بے عزتی کا نوبل انعام

سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔

سوچتا ہوں کس کی سلامتی۔ کون سی کونسل۔ اقوامِ متحدہ مل کر بیٹھی۔ یہ کون سی اقوام کا اتحاد ہے؟ مسلم اُمّہ کا نام آیا۔ پھر سوچتا ہوں‘ کون سی مسلم اُمّہ؟ جس کی رہبری کے دعوے داروں کے مشترکہ اجلاس کی صدارت حضرتِ ٹرمپ فرماتے ہیں۔ استعمار کے غلام اتنا بھی نہ کر سکے‘ جتنا برطانیہ کے سوشلسٹ اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن نے کر دکھایا۔ کوربن نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے نام ”پبلک پٹیشن‘‘ کی دستخطی مہم چلائی۔ مہم کا مطالبہ ٹھیک نشانے پر ہے۔ مغربی این جی اوز کی پروردہ آنگ سان سوچی۔ برما کی انسان دوست لیڈر۔ آج کل برمی حکومت کی نواز شریف جیسی رہبر۔ یہ آنگ سان سوچی وہی ہے جسے انسانی حقوق کی پاس داری پر سوات کی ملالہ صاحبہ کی طرح امن کا نوبل پرائز ملا تھا۔

امن کا نوبل پرائز دینے والے کِس قدر انصاف کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ لگانے کے لئے آنگ سان سوچی ”کیس سٹڈی‘‘ ہے‘ جس کی سیاسی نظر بندی پر دنیا بھر سے اُسے سپورٹ ملی۔ نظر بندی کے دوران آنگ سان سوچی کے خاوند اور بیٹے نے نوبل انعام مغرب جا کر وصول کیا۔ برما پر 5 عشروں سے قابض فوج کے اقتدار میں شراکت دار بن کر اس عورت کو بے عزتی کا نوبل انعام ملا۔ اس کے دورِ اقتدار میں مُسلم اقلیت پر مظالم کی ناقابلِ یقین داستانیں لکھی گئیں۔ ریاست راکھن کے روہنگیا مسلمان ہمیشہ بے موت مارے جاتے تھے۔ اب ساری دُنیا میں ان کی ویڈیوز پھیل چُکی ہیں۔ بھلا ہو سوشل میڈیا ایجاد کرنے والوںکا۔ ان میں سے کچھ تصویریں اس قدر ہولناک ہیں کہ ان کو دیکھنا ممکن نہیں۔ بُودھ بِھکشو بڑے بڑے بُردے، ٹوکے، چُھرے لے کر مقتول مسلمانوں کے سری پائے، پسلیاں کاٹ رہے ہیں۔ ساتھ ہی گدِھ مُسلم اقلیت کے کلیجے نوچنے کے لیے جھپٹتے دِکھائی دیتے ہیں۔ خونِ مُسلم کی ایسی ارزانی شام، یمن، لیبیا سمیت کئی ایفروعرب ممالک میں جاری ہے۔ اس خون آشام بازار میں کوئی بین الاقوامی یا بین الاسلامی ادارہ ایسا نہیں جو بے موت مرنے والوں کی اجتماعی لاشوں کا نوحہ کہہ سکے۔ اس سے بھی کرب انگیز بات یہ ہے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں مغرب کی سِول سوسائٹی متحرک ہے۔ ساتھ وہ لوگ بھی جو انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہیں‘ لیکن مسلم تنظیموں پر سکتہ طاری ہے۔ اپنے، اپنے سیاسی مفادات، معاشی زاویے اور شخصی پروموٹر کا موڈ دیکھ کر بولنے والے خاموش ہیں۔54 اسلامی ممالک مل کر کیا سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب نہیں کر سکتے‘ جیسا جاپان اور سائوتھ کوریا نے چند گھنٹوں میں کر دکھایا۔ وہ بھی کسی قتلِ عام پر نہیں پیانگ یانگ کی طرف سے زیرِ زمین نئے دھماکے پر۔

گزشتہ رات دوستوں نے لندن سے ایک فکر انگیز ویڈیو بھجوائی‘ جس میں 2 نوجوان لڑکیاں اور 8 لڑکے برما ایمبیسی کے باہر روہنگیا مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ پاکستانی نوجوان از خود وہاں جا پہنچے۔ انگریزی میں کتبے لکھے اور اپنے جذبات کا اظہار کر دیا۔ حالیہ چھٹیوں کے دوران یو کے میں ایک بڑی تنظیم کے بڑے ملنے آئے۔ فرمانے لگے: پچھلے رمضان میں ہم نے 35 ملین پائونڈ چندہ جمع کیا۔ ساتھ بولے: چیرٹی کے لیے جتنی رقم چندے میں ملتی ہے۔ اُتنی ہی رقم ) (matching grant کوئین آف انگلینڈ سے مِل جاتی ہے۔ برطانیہ کے ہر شہر میں مذہبی پیشوائوں کی گاڑیوں کو چومنے، ائیر پورٹ پر انھیں سجدہ کرنے‘ لاکھوں کروڑوں پائونڈز ان پر نثار کرنے کی ویڈیوز عام ہیں۔ میں برما کی ایمبیسی کے باہر اس قدر مختصر احتجاجی اجتماع دیکھ کر حیران نہیں پریشان ہوا۔ پریشانی کی وجہ وہ سینکڑوں سوشل میڈیا سائٹس ہیں‘ جن پر ایسے ویڈیو کلپس اَپ لوڈ ہوئے ہیں‘ جنہیں کوئی دل گُردے والا ہی دیکھ سکتا ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں‘ 21ویں صدی کے اس دور میں‘ کروڑوں آبادی کے کسی مُلک میں انسانی گوشت قصائی کی دکان پر لٹکا کر بیچا جا سکے۔ روہنگیا مسلمانوں کے سری پائے، پسلیاں، بازو، رانیں دکانوں پر کُنڈوں سے لٹکا کر بیچے جا رہے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کو‘ زیادہ تر خواتین‘ زندہ گرفتار کیا گیا۔ پھر آنگ سان سوچی کی جمہوریت کے پہرے دار پولیس، سکیورٹی فورسز نے انہیں بے لباس کیا اور ٹوکوں سے اُن کے اعضاء کاٹ لیے۔ یہ سب کچھ ویڈیو کیمرے چلا کر کیا گیا۔ ایسے میں امن کے لیے نوبل انعام لینے والے خاموش ہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ ہے۔ اس انعام کے بعد انعام خُوردہ شخصیت پر جس قدر انعامات کی بارش ہوتی ہے۔ اُن کے سامنے سونے اور چاندی کے ڈھیر بھی شرما جائیں۔

اگلے دن مجھے ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ نے پیغام بھیجا۔ لہو میں ڈوبے ہوئے آنسوئوں کا پیغام۔ روہنگیا کی ہزاروں مسلم خواتین کی بے گور و کفن لاشوں کا پیغام۔ اجتماعی طور پر جلائے گئے معصوم بچوں کی جبری ارتھیوں کا پیغام۔ روہنگیا مسلم اقلیت کے بے موت مرنے والے بے کس مسلمانوں کا ایس او ایس پیغام۔ آپ سوچ سکتے ہیں‘ اس تازہ کربلا پر حجاب اوڑھنے والی ایک ماں کیا پیغام بھیجے گی۔ کاش یہ پیغام زرق برق، چمکیلے، بھڑکیلے، کلف لگے لباس میں اونچے منچ پر بیٹھ کر اسلام کے تحفظ کا اعلان کرنے والوں تک پہنچ جائے۔ بے شک ان تک بھی پہنچے جو غیر ملکی حکمرانوں کی تابعداری کو عین عبادت سمجھتے ہیں‘ اور روہنگیا مسلمانوں کے لیے بولنا کارِ دگر۔

نجانے کیوں مجھے 2012ء یاد آ گیا۔ آل انڈیا بار کونسل کی دعوت پر پہلی اور آخری مرتبہ بھارت گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج رمضان چودھری کو ساتھ لیا۔ چندی گڑھ پہنچے۔ ایم پی ہاسٹل میں کمرے آفر کیے گئے۔ معذرت کر کے شہر کے وسط میں ہوٹل بُک کیا۔ اسی شام پانچ ستارہ ہوٹل کے بڑے سے لان میں بہت بڑے بڑے لائوڈ سپیکروں پر موسیقی کا شور سنائی دیا۔ میں اکیلا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے بیٹھا تھا‘ جو خوشحال ہندوستانیوں سے بھرا پڑا تھا۔ دو خواتین‘ ایک مرد اُٹھ کر میرے پاس آئے۔ بیٹھنے کی اجازت مانگی۔ جواباً میں اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ کہا: فرمایئے۔ خاتون نے وزٹنگ کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا۔ کہنے لگی: ہمارے گرو باباجی اسی ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ آپ سے مل کر انہیں بڑی خوشی ہو گی۔ اس نے میرا نام لیا‘ اور پُرخلوص دعوت دے کر ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئی۔ میں نے سلاد پلیٹ میں ڈالا اور ڈائننگ ٹیبل پر واپس آ بیٹھا۔ ساتھ ہی ایک سینڈو کے حلیے والا آدمی آیا۔ کہنے لگا: میڈم آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہاں کی۔ جو میڈم تشریف لائیں وہ ”مُنی بدنام ہوئی‘‘ والی فنکارہ تھی‘ جس کا میوزیکل شو تھا‘ اور ساتھ مغربی ریسلر بھی آئے ہوئے تھے۔ خاتون نے کھڑے کھڑے کہا: یہ بابے سب فراڈ ہیں دولت کے پجاری‘ بلکہ ماڈرن بھکاری۔ لوگوں کی جیبیں صاف کرنے کے علاوہ انہیں اور کوئی ہُنر نہیں آتا۔ آپ پاکستان کے منتری (Minister) ہیں۔ آپ مفت میں ہمارا شو دیکھ سکتے ہیں۔

شو اور شُعبدے دکھانا اور بات ہے۔ عالمی ضمیر کا سامنا کرنا جرات مانگتا ہے۔ بھکاری شاہی لباس میں بھی بِھک منگے ہوتے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ایسے ہی مسلمانوں کو دولت کے بھکاری اور طاقت کے پجاری کا عنوان دیا تھا۔

سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبرؐ کا تماشا دیکھا
بر سرِ عام سکینہ کی نقابیں اُلٹیں
لشکرِ حیدرِ کرار کو لُٹتا دیکھا
امِ کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے
شام میں زینب و صغریٰ کا تماشا دیکھا
پھاڑ کر گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم
عرش سے فرش تلک حشر کا نقشہ دیکھا
اے مری قوم! ترے حُسنِ کمالات کی خیر
تُو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے