مسئلہ روہنگیا مسلمز آخر ہے کیا؟؟؟

میانمار جسےپہلے برما کہا جاتاتھا7 صوبوں پر مشتمل ملک ہے جس میں سے رخائن میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے ۔ تقریباََ چھ لاکھ مسلمانوں کی آبادی جنہیں ” روہنگیا” کہا جاتا ہے۔

اکثر لوگوں کو کہتے سنا کہ روہنگیا کے مسلمان حالانکہ روہنگیا جگہ کا نام نہیں .

ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے ” روہنگیا مسلمز ” کو دنیا کی مظلوم ترین ” اقلیت ” قرار دیا گیا ہے جنہیں بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات اپنے ملک کا شہری کہلوانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے کیونکہ بودھ انہیں اپنے وطن کا نہیں گردانتے ہیں۔

سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے انہیں برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انہیں سفری سہولتیں فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں مخصوص علاقوں یا کیمپوں تک محدود و مسدود کردیا.

میانمار ایک چھوٹا اور وسائل سے عاری ملک ہے

بدھ مذہب کے بانی مہاتما بدھ کی تعلیمات کے برعکس اپنے ہی ملک کی ایک چھوٹی اقلیت کو ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اور حیرانی!!! اس بات پہ ہے کہ دنیا کا کوئی قانون ، پالیسی، ادارہ ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کی تنبیہ اسے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

جن کے پاس تن چھپانے کو ڈھنگ کے کپڑے نہیں گزشتہ ایک برس سے برما کی فوج ان علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے نام سے کاروائی کر رہی ہے۔

اس دوران روہنگیا مسلمز کو بے دریغ قتل کیا گیا۔

گاؤں کے گاؤں جلائے گئے،بچوں ، بوڑھوں، جوانوں کو قتل کیا گیا ، عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

عالمی اداروں کے دباؤ پر کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے میانمار کی فوج کو ان تمام واقعات سے بری الذمہ قرار دیا۔

لیکن غیر ملکی میڈیا، اقوام متحدہ کے نمائیندوں یا امدادی کارکنوں کو رخائن جانے کی اجازت نہیں دی۔

یہاں تک کہ امدادی رقوم میں بھی اوپر نیچے کر دی گئی.

بین القوامی شہرت کی حامل اور امن کی نوبل انعام یافتہ ” آنگ سان سوچی” نے بھی روہنگیا مسلمز کے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز بلند نہ کی ۔

مخص اس لیے کہ وہ بودھوں کی سیاسی حمایت سے محروم نہ ہوجائیں۔

2015ء کو اقتدار میں آنے کی باوجود وہ اس انسانی المیہ کو حل کرنے کے کسی قسم کے قدم اٹھانے کا حوصلہ نہ کر سکیں بلکہ اسے یک طرفہ پروپگینڈا قرار دے کر مسترد کرتی رہیں اور اسے نسلی و مذہبی تعصب کی بجائے ثقافتی تصادم کا نام دیا۔

[pullquote]کیا روہنگیاز مسلمز ایسے ہی تھے جیسا کہ بتلایا جارہا ہے ،کیا میانمار میں روہنگیا پہلے سے تھے یا نہیں حقائق کیا ہیں[/pullquote]

سات صوبوں کے ملک میانمار میں مسلمانوں کی اکثریت شمال مغربی صوبے اراکان جسے( اب رخائن کہا جاتا ہے) میں آباد ہے۔

ٹائمز اٹلس آف ورلڈ ہسٹری کے مطابق یہ ایک آزاد ملک تھا جس کا نام ارکان تھا۔

1784ء تک ایک مستقل آزاد ریاست کی حثیت سے دنیا کے نقشے میں موجود رہا۔

بعد میں برمی اس پر قابض ہوئے اور ایک صوبے کے طور پر اپنے ساتھ ضم کر لیا۔

حکومتِ میانمار کا دعوی ہے کہ لفظ روہنگیا کبھی میانمار میں کبھی تھا ہی نہیں۔

جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ 1799ء میں فرانسس ہملٹن نے اپنی کتاب ”ممڈن” میں ان مسلمانوں کے لیے روہنگیا مسلم کا استعمال کیا تھا جو کہ وہاں کے مسلم اپنے لیے استعمال کرتے تھے۔

میانمار میں مسلمانوں کی آمد کے آثار آٹھویں صدی عیسوی میں ملتے ہیں جب مسلمان تجارت کی غرض سے آئے اور یہی بس گئے۔

ان کے اخلاق ، کردار حسن سلوک سے اور رحمدلی کے جذبات کی وجہ سے انہیں مسلم کی بجائے رحم کرنے والے کے نام سے پکارا گیا جسے مقامی زبان میں ” روہنگ” کہتے ہیں۔ اصطلاحی معنی رحم یا ہمدردی کے ہیں۔

جن مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اور وہ بھی مسلم کی بجائے اپنے ہی دئیے گئے نام روہنگ کی نسبت سے ” روہنگیا” کہلائے۔

1430ء میں اسلامی حکومت قائم کی گئی۔

حکومت تقریباََ ساڑھے تین سو سال قائم رہی۔

روہنگیا لفظ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ارکان میں بسنے والوں کے لیے ”روہنگ” لفظ رائج تھا۔

روہنگیا کا مطلب ارکان میں بسنے والے۔

تھائی ایڈوکیسی گروپ کے ڈائرکٹر کرس لیوا کے مطابق ” روہنگیا ” کا لفظ مسلمان نسلی گروہ کی سابقہ ارکانی سلطنت کی سرزمین سے تعلق کا ثبوت ہے۔

تاریخ چیخ چیخ کر یہ بتلا رہی کہ اس دھرتی پر روہنگیا آباد تھے ، مگر میانمار کی موجودہ فوج اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی.

شاید میانمارکی فوج اور حکومت آنکھیں بند کرنے میں ہی فائدہ نظر آتا ہے ۔

تاریخی لقمے…

برطانوی انڈین وائسرائے کا دفتر ہی برما کے معاملات کو دیکھتا تھا۔

1859ء کی مردم شماری کے مطابق صوبہ اراکان کی پانچ فیصد آبادی مسلمان تھی۔

1948ء میں برما آزاد ہوا اور 1989ء میں اس کا نام میانمار رکھا گیا۔

حکومت نے روہنگیا کو ملک میں آباد 135 نسلی گروہوں میں سے ایک کے طور پر شناخت کرنے سے انکار کردیا اور انہیں بنگال سے آئے ہوئے تارکین وطن قرار دیا کیونکہ 1971ء میں مغربی سرحد پر واقع مشرقی پاکستان سے بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد نے سرحد پار کرکے ہندوستان میں پناہ لی تو چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں کے مسلمان بھی پناہ کی غرض سے برما پہنچے۔

مقامی بودھوں میں اس سے اضطراب پیدا ہوا۔ اس وقت کی حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیڑھ پونے دو سو برس سے آباد روہنگیوں کو بھی ان بنگالی پناہ گزینوں کے ساتھ نتھی کردیا۔

اس وقت کی حکومت نے بنگالی پناہ گزینوں کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔

بنگلہ دیش کا کہنا ہے 1971ء کے بعد جن بنگالیوں نے برما میں پناہ لی وہ انہیں واپس لینے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومتِ برما کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام بنگالیوں کو قبول کرے جو نسلاََ برمی نہیں ہیں۔

1978ء میں تقریباََ دو لاکھ افراد کو بنگلہ دیش کی سرحد پر دھکیل دیا گیا جس کے بارے میں بنگلہ دیشن حکام کا کہنا ہے کہ نوے فیصد برمی مسلمان تھے۔

1982ء میں میانمار نے یہ کہہ کر ان کی شہریت منسوخ کر دی کہ برما کی سرزمین سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

[pullquote] وہ پختہ مکان نہیں بنوا سکتے، دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے ، شادی کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔ [/pullquote]

حتی کہ ان پر ایک گاؤں سے دوسرے گاوں تک سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔

ان پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔

حتی کہ یہ پھل اور انڈے بھی نہیں کھا سکتے کہ صحت مند ہو کر حکومت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں ۔

مساجد و مدارس کی تعمیر پر قدغن لگائی گئی اور اذان ممنوع قرار دی گئی۔

نوے کی دہائی مسلمانوں جن میں روہنگیا اور غیر روہنگیا دونوں شامل ہے کے لیے وائٹ کارڈ کا اجراء کیا گیا ۔

جس کی بدولت انہیں کچھ حقوق تو ملے البتہ یہ ملک کے شہری ہونے کا ثبوت نہ تھے۔

میانمار حکومت نے انہیں شہریت دینے کے لیے شرط عائد کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو روہنگیا مسلم نہیں بلکہ بنگلہ دیشی تاریکین قرار دیں۔

لیکن روہنگیا مسلمز اپنی شناخت چھوڑنے کو تیار نہیں کہ اسطرح صدیوں سے آباد صوبے کے شہریوں کو مہاجر تارکین وطن قرار دے دیا جائےگا تاکہ وہ اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن جائے اور تیسرے درجہ کے شہری کہلوائیں۔

تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو روہنگیا مسلم کا وجود ماضی کی آزاد ریاست اور حال کے میانمار کی صوبے راکھین میں آٹھویں صدی سے ثابت ہوتاہے۔

برطانوی دور میں بھی آباد ہونے والے مسلمانوں کو آباد ہوئے صدیاں گزر چکیں ہیں۔جدید دنیا میں تو بعض جگہ پانچ سال کے بعد تارکین وطن کو ملک کی شہریت دے دی جاتی ہے جبکہ حکومتِ میانمار صدیوں سے آباد نسلی روہنگیائی مسلم اور برطانوی دور میں آباد ہونے والے مسلمز کو 1971ء میں آنے والے بنگلہ دیشی مسلمز کی آڑ میں شہریت دینے سے انکاری ہے اور حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ایک منظم اور مسلح تحریک چل رہی ہے اور اقوامِ عالم خاموش تماشائی ہے۔

نیزبودھوں کے تعصب اور نفرت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میانمار کی آزادی کے وقت روہنگیا مسلمز نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا ۔

1950ء کے وسط میں کچھ مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے۔

جب یہ تحریک زور پکڑنے لگی تو اس تحریک کو طاقت کے ذریعے کچل دیا گیا۔

مطالبہ آج تک باقی ہے۔

اسی کی پاداش وقتا فوقتا مسلمانوں کو اس قدر بے رحمی اور سفاکانہ طریقے سے تہ تیغ کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ خودمختاری کا مطالبہ نہ دہرانے کا سوچے تک نہیں ۔

امن کے ٹھیکداروں کی خاموشی کی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے نقشے پر ایک مذید مسلم ریاست گوارا نہیں۔

یوں روہنگیا مسلمز کے مسئلہ کومحض ثقافتی مسئلہ قرار دینا قطعی غلط ہوگا۔

یہ نسلی و مذہبی تعصب کا مسئلہ ہے، اور مسلم کشی کی وجہ بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے