مشکلیں امت مرحوم کی آساں کردے

ہندوستان میں مسلمانوں کے اتنے مسائل ہیں کہ نہ لکھنے والے ان کے دائرے سے باہر نکلتے ہیں اور نہ پڑھنے والے، راقم السطور بھی زیادہ تر ملی اور ملکی مسائل ومعاملات پر ہی خامہ فرسائی کرتا رہتاہے، ہم اپنی پریشانیوں میں اتنا اُلجھے ہوئے ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں پر کیا گزررہی ہے اور وہ کس قیامت سے گزررہے ہیں ہمیں اس کا احساس بہت کم ہوتاہے، میانمار کے مظلوم ومقہور روہنگیا مسلمان آج جس آزمائش میں مبتلا ہیں اس کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہوئیں تو دل بے چین ہو اُٹھا اور آنسو چھلک پڑے، ظلم وستم، درندگی اور سفاکی کے جو مناظر سامنے آرہے ہیں اُن کودیکھنے کی تاب بھی ہر کسی میں نہیں، لگتا ہی نہیں کہ انسان اتنا بے رحم اور سفاک بھی ہوسکتا ہے جتنے بے رحم اور سفاک میانمار کے یہ بدھسٹ ہیں، زندہ انسانوں کے اعضاء بدن کاٹ کر چیل کوّوں اور کتوں کو کھلادینا، ٹائروں میں رکھ کر جیتے جاگتے انسانوں کو آگ کے حوالے کردینا، ننھے منھے معصوم بچوں کو لوہے کی گرل میں پروکر آگ پر بھوننا، ان کی گردنوں اور پیٹ پر پیر رکھ کر کھڑے ہونا، ان کے زخموں میں مرچیں بھرکر ان کی چیخوں پر تالیاں پیٹنا اور رقص کرنا، ان کی بستیوں کو جلادینا، ان کے گھروں کو مسمار کردینا، کیا یہ سب انسانوں کے کام ہیں، اس طرح کی درندگی کی توقع تو درندوں سے بھی نہیں کی جاسکتی، بدھسٹوں کے بارے میں سنتے آئے ہیں کہ وہ بڑے امن پسند اور رحم دل ہوتے ہیں، میانمار کے واقعات پڑھ کر اور سن کر اور ان کے ظلم وستم کے لرزہ خیز مناظر کی ایک جھلک دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ امن ورحم تو بدھسٹوں کو چھوکر بھی نہیں گزرا، یہ لوگ تو ننگِ انسانیت ہیں، ظالم اور قاتل ہیں، امن وآشتی کے دشمن ہیں، ہٹلر اور مسولینی کے جانشین ہیں۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کو حال ہی میں جو مکتوب لکھا گیا ہے اس کے مطابق میانمار میں فوج اور حکومتی جتھوں کی جانب سے صرف پانچ دنوں کے اندر مسلمانوں کے اکیس سو گاؤں اُن کے باشندوں سمیت نذر آتش کردئے گئے، دس ہزار افراد بھاگتے ہوئے مارے گئے، پندرہ سو سے زائد خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں، زندہ انسانوں کے اعضاء کاٹ کر چیل کوّوں کو کھلایا گیا، ایک لاکھ تیس ہزار افراد شدید زخمی ہیں، ایک لاکھ مسلمان جنگلوں میں محصور ہیں، بنگلہ دیشی حکومت کی سنگ دلی اور بے حسی کی وجہ سے کشتیوں پر سوار بیس ہزار مرد وزن بوڑھے، بچے اور جوان سمندر میں بھٹکتے پھررہے ہیں، مکتوب میں یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر عالمی برادری کی طرف سے ان ظالمانہ کاروائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو آنے والے دنوں میں لاکھوں جانوں کے اتلاف کا المیہ رونما ہوسکتا ہے، جو لوگ زخمی ہیں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر لقمۂ اجل بن سکتے ہیں، جنگلات میں محصور ایک لاکھ افراد بھوک اور پیاس سے دم توڑ سکتے ہیں، کشتیوں پر سوار افراد بھی کب تک سمندر میں بھٹکتے رہیں گے اُن کی تقدیر بھی انھیں موت کے حوالے کرسکتی ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری پوری طرح خاموش ہے، اس میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں، ترکی کو چھوڑ کر کسی مسلم ملک کے کانوں پر جوں نہیں رینگی، کسی نے صدائے احتجاج بلند نہیں کی، اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے، حقوق انسانیت کی علمبردار تمام تنظیمیں مہر بہ لب ہیں، کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی خوں چکاں المیہ نہ ہو بلکہ ایک تفریحی کھیل ہو، میانمار کی پچ پر یہ کھیل مسلسل جاری ہے اور پوری دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔

دنیا کے نقشے پر میانمار جس کا پُرانا نام برما ہے ایک چھوٹا ساملک ہے، جس کی سرحدیں بنگلہ دیش ، ہندوستان، تھائی لینڈ، لاؤس، اور چین سے ملی ہوئی ہیں، میانمار کی پانچ کڑوڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں ۸۹فی صد بودھ ہیں، ۴ فی صد مسلمان ہیں یعنی تقریباً بائیس لاکھ پچاس ہزار، اتنے ہی عیسائی ہیں، ایک فی صد ہندو ہیں، اور دو فی صد دوسری مذہبی اقلیتیں ہیں، میانمار میں عیسائیوں اور ہندؤں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے، صرف مسلمانوں کے ساتھ مسئلہ ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ میں جانا ہوگا، میانمار کی سات ریاستوں میں سے ایک ریاست کا نام اراکان ہے، جسے اب راکھیں یا راخین کردیا گیا ہے، یہ ریاست صدیوں تک میانمار سے الگ رہی، کہتے ہیں کہ ۶۸۰ء میں عرب سے محمد بن الحنفیہ بغرض تبلیغ وتجارت یہاں آکر فروکش ہوئے جو حضرت علیؓ کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، آج بھی اُن کا مزار مونگنڈا کے پہاڑ کی چوٹی پر مرجع خلائق بنا ہوا ہے، محمد بن الحنفیہ کی آمد سے یہاں اسلام پھیلا، دوسرے علاقوں سے بھی مسلمانوں نے یہاں آکر بود وباش اختیار کی، اس طرح یہ علاقہ مسلمانوں سے آباد ہوا اور ایک مستقل ریاست وجود میں آگئی، ۱۷۸۴ء تک موجودہ صوبہ اراکان ایک مستقل آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود رہا، اس کے بعد برما کی نیت خراب ہوئی اور اس نے اراکان پر قبضہ کرلیا، جس کی مسلمان مزاحمت کرتے رہے، ۱۸۸۴ء میں برطانیہ نے برما کو اپنی نو آبادیات بنایا تو اراکان بھی برطانیہ کے تسلط میں آگیا، اس زمانے میں بہت سے مسلمان تلاشِ معاش میں یہاں آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے ان میں سے بڑی تعداد موجودہ بنگلہ دیش اور سابق مشرقی بنگال کے علاقے چاٹگام سے آکر یہاں آباد ہوئی ، یہ لوگ جو نقل مکانی کرکے اراکان میں آباد ہوئے اُن کو روہنگیا مسلمان کہا جاتاہے، میانمار کے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ برطانوی نو آبادیات کے دور میں یہاں آکر رہ گئے وہ ہمارے ملک کے باشندے نہیں ہیں، ۱۹۶۲ء میں میانمار میں فوجی حکومت بنی اس وقت سے غیر ملکی مسلمانوں کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی شدّت اختیار کرگیا، لاکھوں مسلمانوں کی شہریت راتوں رات منسوخ کردی گئی اور ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کردی گئیں، مثلاً یہ کہ وہ پختہ مکان نہیں بناسکتے، جانور ذبح نہیں کرسکتے، دوسے زیادہ بچّے پیدا نہیں کرسکتے، قرآن نہیں پڑھ سکتے، اپنے مذہبی فرائض ادا نہیں کرسکتے، امن کا نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کے قریبی برما کے صدر تھین سین پوری بے شرمی اور دھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ مسلمان ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں، وہ یہاں سے جائیں، اُن کا تحفظ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔

روہنگیا مسلمانوں پر برمی افواج کا یہ سلسلۂ ظلم وستم کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے، اس کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی تاریخ اراکان پر برما کے قبضے کی ہے، ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا اسی وقت برما نے بھی آزادی حاصل کی تھی، اراکان کے مسلمان چاہتے تھے کہ اُن کو حسب سابق خود مختاری ملے، اوروہ برما کے ناجائز تسلط سے آزاد ہوں، اراکان کے مسلمانوں نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح سے مل کر یہ درخواست بھی کی تھی کہ ان کو مشرقی پاکستان میں شامل کرلیا جائے، افسوس ان کی یہ درخواست قبول نہیں کی گئی ورنہ آج حالات دوسرے ہوتے، برما کی حکومت اراکان کے مسلمانوں کو اس بات کی سزا دے رہی ہے کہ وہ خود مختاری چاہتے ہیں، برما سے الگ ہونا چاہتے ہیں، برما کی حکومت کے ظلم وستم سے عاجز آکر لاکھوں روہنگیا مسلمان برسوں پہلے ترکِ وطن کرکے دوسرے ملکوں میں جابسے ہیں، اعداد وشمار کے مطابق سعودی عرب میں چار لاکھ، پاکستان میں دو لاکھ، ملیشیامیں ایک لاکھ، تھائی لینڈ میں ایک لاکھ، اور بنگلہ دیش میں تین لاکھ روہنگیائی مسلمان موجود ہیں، چند ہزار ہندوستان میں بھی پڑے ہوئے ہیں، صرف سعودی عرب نے ان مظلومین کے ساتھ عزت کا سلوک کیا ہے اور انھیں اپنے ملک کی شہریت دے کر باوقار زندگی گزارنے کا موقع دیا ہے، باقی ملکوں میں یہ لوگ اب بھی قابل رحم حالت میں ہیں، بنگلہ دیش میں ان کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے، ۱۹۴۲ء سے برمی افواج کے ظلم وستم کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ وقفے وقفے سے ابھی تک جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس مسئلے کا کوئی باوقار حل نہیں نکل آتا، در اصل میانمار کی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر مسلمانوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ کسی وقت بھی اراکان کی آزادی کی جنگ شروع کرسکتے ہیں جو ان کا قانونی حق ہے، اس لیے کہ اراکان کبھی بھی برما کا حصہ نہیں رہا، اس کو طاقت کے بل بوتے پر برما میں شامل کیا گیا تھا۔

مسئلے کا فوری حل تو وہی ہے جو ترکی کے صدر طیب اردگان نے پیش کیا ہے کہ بنگلہ دیش اپنا اسلامی اور انسانی فرض نبھاتے ہوئے اپنی سرحدیں روہنگیا مسلمانوں کے لیے کھول دے، اور انھیں اپنے ملک میں آنے دے، انھوں نے بنگلہ دیش کو اخراجات دینے کی پیش کش بھی کی ہے، اس سلسلے میں دوسرے مسلمان ملکوں کو بھی فراخ دلانہ پیش کش کرکے اپنے ستم رسیدہ بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے، اور ان کی جان بچانی چاہئے، مگر یہ مسئلے کا فوری حل ہے، کوئی پائدار اور مستقل حل نہیں ہے، اور نہ یہ کوئی منصفانہ حل ہے، صحیح بات تو یہ ہے کہ اراکان میں آزاد اور مستقل ریاست ۶۸۰ء سے ۱۷۸۴ء تک گیارہ سو سال تک قائم رہی، برما اس پر ناجائز طورپر قابض ہوا، اور اب تک قابض ہے، اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں منصفانہ کردار ادا کرناچاہئے، اس سلسلے میں مسلم ممالک کو بھی سامنے آنا چاہئے، اس طرح کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جب بڑی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر بعض مقبوضہ علاقوں کو خود مختار ریاستوں میں تبدیل کرایا، مشرقی تیمور انڈونیشیا کے ساتھ لگا ہوا ایک چھوٹا سا ملک ہے، ۱۹۷۵ء تک یہ پرتگال کی نو آبادیات رہا، آزادی ملی تو انڈونیشیا نے اس پر قبضہ کرلیا، تیموریوں نے تحریک آزادی چھیڑدی، ۲۰مئی ۲۰۰۲ء کو مشرقی تیمور انڈونیشیا کے قبضے سے نکل کر آزاد ملک بن گیا، یہ سب کچھ عالمی طاقتوں کے عمل ودخل سے ہوا، یہی معاملہ جنوبی سوڈان کے ساتھ بھی پیش آیا، سوڈان کی حکومت کو امریکی اور مغربی طاقتوں کے دباؤ اور دھونس کے باعث جنوبی سوڈان سے اپنا قبضہ ہٹانا پڑا، ۲۰۱۱ء میں جنوبی سوڈان دنیا کے نئے ملک کی حیثیت سے سامنے آیا، صرف اس لیے کہ وہاں کے عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے جنوبی سوڈان کو ایک آزاد ملک بنانے کے حق میں ووٹ دیا تھا، کیا بڑی طاقتیں یہ کہانی اراکان میں نہیں دہراسکتیں یا وہ ایسا اس لیے نہیں کریں گی کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی آباد تھے اور اراکان کی آزادی سے ایک نیا مسلم ملک وجود میں آئے گا۔
nadimulwajidi@gmail.com

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے