نوازشریف قدم بڑھارہے ہیں مگر۔۔۔۔

میاں نوازشریف نے لڑنے کا فیصلہ کر لیاہے ۔ کشتیاں جلانے کے موڈ میں نظر آتے ہیں اور موت تک کا رسک لینے کو تیار ہیں۔ پاکستانی سیاسی قائدین کی صف میں وہ سب سے بڑھ کر دل میں رکھنے والے انسان ہیں۔ 1999 کا غصہ نہیں بھلاسکے تھے کہ اس میں 2017کا غصہ بھی شامل ہوگیا۔ ان کا جذبہ انتقام آخری حدوں کو چھورہا ہے۔ 1999میں ان کو صرف نکالا گیا تھا لیکن اب کی بارانہیں رسوا بھی کیا گیا ہے ۔ تب صرف وہ خود نشانہ بنے تھے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اب کی بار ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی ذلیل کیا گیا ۔ وہ اولاد کے ساتھ سلوک پر برہم ہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز صاحبہ اپنے والد کے ساتھ سلوک پر ۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ باپ زیادہ غصے میں ہیں یا بیٹی ۔ وہ مفاہمت اور مصالحت پر آمادہ نظر آتے ہیں اور نہ اس کا مشورہ دینے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔ایک تو وہ دونوں سمجھتے ہیں کہ ان کو ان کے گزشتہ چار سال کی مفاہمانہ پالیسیوں اور مقتدر اداروں کے سامنے جھک جانے کے رویے نے دیوار سے لگا دیا اور اگر وہ مزید لچک دکھاتے ہیں تو انہیں ہمیشہ کے لئے دیوار میں چن دیا جائے گا۔

یوں وہ سمجھتے ہیں کہ تصادم اور ٹکرائو ہی ان کی بقا کا واحد راستہ ہے ۔ دوسرا وہ دونوں سمجھتے ہیں کہ سیاسی میدان میں ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ۔ وہ مقبول ترین رہنما ہیں ۔ نااہلی کے فیصلے نے ان کے ساتھ ہمدردیاں بڑھا دی ہیں ۔ جی ٹی روڈ پر استقبال نے ان کی اس سوچ کو مزید پختہ کردیا ہے جبکہ مشیروں نے بھی ان کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا ہے کہ جارحانہ اور ٹکرائو کی سیاست کے نتیجے میں ان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ تیسرا یہ کہ انہیں عدالتوں سے کسی قسم کے ریلیف کی توقع نہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دبائو کی وجہ سے عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلے دئیے اور یوں وہ سمجھتے ہیں کہ دبائو ڈال کر ہی وہ مقتدر اداروں اور عدلیہ سے کوئی ریلیف حاصل کرسکتے ہیں ۔ چوتھا یہ کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کا سیاسی ذہن حکومت میں مصروف ہے جبکہ میاں نوازشریف اور مریم نواز صاحبہ ان سیاسی بیروزگاروں کے نرغے میں ہیں جو خوشامد کے ماہر ہیں اور چونکہ ان کو علم ہے کہ اس وقت وہاں فوج اور عدلیہ کے خلاف گفتگو اور تجزیہ دلوں کو اچھا لگتا ہے اس لئے وہ ان کے جذبات کو اور بھی گرماتے ہیں ۔وہ غلط طور پر ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان ترکی ہے اور وہ اس کے طیب اردوان ہیں۔

آئین اور قانون پر یقین رکھنے والا کونسا پاکستانی ہوگا کہ جو سویلین بالادستی اور ووٹ کے تقدس کی بحالی نہیں چاہے گا لیکن المیہ یہ ہے کہ میاں صاحب جس طریقے سے یہ کام کرنا چاہتے ہیں ، اس طریقے سے کبھی نہیں ہوسکتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب ان مشقتوں کو برداشت ہی نہیں کرسکیں گے جو اس راستے میں درپیش ہوسکتی ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ میاں صاحب ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر بھی ہیں لیکن دوسری طرف وہ سہل پسند انسان بھی ہیں اور یہی حالت محترمہ مریم نواز صاحبہ کی بھی ہے ۔ میاں صاحب اکتوبر 1999میں بھی موت سے نہیں ڈرے تھے ۔اقتدار سنبھالنے کے بعد جب تین جرنیل میاں صاحب کے پاس آئے اور استعفیٰ کا مطالبہ کیا تو انکار کا مطلب یہ تھا کہ میاں صاحب موت کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھے جو بظاہر ایک بہادر انسان کا رویہ تھا تاہم بعد میں ان کی سہل پسندی نے کام خراب کیا اور جیل سے تنگ آکر انہوں نے ڈیل کرلی ۔اب تو ان کی سہل پسندی کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ بطور وزیراعظم وہ کابینہ کا اجلاس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے انہوں نے شیڈول میں اس لئے تبدیلی کی کہ وہ رات اپنے پسند کے ہوٹل میں گزار سکیں ۔ اسی طرح وہ مالی اور کاروباری نقصانات سے بھی ہل جاتے ہیں اور ٹکرائو کی صورت میں جب خاندان کو معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا تو پھر ارادے مضمحل ہوسکتے ہیں ۔

اسی طرح انسان خود تو سہہ لیتا ہے لیکن اولاد کا دکھ برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ یوں اب کی بار اگر میاں صاحب خود جیل وغیرہ کی صعوبت برداشت کر بھی لیں تاہم جب آزمائشوں کا سلسلہ اولاد تک دراز ہوگا تو وہ پگھل سکتے ہیں ۔ اس تناظر میں مجھے یقین ہے کہ اب اگرچہ میاں صاحب کا ارادہ مصمم ہے لیکن جلد یا بدیر انہیں مفاہمت اور ڈیل کے راستے پر آنا ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے ایشو کو ام المسائل سمجھنے اور جمہور کی بالادستی کو ایمانیات کا حصہ سمجھنے والے بھی ان لوگوں کی صف میں شامل ہیں کہ جو میاں صاحب سےلڑنے کی بجائے جھکنے کی درخواست کررہے ہیں ۔

یقیناً عدالت سے نااہلی کے بعد بھی ووٹ کے لحاظ سے مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اگر انتخابات تک موجودہ سیاسی فضا برقرار رہتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کا ایک بار پھر سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرنا یقینی ہے لیکن نہ تو مسلم لیگ(ن) مزاحمت والی جماعت ہے اور نہ اس کا ووٹر اور سپورٹر لڑنے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والا ہے ۔ چوہدری نثار علی تو کھل کر بولنے کی ہمت کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر میاں شہباز شریف صاحب ، اپنے بڑے بھائی کی موجودہ پالیسی کے شدید ترین مخالف ہیں ۔ صرف وہ نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے نوے فیصد رہنما اور وزیر مشیر بھی تصادم نہیں چاہتے ۔ یوں اگر میاں صاحب موجودہ پالیسی پر عمل پیر ارہتے ہیں تو ان کی پارٹی کا غالب حصہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہے گا۔ سردست اگر پارٹی ان کی قیادت میں یکجاہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی اکتوبر سنہ 2000 والی کیفیت نہیں آئی بلکہ ابھی بھی مرکز اور پنجاب میں میاں صاحب کی حکومت ہے اور وزیراعظم سے لے کر وزیر مشیر تک تمام عہدوں کی الاٹمنٹ کا اختیار آج بھی میاں صاحب یا مریم بی بی کے ہاتھ میں ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ابھی تک مقتدر حلقوں نے مسلم لیگ(ن) کو تقسیم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ سردست ان کی بھی یہ خواہش ہے کہ مسلم لیگ (ن) بطور جماعت برقرار رہے ۔ اس تناظر میں تو شریف خاندان، مسلم لیگ(ن) اور سسٹم کی بقا کا یہی راستہ نظر آتا ہے کہ سردست زہر کا یہ گھونٹ پی لیا جائے کہ پارٹی اور اداروں کے ساتھ ڈیلنگ کے معاملات میاں شہباز شریف کے سپرد کئےجائیں ۔ مسلم لیگ(ن) بچ گئی اور بغیر کسی رکاوٹ کے انتخابات منعقد ہوئے تو میاں نوازشریف کی واپسی کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی لیکن ایسا نہ ہوا تو نہ صرف مسلم لیگ (ن) بلکہ خود شریف خاندان بھی تقسیم ہوجائے گا۔ جو لوگ یہ خوف دلا رہے ہیں کہ شہباز شریف کے ہاتھ میں چلے جانے سے مریم نواز صاحبہ کا سیاسی مستقبل دائو پر لگ جائے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔کیونکہ نہ شہباز شریف نواز شریف کی جگہ لے سکتے ہیں اور نہ چوہدری نثار علی خان یا کوئی اور۔ ووٹ اور پسندیدگی آج بھی نوازشریف کے ہیںاور کل بھی رہیں گے ۔ مریم نواز ہو یا کوئی اور ، مناسب موقع پر میاں نوازشریف جس کے سر پر ہاتھ رکھیں گے، پارٹی انہی کی ہوگی۔

میاں صاحب اور مریم بی بی کی سنجیدگی اپنی جگہ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماضی کے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے کوئی میاں صاحب کے دعوئوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ جس نعرے کی بنیاد پر اداروں سے ٹکرانا چاہتے ہیں ، اس نعرے کا سب سے زیادہ مذاق خود انہوں نے اڑایا ہے ۔ ووٹ کا تقدس انہوں نے گزشتہ چار سال میں جس بری طرح پامال کیا ہے ، اس کے بعد کوئی دوسرا سیاسی لیڈر یا سیاسی کارکن کیوں کر ان کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے ۔ جو لیڈر ہر روز اپنی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے ارکان کے ووٹ کا تقدس بھی پامال کررہا ہو، وہ عوام کے ووٹ کا تقدس کیسے بحال کرسکتا ہے ۔ ووٹ کے تقدس کی بحالی کے نعرے کے بعد بھی پارٹی کے اندر جمہوریت کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت عظمیٰ کے حوالے سے فیصلہ کچھ اور ہوا لیکن پھر انہوں نے گھر میں بیٹھ کر فیصلہ بدل دیا۔ اسی طرح حلقہ 120 میں سینکڑوں اہل کارکنوں کی موجودگی کے باوجود ٹکٹ بیمار اور معصوم کلثوم نواز صاحبہ کو دے دیا گیا۔ اسی طرح قائمقام صدر کے تقرر کے معاملے میں کسی سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا تھا کہ 7ستمبر کو پارٹی کے نئے صدر کے تقرر کے لئے مجلس عاملہ کا اجلاس ہوگا لیکن پراسرار طور پر وہ اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ اب جب پارٹی کی قیادت پارٹی فورم کے اندر اپنی ورکنگ کمیٹی کے ارکان کے ووٹ کے تقدس کو اس بری طرح پامال کررہی ہو تو ان کے کہنے پر عام آدمی کو کس طرح ووٹ کے تقدس کے نام پر لاٹھی اور گولی کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری طرف نیب کیسز کی صورت میں میاں صاحب اور ان کے بچوں کے گلے اب بھی ان قوتوں کے پنجے میں ہیں جن کو وہ للکار رہے ہیں ۔

اگر وہ مفاہمت کا راستہ اپنا لیتے ہیںتو شاید مستقبل میں کوئی ریلیف مل جائے لیکن جس طرح وہ ان قوتوں کو للکار کر ان سے متعلق اپنے ارادوں کو ظاہر کررہے ہیں ، اس کی وجہ سے قبر ایک اور بندے دو والی فضا بنتی جارہی ہے ۔ خوشامدیوں کے نرغے میں آئے میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کو کون سمجھائے کہ باقی مسلم لیگی تو کیا جو شخص ان کو اداروں کے خلاف تقریریں لکھ کر دے رہے ہیں ، مشکل آنے کی صورت میں خود وہ بھی ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔ اکتوبر 1999میں جب میاں صاحب نے قدم بڑھایا تو خود یہی تقریر نویس میاں صاحب کو بھول کر کسی اور کے ماتحت لمبے عرصے تک کام کررہے تھے اور پھر جب انہیں جبراً ایوان صدر سے نکالا گیا تو اس کے بعد بھی دو تین سال تک ڈر کے مارے اپنے کالموں
میں میاں نوازشریف کا نام لکھنے سے گھبرا رہے تھے۔ اللہ نہ کرے 1999ء جیسی مشکل آئی تو قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ لگانے والوں میں سے پرویز رشید اور مشاہداللہ کے سوا کوئی کھڑا نظر نہیں آئے گا۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار آج پالیسی کے لاکھ مخالف سہی تاہم وہ ساتھ کھڑے نظرآسکتے ہیں لیکن لڑائی کا مشورہ دینے والے یہ خوشامدی غائب یا پھر مخالف صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے