تبدیلی

کہا جاتا ہے کہ تبدیلی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے لیکن میں اس تبدیلی کی ہر گزبات نہیں کر رہا جو پاکستان تحریک انصاف کے ہمارے دوست گزشتہ عام انتخابات سے پہلےلانے کے دعوے کر رہے ہیں اور اب تقریبا سوا چار سال گزرجانے کے بعد اس تبدیلی کی جھلک سرکاری خزانے سے وزیراعلی ہاؤس میں سوئمنگ پول بنانے اور پیڈو کے برطرف چیف کی بحالی کے لئے لاءفرم کو فیس کی ادائیگی جیسے شاہکارنمونوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کے ساتھ پاکستانی قوم کو بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ پاکستان تحریک انصاف کو وفاق میں حکومت نہیں ملی تھی ورنہ اب تک ایسا ’نیا پاکستان‘تخلیق پاچکا ہوتا کہ لوگ پرانے پاکستان کا ہی مطالبہ کر رہے ہوتے۔ ویسے تو خان صاحب نے حسب روایت بولنے کے بعد سوچتے ہوئے سارا ملبہ جیو نیوز اوراس کی انتظامیہ پرڈالتے ہوئے فرما یا ہے کہ اس نے پروپیگنڈا کرتے ہوئے ان کے برطانوی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔

اس پر مجھے سوشل میڈیا پرکسی صاحب کا وہ ٹویٹ یاد آگیا جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ لگتا ہے نیازی صاحب کا منہ کسی نے ہیک کر لیا تھا۔ پہلی بار پاکستان تحریک انصاف نے ہوش سے کام لیتے ہوئے پیمرا سے رجوع کیا اوراپنے خلاف مذموم پروپیگنڈے کی شکایت درج کرائی ہے جس سے یقیناً حقائق سامنے آجائیں گے اور کسی فریق کو اعتراض بھی نہیں ہو گا۔ پیمرا سے رجوع کرنے سے پہلے اچھا ہوتا پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات یا کوئی بھی معاملہ فہم پارٹی رہنما اپنے چیئرمین کو مشورہ دیتا کہ میڈیا کے کسی دوسرے حصے کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے کم از کم اس ادارے کو تو وضاحت جاری کرنے کا کہا جاتا جس کی ویب سائٹ پر ان کا بیان آج بھی اسی طرح موجود ہے جس کی وہ نفی کر رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر جناب عمران خان کے انٹرویو کے الفاظ کچھ یوں درج ہیں ؛ اب میں خدا کا شکر ادا کرتاہوں کہ 2013کے الیکشن میں ہمیں مرکز میں حکومت نہیں ملی ورنہ یہاں بھی خیبر پختونخوا والا حال ہوتا،جہاں پرویز خٹک کے علاوہ سب نئے لوگ ہیں جنہیں ایک سال تک تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ہو کیا رہا ہے۔ بات تبدیلی سے شروع ہوئی تھی جو کہ پاکستان تحریک انصاف والی ہرگز نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان کی تبدیلی سے متعلق ہے۔ ویسے تو اس تبدیلی کا کریڈٹ بھی کپتان ہی لیتے ہیں لیکن بقول سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی یہ کہانی وقت ہی بیان کرے گا۔ بہرحال اس تبدیلی نے پاکستان میں جمہوریت کی بتدریج مضبوطی پرمہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ اب ملک میں منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے سے نظام کو لپیٹنے کا زمانہ لدچکا ہے۔ سراب کے پیچھے ہلکان ہونے والے اب بھی ٹیکنوکریٹ حکومت اور صدارتی نظام جیسی لاحاصل خواہشات کو خبریں بنا کر اپنی آمرانہ جبلت کو تسکین پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم کی تبدیلی اس لحاظ سے یقیناً خوش آئند ہے کہ نواز شریف کی جگہ لینے والے جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ اور چھ بار قومی اسمبلی کے رکن بننے والے ان کے انتہائی وفادار ساتھی شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ چالیس دنوں میں یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ وزیر اعظم واقعی عوام کا نمائندہ ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے جو عزم ظاہرکیا تھا کہ وہ پیتالیس دن میں پیتالیس ماہ کا کام کریں گے تو صبح سات بجے سے رات دس بجے تک امور مملکت سر انجام دے کر وہ اپنے کہے کی لاج رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ قدرت نے انہیں پیتالیس دن کی بجائے اب دس ماہ کا موقع فراہم کر دیا ہے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ بطور وفاقی وزیر سادہ طبیعت اور درویش صفت شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمی کے عہدے پرفائز ہو کر بھی باور کرا دیا ہے کہ وہ شان و شوکت کے اظہار کے لئےکسی سیکورٹی اور پروٹوکول پر یقین نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مارگلہ کے دامن میں وسیع و عریض وزیر اعظم ہاؤس کو اپنا مسکن بنانے کی بجائے اسلام آباد میں واقع اپنی رہائشگاہ میں ہی رہنے کو ترجیح دی ہے۔

بطور وفاقی وزیرخود اپنی گاڑی ڈرائیو کرکے پارلیمنٹ آتے تو صحافیوں نے انہیں متعدد بار دیکھا،اب وہ انہیں بطور وزیر اعظم بغیر پروٹوکول اور انتہائی ناگزیر سیکورٹی کے ساتھ اجلاس میں شرکت کرتے بھی دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم آفس کے ضروری امور نمٹانے کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرکے انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ عوامی نمائندوں کے لئے پارلیمان ہی سب سے مقدم اور مقدس ادارہ ہے۔ اسی پارلیمنٹ میں ان کے پیش رو وزیر اعظم جناب نوا زشریف کی شرکت اوسطاً آٹھ فیصد تھی جو صرف اس وقت عوام کے نمائندہ ادارے کا رخ کرتے جب کسی مشکل میں انہیں اس کی ڈھال کی ضرورت ہوتی تھی۔ ایوان بالا نے تو ان کی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانے کے لئے قواعد و ضوابط میں ترمیم کرتے ہوئے زیرو آور کو پرائم منسٹر آور میں بھی تبدیل کر ڈالا لیکن انہوں کو نہیں آنا ہوتا تھا سو نہیں آتے تھے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے زیادہ احتجاج پر وفاقی وزرا دلیل دیا کرتے تھے کہ وزیراعظم کے پاس قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس میں شرکت سے زیادہ اہم دیگر مصروفیات ہیں،اب موجودہ وزیر اعظم کو کبھی قومی اسمبلی اور کبھی سینیٹ کے اجلاس میں تشریف فرما دیکھ کر خیال آتا ہے کہ بات مصروفیات کی نہیں اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔

یہ تبدیلی اس حوالے سے بھی مثبت دکھائی دیتی ہے کہ جہاں وزیر اعظم کی شام پانچ بجے کے بعد شاذو نادر ہی کوئی سرکاری سرگرمی ہوتی تھی اب اسی وزیر اعظم کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے بیشتراجلاس منعقد ہی شام کو ہوتے ہیں۔ جن وفاقی وزراء کے لئے وزیر اعظم سے ملاقات کرنا ایک مشکل مرحلہ ہو تا تھا ان کے اب وزیر اعظم ایک فون کال اور چند قدم کی مسافت پر موجود ہیں۔ جو کسی سمری کی منظوری کے لئےمہینوں وفاقی کابینہ کے اجلاس کا انتظار کرتے یا منظور نظرسیکرٹری کی نظر کرم کے محتاج رہتے اب وہ ہفتہ وار وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کے لئے کوئی سمری،تجویز یا منصوبہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ جو مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ وزیر اعظم کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے سالہا سال پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہونے کا انتطار کرتے وہ اب آئے روز پارلیمنٹ میں وزیر اعظم سے گفتگو کرر ہے ہوتے ہیں۔ جس مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس برسوں منعقد نہ کئے جانے پر صوبے پوائنٹ اسکورنگ کیا کرتے تھے اب وہ ان ایشوز سے متعلق ڈرافٹ پیپرز تیار کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں جو سی سی آئی کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرانے ہوتے ہیں۔ جس قومی اقتصادی کونسل کا مہینوں اس لئے اجلاس منعقد نہ ہو پاتا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس فرصت نہیں ہے وہ کونسل اب ان منصوبوں کے ورکنگ پیپرز تیار کر رہی ہوتی ہے جن کی وزیر اعظم کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی،کابینہ کمیٹی برائے نجکاری اور ایکنک جیسے اجلاس جن میں وزیر اعظم کی آمد ایک انہونی ہوتی اب وزیر اعظم کی سربراہی میں منعقد ہونا معمول بن چکا ہے۔

بطور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی پارٹی قیادت بالخصوص نواز شریف سے وفاداری کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ہے اس لئے وہ آج بھی اپنا وزیر اعظم میاں صاحب کو ہی مانتے ہیں۔ پارٹی قیادت سے وفاداری اور نیازمندی اپنی جگہ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ مرضی اسی کی چلتی ہے جس کے پاس عہدہ ہوتاہے،کسی کو شک ہو تو کل تک ڈپٹی پرائم منسٹر سمجھے جانے والے وزیر خزانہ کے محدود ہوتے کردار پر ایک نظر ڈال لے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے