اکاون فیصد اہمیت رکھتے ہیں، 49 فیصد نہیں؟

سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں سنائے جانے والے فیصلے کے خلاف نواز شریف ، ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کی جانب سے دائر کی جانے والی ریویو پٹیشن (جس کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے) کی سماعت کے دوران کچھ ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن کے بارے میں تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے ایک بار پھر سے نیب اور اس کے چیئرمین کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ جب ایک ادارے کا سربراہ سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہو کر یہ موقف اختیار کرے کہ کرپشن کے معاملات میں کارروائی اس کے اختیار سے باہر ہے تو پھر کسی نہ کسی کو تو کوئی کارروائی کرنا پڑے گی۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کے دوران بارہا پاکستان کے ریاستی اداروں کی ناکامی اور نااہلی کی نشاندہی کی ہے، چاہے وہ ایف آئی اے ہو یا پھر ایس ای سی پی، ایف بی آر ہو یا پھر نیب۔ معزز عدالت کی نظر میں کوئی بھی ادارہ اپنے اختیارات کو کرپشن کی روک تھام کے لئے استعمال کرتا نظر نہیں آتا۔ اگر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ریمارکس سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اب سپریم کورٹ معاملات کی بہتری کے لئے از خود ایک کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے۔ اس کردارکے تحت ہی سپریم کورٹ نے نہ صرف نیب کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے کے عمل کی نگرانی کے لئے ایک جج کو تعینات کیا بلکہ احتساب عدالت کی کارروائی کو مانیٹر کرنے کے لئے بھی ایک معزز جج کو ذمہ داری سونپی گئی ۔اس کے علاوہ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کے لئے چھ ہفتے اور احتساب عدالت کو اپنی کارروائی چھ ماہ میں مکمل کرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے۔ ان تمام اقدامات سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ سپریم کورٹ نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر انہیںمنطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ کے ان اقدامات پر مختلف رد عمل دیکھنے میں آئے۔ جہاں ایک طرف تو اسے اصل تبدیلی کی جانب پہلا قدم تصور کیا جا رہا ہے وہیں ان اقدامات کے مخالفین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ مخالفین کے مطابق یہ سب کوئی نئی بات نہیں ہے، ماضی میں بھی جمہوری حکومتوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر چلتا کیا گیا۔ نوے کی دہائی میں جب صدر پاکستان نے تین جمہوری حکومتوں کو برخاست کیا تو تب بھی ان حکومتوں کو ختم کئے جانے کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہی کو قرار دیا گیاتھا۔ اسی دورمیں صدر غلام اسحاق خان نے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو اور بعد ازاں مسلم لیگ ن کی حکومت کواٹھاون ٹو بی کے تحت دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فارغ کیا۔ جب انیس سو چھیانوے میں صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تب بھی ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کو اس انتہائی قدم کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مخالفین کے نزدیک یہ سب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اب جب صدر پاکستان کے پاس جمہوری حکومت کو فارغ کرنے کا اختیار نہیں رہاتو ایسے میں سیاستدانوں کو دیوار سے لگانے کے لئے عدلیہ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں الزام عائد کیا جاتا ہے کہ دو اداروں کا مبینہ گٹھ جوڑ ہو چکا ہے ، اب سیاستدانوں کا راستہ عدالتوں کے ذریعے روکنے کی کوشش جا ری ہے ۔

پانامہ کیس میں فیصلے کے حامیوں کے مطابق ملک کے معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاس کچھ زیادہ متبادل موجود نہیں تھے۔ جب ملک سے کرپشن ختم کرنے کا ذمہ دار ادارہ نیب کچھ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پایاہو،تو ایسے میں سپریم کورٹ کو ہی حالات کی درستی کے لئے اقدامات کرنے تھے۔ ان حامیوں کی نظر میں دراصل نیب کا ادارہ کبھی کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں سنجیدہ تھا ہی نہیںاور ویسے بھی ایک ایسا ادارہ جس کے سربراہ ، اپوزیشن لیڈر اور لیڈر آف دی ہائوس کی باہمی مشاورت سے مقرر کئے جاتے ہوں ،اس سے کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مقرر کرنے والے افراد کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائے گا۔ ان کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں باہمی رضامندی سے احتساب کے ادارے کو بے بس اور لاچار کرنے کی حکمت عملی بنائی۔ اسی حکمت عملی کے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نو نے اٹھارویں ترمیم میں نیب کے سربراہ کی تعیناتی کا اختیار آپس میں بانٹ لیا ۔ دونوں جماعتوں کو یہ پتہ تھا کہ دو جماعتی سیاسی نظام میںان دونوں کو ہی اقتدار اور اپوزیشن کی باریاں لگانی ہیں اسی لئے دونوں ہی کونیب کے چیئرمین کا اس طریقہ کارکے تحت انتخاب قابل قبول تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے جانے والے فیصلے سے اس مک مکا کے عمل کو اب مزید جاری نہیں رکھا جا سکتا۔

پانامہ کیس نے ملک میں جس نئی بحث کو جنم دیا ہے اس کے بعد بہتری آنے کی امید بہر حال موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت پسند قوتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں احتساب کے نظام میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔ نیب کا ادارہ گو خود مختار ہے لیکن اس کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات بہرحال موجود ہیں۔اس ادارے کی ماضی کی کارکردگی بھی کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں ہے۔ پلی بارگین سے لے کر والنٹری ریٹرن تک نیب نے بہت سے کرپٹ افراد کو بہت آسانی سے راہ فرار اختیار کرنے میں مدد دی۔ بہت سے افراد تو نیب کو پیسے واپس کرنے کے بعد اپنے پرانے عہدوں پر بحال بھی ہو گئے، یعنی نیب کو چھوٹی موٹی ادائیگی کرنے کے بعد انہیں پھر سے مال کمانے کا موقع دے دیا گیا۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

پارلیمنٹ میں موجود افراد نے بھی کبھی نیب کی اس بری کارکردگی کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ جب جمہوری ادارے خود ایک اہم موضوع پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیںکریں گے تو پھر ریاست کے دوسرے اداروں کو خود ہی مداخلت کا موقع مل جاتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ نیب کے بارے میں کوئی نیا لائحہ عمل تیار کرتی جس سے اس ادارے کی بری کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کم ہو جاتے لیکن چونکہ ہمارے جمہوری رہنمائوں کے نزدیک احتساب کسی خاطر خواہ اہمیت کا حامل نہیں ہے اس لئے شاید اس بارے میں کوئی نئی قانون سازی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔جب جمہوری ادارے خود اس خلا کو پر کرنے کو تیار نہیں تو کسی اور کے آگے آنے پر گلہ کرنا کیا جائز ہے؟

نہ صرف نیب بلکہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے تعین کا اختیار بھی لیڈر آف ہائوس اور اپوزیشن کے پاس ہے۔ الیکشن کمیشن ایک اور ادارہ ہے جس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہیں اور ملک کی ایک تیسری بڑی جماعت کئی سالوں سے اس پر آواز اٹھارہی اور احتجاج کرتی آ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ جمہوری نظام میں اکاون فیصد کو ہی فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے مگرکیا باقی49 فیصد کی رائے کو یکسر نظر انداز کر دینا درست ہے؟
جب ایک ایسے ادارے پر، جس نے انتخابات کے اس عمل کی نگرانی کرنی ہے جو جمہوریت کی بنیاد ہے، سوالیہ نشان ہوں تو کسی اور ادارے کی بہتری کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے