صحافیوں کے دُکھ جن کا کہیں ذکر نہیں

جب کبھی دوستوں کی محفل میں بیٹھیں اور صحافت کا ذکر چھڑ جائے تو ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے اینکرز کا ذکر بڑی شدت سے کیا جاتا ہے، پیسے کی ریل پیل کی خوب باتیں ہوتی ہیں اور ان اینکرز کو بنیاد بنا کر اس شعبہ میں کام کرنے والوں کی آسائشوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے لیکن بہت ہی کم لوگ ہیں جو روشن سکرین کے پیچھے موجود تاریکی سے واقف ہیں ، ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اس شعبے میں کام کرتے ہیں یا پھر ان کے اہل و عیال اصل صورت حال سے واقف ہوتے ہیں۔باہر سے دیکھنے والوں کو اس شعبے کی چکاچوند سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مٹھی بھر’’ چھاتہ بردار اینکرزاور چند دیگر لوگ جو بڑی سیٹوں پر براجمان ہیں ‘‘کے علاوہ کارکن صحافیوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔

میڈیا کی اس چکاچوند کو دیکھنے والا نوجوان جب اس شعبہ میں ڈگری حاصل کرتا ہے توسوچتا ہے کہ یونیورسٹی سے فراغت کے فوراً بعد کسی ادارے میں بھاری تنخواہ کے ساتھ پرکشش جاب مل جائے گی۔ لیکن جب وہ عملا اس شعبے میں آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وہی کامیاب ہے جس کے پاس اچھی سفارش ہو ۔جس کے پاس سفارش نہیں،بہت کم چانس ہوتا ہے کہ وہ جلد کہیں اپنی جگہ بنا سکے۔ایک عام فریش گریجویٹ جس کی سی وی پر کسی بڑے نام کا ریفرنس نہیں ہوتا ، اول تو اسے کام نہیں ملتا ، اگر مل بھی جائے تو کئی کئی ماہ بغیر تنخواہ کے مشقت کرنا ہوتی ہیں۔ کہیں اگر تنخواہ مل بھی جائے تو وہ بس اتنی ہوتی ہے جس میں اپنا گزارہ مشکل ہوتا ہے۔کئی ادارے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کام شروع کرو اور ’’خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھلاؤ‘‘(یعنی صحافت کے ساتھ مارکیٹنگ بھی کرو یا پھر بلیک میلنگ)۔

اس شعبے میں نئے آنے والوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ان کی تربیت کا ہوتا ہے ۔ انہیں پروفیشنل انداز میں کام سکھانے والا کوئی نہیں ہوتاکیونکہ اکثر اداروں کی بڑی نشستوں پر نان پروفیشنل یا سفارشی لوگ براجمان ہوتے ہیں، جو خود اپنے کام تک سے آشنا نہیں ہوتے ۔ یہ کسی نئے آنے والے کی خوش قسمتی ہے کہ اسے کوئی ایسا سینئر مل جائے جو اسے اچھے انداز میں کام سکھائے۔صحافتی اداروں میں ایک رواج ٹانگیں کھینچنے کا بھی ہے ،اگر کسی ادارے میں ملازمین کو جبری فارغ کیا جائے تو پہلا شکار نئے یا ایسے لوگ ہوتے ہیں ، جن کے ساتھ کوئی سفارش نہیں ہوتی ، ایسے میں یہ بھی ہوتا ہے جن ملازمین کو فارغ کیا جاتا ہے اکثر ان کے بقایا جات ادارے کے ذمہ ہوتے ہیں ، جن کی ادائیگی کی یقین دہانی کروائی تو جاتی ہے لیکن ادارہ چھوڑ دینے کے بعد وہ بقایا جات خواب بن جاتے ہیں۔ اس پر دوہرا ظلم یہ کہ ایسے معاملات میں صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے موجود تنظیمیں اپنے مفاد کو اول ترجیح دیتی ہیں ، اگر ان کی کوئی مصلحت آڑے نہ آتی ہو تو وہ آواز اٹھائیں گی، وگرنہ معاملہ یونہی دب جاتا ہے۔ (اس کی کئی مثالیں میں اپنے چار سالہ کرئیر میں دیکھ چکا ہوں)

میرا تعلق شعبہ رپورٹنگ سے ہے۔ اس لیے رپورٹروں کے حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ جب ٹی وی چینلز پر بیٹھے چھاتہ بردار اینکرز کسی جماعت یا ادارے کے حوالے سے نفرت آمیز گفتگو کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ اکثر اوقات رپورٹر کو تشدد کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ پھر (الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں سے منسلک)رپورٹرز کو فیلڈ میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، جن میں زیادہ تر مختلف حلقوں، پریشت گروپس ، تنظیموں کی جانب سے دھمکی آمیز پیغامات کا ملنا ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ رپورٹرز کو ایک بڑا مسئلہ ان کی دلچسپی کے کام نہ ملنا بھی ہے۔ اگر کوئی تحقیقی کام کرنا چاہتا ہے تو (سوائے کچھ بڑے اداروں کے) ایسا ممکن نہیں کیونکہ رپورٹرز کو مالکان یا ادارے کی دلچسپی کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر ادارے کی اپنی ترجیحات ہیں ، اگر اس کے باوجود بھی کوئی تحقیقی کام کرتا ہے تو اسے شائع نہ کیا جائے یا آن سکرین نہ کیا جائے (یعنی اسٹوری روک دی جائے) تو اس سے بڑھ کرتکلیف دہ لمحہ کوئی نہیں ہوتا۔

ایسے میں صحافتی اداروں (پریس کلبز سمیت دیگر صحافتی تنظیموں)کو چاہئیے کہ وہ صحافیوں کی پیشہ وارانہ تربیت کیلئے مختلف ورکشاپس کا انعقاد کریں اور یونینز کو چاہئیے کہ وہ دھڑے بندی کے بجائے صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کریں اور سکرین کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں کو چاہئیے کہ وہ ورکرز کا خیال رکھتے ہوئے ذاتی دلچسپی کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دیں ، تب ہی یہ صحافت پھل پھول سکے گی وگرنہ عوام ان اداروں کے بجائے سوشل میڈیا کو زیادہ مستند سمجھنا شروع ہو جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے