پَیروں اور ذہنوں کی دوڑ

گزشتہ چند صدیوں سے مغرب میں علم و تحقیق کی طرف رجحان بڑھتا گیا اور چرچ کا ادارہ‘ دنیاوی امور سے کنارہ کشی کرتا کرتا‘ مذہبی تعلیمات میں سمٹ گیا۔ اب وہ شاید ہی کہیں دنیاوی امور میں مداخلت کرتا ہو۔ لیکن امور مملکت سے چرچ نے ایسی کنارہ کشی کی کہ وہ اب علم‘ تحقیقی سرگرمیوں اور تجربہ گاہوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جبکہ مشرق کے مذہبی پیروکار‘ اپنی دنیا کی طرف رجوع کر گئے۔ چین‘ جاپان اور شرقِ بعید‘ بدھ ازم کی تہذیبی اقدار کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مذہبی مفکروں کے افکار کی روشنی میں‘ دور جدید کی زندگی کو‘ اپنے اعتقادات کے مطابق نکھارنے میں مصروف رہے اور جدید علمی‘ سائنسی اور تحقیقی تجربات سے دور حاضر کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ مشرقی ممالک میں‘ بدھ ازم کے عقائد بیشتر معاشروں پر چھائے ہوئے ہیں‘ عقائد کا احترام‘ آج بھی معاشرتی زندگی پر غالب ہے۔ وہاں کے عوام‘ رسوم و رواج کے بندھنوں میں‘ سکون اور اطمینان کی زندگی گزارتے ہیں۔ مذہبی پیشوائوں کی تعلیمات کے زیر اثر‘ روزمرہ کی زندگی روایتی انداز میں گزرتی ہے‘ جس میں بہت سے تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن صنعت اور مارکیٹنگ میں جدید اثرات بڑھتے گئے۔ سائنسی علوم کو اہلِ علم کے سپرد کر دیا گیا۔

بدھ مت کے ماننے وا لے‘ سائنسی علوم کی طرف جاپانیوں کے بعد آئے۔ انہوں نے تحقیق اور ریسرچ میں‘ بعد ازاں مغربی کامیابیوں سے استفادہ کیا۔ مجھے بچپن کا زمانہ یاد ہے۔ جاپان ایٹمی تباہی کے بعد‘ تباہ شدہ ملک میں تعمیر نو کی طرف مصروف ہوا۔ اس نے تجارتی مال‘ بیرونی منڈیوں میں بیچ کر‘ اپنی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنا شروع کیا۔ جاپان کے صنعت کاروں نے اپنا تیار شدہ مال انتہائی سستے داموں فروخت کیا۔ اس وقت غیر میعاری مصنوعات کو ”جاپانی مال‘‘ کہا جاتا تھا۔ جو کوئی جاپانی مال خرید کر لاتا‘ اسے طعنہ دیا جاتا کہ ”وہ کیوں جاپانی مال اٹھا لایا ہے‘‘۔ عرصے تک جاپانی مصنوعات کو غیر معیاری سمجھا جاتا رہا۔ جاپانی دھن کے پکے تھے۔ انہوں نے اپنی تباہ شدہ صنعت و معیشت کو ترقی دینے کے لئے‘ اپنے محدود سائنسی علوم میں وسعتیں لانا شروع کیں۔ وہ‘ مغربی علوم کو اختیار کرتے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ‘ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا۔

جاپان کے بعد‘ چین نے بھی صنعت و تجارت کو عہد جدید سے ہم آہنگ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بھی مختلف انداز میں جاپان کا طریقہ کار اپنایا اور آج نصف صدی سے بھی کم عرصے میں‘ جاپانیوں کے طور طریقے اختیار کرتے ہوئے‘ جدید صنعتی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ چین نے صنعت و تجارت کے جو طور طریقے اختیار کئے‘ ان کا بنیادی نکتہ مارکیٹنگ تھا۔ جاپانی تباہی کے اثرات سے نکلنے کے لئے‘ ہمہ جہتی تجربات سے گزرتے گزرتے‘ ترقی کے دور میں داخل ہو گئے لیکن چینیوں نے اپنی جغرافیائی وسعتوں اور وسیع تر آبادی کی ضروریات پوری کرتے ہوئے‘ ترقی کا سفر شروع کیا۔ وہ روایتی سست رفتاری کے ساتھ‘ ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات سے استفاد ہ کرتے ہوئے‘ ہر شعبے میں آگے بڑھنے لگے۔ انقلاب چین کے بعد‘ ترقی کا جائزہ لیا جائے تو پہلے تیس برسوں میں‘ وہ اپنی تباہ شدہ معیشت کو بحال کرنے میں مصروف رہا۔ ہر ذریعہ اور راستہ اختیار کرکے‘ صدیوں پرانی بھوک‘ سستی اور پسماندگی کے اثرات سے نکلنا شروع کیا۔ اس عمل میں اس کی کمیونسٹ قیادت نے‘ طویل اور ہمہ گیر جنگ کے اثرات سے نکلنے کی خاطر‘ اجتماعی سوچ اور منصوبہ بندی کے ذریعے نئی نئی راہیں نکال کر‘ ترقی کا عمل تیز کیا۔ ابتدا میں ترقی کی رفتار سست اور غیر متوازن تھی لیکن بتدریج رفتار میں اضافہ ہوا تو پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے‘ جدید ٹیکنالوجی میں‘ اتنی تیزی سے آگے بڑھنے لگے کہ آج دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں‘ جہاں کسی نہ کسی سطح پر چینی مصنوعات کی مانگ نہ ہو۔

بھارت نے چین کے مقابلے میں‘ صرف ایک سال پہلے‘ بیرونی آقائوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی لیکن بیرونی آقائوں نے جو نظام مرتب کیا تھا‘ وہ آج بھی برطانوی اثرات سے آزاد نہیں ہو سکا۔ اس اعتبار سے بھارت کی سیاسی قیادت نے‘ بیرونی آقائوں کے طور طریقوں کو اندھا دھند اپنائے رکھا۔ بھارت کے پسماندہ معاشرے میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ درس گاہوں میں علوم و فنون کے لئے‘ انگریزی زبان کو جاری رکھا گیا۔

سرکاری دفاتر‘ کاروباری مراکز اور امور مملکت میں‘ بلا تعصب انگریزی زبان استعمال کی گئی۔ تہذیبی اور تجارتی تعلقات بھی ایسے ملکوں کے ساتھ بڑھائے گئے‘ جہاں انگریزی زبان غالب تھی۔ بھار ت کے ساتھ عجیب لطیفہ تھا کہ اس نے عام ضروریات کی مصنوعات‘ خصوصاً جنگی ساز و سامان‘ زیادہ تر سوویت یونین سے حاصل کیا‘ جو اسے عالمی منڈی کی نسبت سستا ملا۔ سوویت یونین نے عالمی امور میں بھی بھارت کو بے پناہ فوائد پہنچائے۔ جن میں سب سے اہم فائدہ یہ تھا کہ سوویت یونین نے کشمیر پر بھارتی قبضہ مضبوط کرنے میں‘ اس کی بے پناہ مدد کی۔ بھارت آج تک اس سے مستفید ہو رہا ہے۔ اسے نہ صرف پانی کی بہت بڑی مقدار مال غنیمت کے طور پر حاصل ہو گئی بلکہ وہ پاکستان کے حصے کے پانیوں پر بھی غاصبانہ قبضہ مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ میں نے ایک بہت بڑے موضوع کو چھوٹی سی تحریر میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اگلی قسط میں اس دائرے کو مزید تھوڑا سا پھیلانے کی کوشش کروں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے