شدت پسندی اور دہشتگردی کو کیسے روکا جائے؟

کراچی میں پولیس، رینجرز اور حساس اداروں کی حالیہ کارر وائیوں کے نتیجے میں انصار الشریعہ نامی ایک دہشتگرد تنظیم کا سراغ لگایا جس میں شامل اکثر نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے مبینہ دہشتگردوں نے ایک سابق فوجی کرنل اور پولیس والوں کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس انکشاف پر کہ اس تنظیم سے جڑے شدت پسندوں کی اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک تو کراچی یونیورسٹی کا طالب علم بھی رہا، میڈیا میں بحث چھڑ گئی کہ اس کی وجہ کیا ہے اور کس طرح ممکن بنایا جائے کہ نوجوانوں میں شدت پسندی کے رجحانات پیدا نہ ہوں۔ اس بات پرسب فکر مند دکھائی دیے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کیسے شدت پسندی سے پاک کیا جائے۔ چند سال قبل صفورا کراچی کی ہولناک دہشتگردی کے واقعہ میں شامل کم از کم ایک ملزم بھی کراچی کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ سے منسلک رہا۔ اس معاملہ پر سینٹ چئیرمین جناب رضا ربانی نے بھی بات کی اور حل تجویز کیا کہ کالج و یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی ختم کر دی جائے۔

ایک ماہر تعلیم نے اس بیماری کا علاج یہ بتایا کہ اسکولوں کالجوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو تبدیل کیا جائے ۔ امریکہ و یورپ کی طرح اُن ماہر تعلیم کا شاید یہ خیال تھا کہ پاکستان کا نصاب تعلیم شدت پسندی کو تقویت دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ نصاب میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسی بات ہو لیکن اگر کوئی اس بہانہ اسلامی نصاب اور اسلامی نظریہ پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے جس کے لیے امریکا گزشتہ دس پندرہ سال سے کافی کوشش بھی کر رہا ہے تو ایسا کرنا مرض کا کوئی علاج نہیں بلکہ پاکستان کی اسلامی اساس کو نشانہ بنانا ہے۔ کچھ لوگ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک نیا بیانیہ دینے کی بات بھی کرتے ہیں ۔ اب وہ بیانیہ کیا ہو اس پر مختلف افراد کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔

اس بات سے قطہ نظر کہ کون کیا سازش کر رہا ہے یا دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے کس قسم کا ردعمل پیدا ہو رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے نام کو غلط استعمال کر کے نوجوانوں کو شدت پسندی اور دہشتگردی کی طرف دھکیلا گیا۔ چھوٹے بچوں کو جنت کی لالچ دے کر خودکش بمبار بنا کر مسلمانوں سمیت ہزاروں معصوموں کی جان لی گئی۔ کبھی کسی بازار میں دھماکہ کیا گیا تو کبھی ہسپتال، اسکول، ہوسٹل کو اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر ناحق خون بہایہ گیا۔ یہاں تک کہ مسجدوں، امام بارگاہوں، چرچ وغیرہ کو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ دہشتگردی کرنے والوں نے اپنی کارروائی کرتے کبھی یہ نہ سوچا کہ مرنے والے معصوم بچے ہیں، بے قصور مرد عورتیں، کوئی بوڑھا ہے یا جوان۔ پاکستان نے 9/11 کے بعد گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائیوں کے دوران جو خون و آگ کا کھیل دیکھا وہ کسی بھی سخت سے سخت انسان کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ایسا کیوں ہے کہ ہمارے کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے جوان اب بھی اسی شدت پسندی اور دہشتگردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

کیا اسٹوڈنٹ یونین اس کا علاج ہے؟ کیا کسی نئے بیانیہ کی ہمیں ضرورت ہے اور آیا کسی ایک بیانیہ پر ہم متفق بھی ہو سکتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب تو میرے پاس نہیں لیکن میری رائے میں جس اہم ترین نکتہ کی طرف ہماری ریاست، حکومت، میڈیا، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں کی کوئی توجہ نہیں وہ یہ ہے کہ بچوں، نوجوانوں، والدین، معاشرہ کو اصل اسلام (یعنی قرآن و سنت) سے روشناس کریں جو امن کی تعلیم دیتا ہے، جو کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانے والے نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا، جو فرقہ واریت سے منع کرتا ہے، جو اصل جہاد کی صورت میں بھی غیر مسلم عورت، بچوں، بوڑھوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ تعلیم دیتا ہے جو تم پر تلوار نہ اٹھائے اُس پر تم تلوار نہیں اٹھا سکتے۔ انسان کیا اسلام تو جانوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کو گناہ تصور کرتا ہے۔

ہمارا مذہب تو جنگ کے دوران درختوں اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچانے کے بھی خلاف ہے۔ ہم نے اپنے بچوں اور معاشرہ کو کب پڑھایا کہ ہمارا مذہب کسی ناحق کا خون تو کیا وضو کرتے وقت پانی کے ضیائع سے بھی روکتا ہے اور اسے گناہ سمجھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ والدین بچوں کو سمجھائیں۔ بھئی والدین جو کل طالب علم تھے اُنہیں ریاست اور حکومت نے اسلام کب پڑھایا کہ وہ آج اپنے بچوں کو بتائیں۔ پاکستان میں اصل خرابی یہ رہی کہ ریاست نے اسلامی آئین کے ہوتے ہوئے بھی مذہب کے معاملہ میں اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا اور یہ لوگوں پر چھوڑ دیا جو مرضی آئے کریں، کسی نے نیا فرقہ بنانا ہے تو بنا لے، مسجدوں کو مختلف فرقوں اور مسلکوں کے لیے مختص کرنا ہے تو وہ بھی کرلیں، جو کسی نے اسلام کے نام پر پڑھانا ہے وہ بھی پڑھا لے، کسی نے کسی دوسرے کو کافر قرار دینا ہے تو اُس کی بھی کھلی چھٹی۔

ریاست نے جب اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی تو یہاں فرقہ واریت اپنے عروج تک پہنچ گئی، ایک دوسرے کو اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوا، رنگ نسل اور نصب کی بنیاد پر نفرتوں کے بھیج بوئے گئے، جہاد جیسے اسلامی فریضہ کی غلط تشریحات کر کے شدت پسندی اور دہشتگردی کو بڑھایا گیا۔ میری حکومت، پارلیمنٹ، میڈیا اور سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ اگر دہشتگردی اور شدت پسندی کو روکنا ہے تو آئین پاکستان کی روح کے مطابق پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق اسلامی تعلیمات سے روشناس کریں اور اس کے لیے نہ صرف تعلیمی اداروں کو فوکس کریں بلکہ مساجد اورمیڈیا کو بھی استعمال کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے