہ بغداد میں حضرت شیخ سید عبدالقاد ر جیلانی کی درگاہ پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ 40دن کا چلہ کاٹتے ہیں تو اندرا گاندھی کی قسمت دوبارہ چمکے گی۔

سابق وزیر اعظم کے ایک قریبی معتمد جو ابھی حیات ہیں، نے راقم کو بتایا کہ پژمردہ اندراگاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ایک رکن کو ہدایت دی کہ مولوی صاحب اور انکے ساتھیوں کے بغداد جانے اور وہاں قیام و طعام کیلئے رقم مہیا کروائیں۔رقم لیکر مولوی صاحب بغداد جانے کے بجائے اتر پردیش اپنے گاؤں چلے گئے اور مکان تعمیر کروایا۔ انکی خوش بختی کہ سال بھر کے اند ر ہی جنتا پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور وسط مدتی انتخابات میں مسز گاندھی فتح کے جھنڈے گاڑتی ہوئے دوبارہ برسر اقتدار آگئی ۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی مولوی صاحب پہلی ٹرین سے دوبارہ وارد دہلی ہوگئے اور سیدھے مسز گاندھی کی رہائش گاہ پہنچے، جہاں انکو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔’’ بغداد شریف کے اس چلے‘‘ کے عوض دارلحکومت دہلی کے قلب میں انہوں نے وقف کی ایک بیش قیمتی جائیداد اپنی تحویل میں لی۔ ایک چھوٹا سا حصہ مسجد کیلئے چھوڑ کر دیگر حصوں میں کاروبار جمایا۔ ان کے انتقال کے بعدا بھی بھی ان کے صاحبزادے مسجد سے متصل ایک ٹی وی اسٹوڈیو، میگزین اور کئی دفاتر چلا رہے ہیں۔مولوی صاحب جب تک حیات تھے، وزراء اعظم راجیو گاندھی ، نرسمہا راو اور اٹل بہاری واجپائی کی پارٹیوں میں موجود رہتے تھے۔ آخری برسوں میں اسرائیلی سفارت خانے کی نظر التفات بھی ان پر پڑی اور جبہ و عبا کے ساتھ ان کی پارٹیوں کی بھی زینت بنے ہوتے تھے۔

کانگریس کے ایک سینئر لیڈر ارجن سنگھ نہایت ہی لبرل، روشن خیال اور سیکولر سیاستدان تصور کئے جاتے تھے۔ مگر اپنے روحانی گورو کی صلح کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں چلتے تھے۔1985ء میں وسطی صوبہ مدھیہ پردیش میں انکی قیادت میں کانگریس نے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ مگر حکومت سنبھالنے سے قبل نجومی نے انہیں بتایا کہ ان کی حلف برداری کی تقریب کیلئے سعد وقت10بجکر دو منٹ ہے۔تب ہی وہ پانچ سال تک بلا روک و ٹوک آرام سے حکومت کر پائیں گے۔ انہوں نے سیکرٹری کی ڈیوٹی لگائی، کہ حلف برداری ٹھیک نجومی کے بتائے وقت پر ہونی چائیے۔ مصیبت تھی، گورنر پروفیسر کے ایم چاندی کیرالا کے ایک عیسائی تھے، جو عقلیت پسند بھی تھے۔ اس کا حل سیکرٹری صاحب نے کچھ یوں نکالا ، کہ گورنر کا دھیان بٹانے کیلئے بھوپال شہر کے معمر معززین کو جمع کرکے گورنر ہاؤس لے جایا گیا۔ حلف برداری کی تقریب کیلئے گورنر 9بجکر 57منٹ پر جب گورنر ہاؤس کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے، تو ان کو دیکھ کر معمر معززین زور زور سے ہاتھ ہلانے اور آوازیں بلند کرنے لگے۔ گورنر کو خلاف معمول ان کے پاس آکر چند منٹ گزارنے پڑے۔ جب انہوں نے اسٹیج پر آکر حلف برداری کی تقریب کا آغاز کیا، تو گھڑی 10بجکر دومنٹ بجا رہی تھی۔ارجن سنگھ نے سیکرٹری کے انتظام کی ستائش کرتے ہوئے سیکرٹریٹ میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا، کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ادھر دہلی میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کو شورش زدہ پنجاب کیلئے گورنر کی تلاش تھی۔

صرف ایک سال قبل یہاں بھارتی فوج نے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی تھی۔ اس کے چند ماہ بعد ہی اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا تھا۔ پنجاب میں فوج ابھی بھی بیرکوں میں لوٹی نہیں تھی۔ وزیر اعظم نے صدر ذیل سنگھ کو پیغام بھیجا کہ ایک سکھ ائیر مارشل ارجن سنگھ کے نام پنجاب کی گورنری کی تقرری کا پروانہ جاری کرایا جائے۔ مگر عمداً یا غلطی سے راشٹرپتی بھون سے تقرری کا پروانہ وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ کے نام نکلا۔ حلف برداری کے محض 24گھنٹوں کے اندر ہی ارجن سنگھ کو وزار ت اعلیٰ کی کرسی سے استعفیٰ دیکر چندی گڈھ جانا پڑا۔ ایک تو شورش زدہ ریاست، دوسرا ایک فعال سیاستدان کی گورنر کی تقرری کا مطلب اسکی ریٹائرمنٹ کا پیغام بھی ہوتا ہے۔ ارجن سنگھ نجومی سے خاصے خفا تھے۔ جب اسکی طلبی ہوئی تو پنڈت جی نے سارا قصور سیکرٹری کے اوپر ڈالا، جس نے گورنر ہاؤس کی گھڑی کے بجائے اپنی گھڑی کے مطابق حلف برداری کی تقریب شروع کروائی تھی۔کئی دنوں تک افسردہ رہنے کے بعد ارجن سنگھ نے پنجاب کے چیلنج کو موقع میں تبدیل کرکے ثابت کردیا کہ کہ شورش سے نپٹنے میں ایک زیرک سیاستدان فوجی جنرلوں ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراھوں اور بیوروکریٹوں سے بدرجہا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ارجن سنگھ نے اکالی دل کے سربراہ ہر چرن سنگھ لانگوال کو شیشے میں اتار کر راجیو۔لانگوال ایکاڑد کروایا۔ اکالیوں کو واپس مین اسٹریم میں لاکر حالات بہتر کروانے میں کلیدی کردار ادا کردیا۔

دہلی کے شرم شکتی بھون کی دوسری منز ل پر واقع پاور منسٹر کا کمرہ پچھلے دس سالوں سے اپنے مکین کا انتظار کررہا ہے۔ چونکہ دو پاور منسٹرز کمار منگلم اور پی ایم سعید کی موت دوران وزارت ہی ہوئی، اسلئے اس کمرہ کو نحس مانا جاتا ہے، اور کوئی بھی پاور منسٹر اس کمرہ میں قد م رکھنا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح دہلی کے سنہری باغ لین میں وزیر وں کیلئے مخصوص ایک وسیع و عریض کوٹھی کو کوئی وزیر لینے کیلئے تیار نہیں ہے، کیونکہ بتایا جاتا ہے، کہ اسمیں جنوں اور بھوتوں نے ڈیرہ ڈال سرکھا ہے۔ یہی حال کچھ دہلی کے وزیر اعلیٰ کے آفیشل مکان 33شام ناتھ مارگ کا ہے۔ دہلی کے دو وزراء اعلیٰ چودھری برہم پرکاش اورمدن لال کھورانہ یہاں رہتے تھے۔ دونوں اپنی مدت کار مکمل نہیں کر پائے۔1996ء سے کوئی بھی اس کوٹھی میں رہنے کی ہمت نہیں کر پارہا ہے۔ حال ہی میں اروند کیجروال کی حکومت نے ایک کمیشن کو یہ بنگلہ دفتر کیلئے الاٹ کیا ہے۔ ایک سابق بیوروکریٹ آر کے کرشنن کے مطابق ایک وزیر اعظم نے آخری وقت کابینہ کی توسیع کو صرف اسی لئے ملتوی کیا، کہ نجومیوں کے ایک دوسرے گروپ نے وقت کو منحوس قرار دیا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے اکثر مہمان راشٹرپتی بھون پہنچ چکے تھے۔

بھارت کے حال ہی میں سبکدوش ہوئے صدر پرناب مکھرجی کو پہلی بار وزارت میں شامل کرنے کی داستان بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ وہ 1969ء میں پہلی بار مغربی بنگال سے راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کیلئے منتخب ہوگئے۔ 1973ء میں اندرا گاندھی جب وزارت میں توسیع کر رہی تھی، راشٹرپتی بھون میں حلف برداری کی تقریب شروع ہونے میں کچھ منٹ ہی تھے۔ کسی نے وزیر اعظم کو بتایا کہ وزیروں کی تعداد علم نجوم کے حساب سے نحس ہے، اسلئے یا توایک امیدوار کو ڈراپ کیا جائے یا کسی ایک کا اضافہ کیا جائے۔ آخری وقت پر کسی کو ڈراپ کرنا اسکی عزت سے کھلواڑ کرنا کے مترادف تھا۔ مسز گاندھی نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ تقریب میں موجود کسی رکن پارلیمنٹ کو تلاش کرکے حلف دلوا دو۔ راشٹرپتی بھون کے اشوکا ہال میں پرناب مکھرجی بیٹھنے کیلئے سیٹ ڈھونڈ رہے تھے، کہ سیکرٹری انکو کھینچتے ہوئے وزیر اعظم کے پاس لے آیا، جس نے انہیں حلف برداری کا انتظار کرتے متوقع وزیروں کی قطار میں کھڑا کر دیا۔ان کو وزارت انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ میں ڈپٹی منسٹر کا قلمدان دیا گیا۔ ڈپٹی منسٹروں کی پوسٹ بعد میں راجیو گاندھی نے ختم کردی۔

ایک دہائی قبل تک اکبر روڑ پر واقع کانگریس پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کے اندر اور باہر سادھووں اور مجذوبوں کا ایک تانتا سا بندھا رہتا تھا یہ کہاں سے آتے تھے، کون ان کو یہاں کھینچ کر لاتا تھا کسی کو نہیں معلوم۔ ایک سادھولحن میں گاندھی خانوادے کے قصیدے گا کر پڑھتا رہتا تھا۔ ایک اور مجذوب نے پورے جسم پر نہرو سے راہول اور پرینکا گاندھی تک نہرو خاندان کی پوری نسل کی تصویریں چسپاں کر رکھی تھیں۔جوں جوں پاور کانگریس پارٹی سے دور ہوتا گیا، اور سونیا گاندھی کے زمام کار سنبھالنے کے بعد ان مجذوبوں نے کانگریس دفتر کا رخ کرنا بند کردیا۔

توہم پرستی اور ان مجذوبوں کی سرپرستی کرنے کے باوجود کانگریس پارٹی نے انکو اعلانیہ سیاسی مصروفیات اور حکومت میں عمل دخل سے کسی حد تک دور رکھا ہوا تھا۔ مگر وزیراعظم مودی اور انکی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے انکو وزارت کے منصب سے نوازا ہے۔حکومت میں ان کی براہ راست مداخلت سے یہ اب سائنس کو ہندو مذہب کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مختلف اداروں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ہندو دھرم اوراس کی دھارمک کتابوں کو ہوائی جہاز سے لے کر نیوکلیائی سائنس تک بیشتر ایجادات کا ماخذ قرار دیں۔

بھارت نے حال ہی میں خلائی سائنس میں جو پیش رفت کی ہے، یہ حضرات اس کا کریڈٹ سائنس دانوں کے بجائے مہارِشی بھردواج کو دینے کی ضد کر رہے ہیں۔ جو پندرہ سو سے پانچ سو برس قبل مسیح زمانے کے درمیان پیدا ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام انہوں نے پندرہویں صدی میں لیونارڈو دا وینچی اور 1903ء میں رائٹ برادرز سے کہیں پہلے کر دکھایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مہا رشی نے اڑنے والی ایسی چیزوں کا بھی ذکر کیا تھا جو ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ، وہ کہتے ہیں کہ قدیم ہندوستان میں ”جمبو‘‘ طیاروں میں چالیس چھوٹے انجن لگے ہوتے تھے اور وہ نہ صرف یہ کہ آگے کی جانب سفر کر سکتے تھے بلکہ پیچھے کی طرف بھی۔ اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر ان جہازوں میں کون سا ایندھن استعمال ہوتا تھا تو چار قدیم سنسکرت کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان جہازوں کے موٹر ایک سپیشل ایندھن سے چلتے تھے جس میں اور چیزوں کے علاوہ گدھے کا پیشاب بھی استعمال ہوتا تھا۔

ایک اور مضحکہ خیز دعویٰ یہ ہے کہ بھارت میں پلاسٹک سرجری کا استعمال بھگوان گنیش کے ہاتھی کا سر اس کے انسانی دھڑ میں جوڑنے کے لیے کیا گیا تھا۔ واضح ہو کہ بھگوان گنیش کے سر کی پلاسٹک سرجری کے معجزے کا انکشاف خود وزیر اعظم مودی نے بھی دو سال قبل ممبئی میں ایک ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے کیا تھا۔ یہ لوگ ہر چیز کو ہندو ویدک دور میں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ قرون وسطیٰ دورکی بات کبھی نہیں کریں گے کیونکہ وہاں ان کو مسلمانوں کی سائنسی خدمات کا ذکر کرنا پڑ جائے گا۔

بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے