ناکام لوگوں کے لئے ایک کالم

کیا آپ نے ناکام لوگوں سے متعلق کبھی کوئی کتاب پڑھی ہے؟ ایسی کتاب جس میں اُن لوگوں کی کہانیاں ہوں جو محنت، ایمانداری، اخلاق اور وفاداری وغیرہ کے ذریں اصولوں کے تابع زندگی گزارتے ہیں مگر اس کے باوجود ناکام ٹھہرتے ہیں! کم ازکم میری نظر سے ایسی کوئی کتاب آج تک نہیں گزری۔ کبھی موقع ملے تو کتابوں کی دکان میں گھومتے ہوئے سیلف ہیلپ کے باب میں رکھی کتابیں سونگھ کر دیکھیں، اُن میں سے ہر کتاب یہی بتائے گی کہ زندگی میں دولت مند اور کامیاب ہونے کے کیا گُر ہیں اور کیسے آپ محنت، قابلیت اور اصول پسندی کے بل پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ اِن کتابوں میں ہنری فورڈ سے لے کر اسٹیو جابز تک اور ٹاٹا برلا سے لے کر کے ایف سی کے بابے تک ہر قسم کی مثال آپ کو مل جائے گی جس میں بتایا گیا ہوگا کہ کیسے ایک میٹرک فیل شخص نے چار آنے سے کاروبار شروع کیا جو آج چار سو ارب کی کمپنی میں تبدیل ہو چکا ہے، کیسے ایک بابے نے قبر میں ٹانگیں لٹکا کر ایک ایسی فوڈ چین بنا لی جو آج دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہے اور کیسے ایک نوجوان نے کالج کے زمانے میں ہنستے کھیلتے ایک ایسی ایپ بنا لی جس کی مالیت آج اربوں ڈالر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان کتابوں کے مصنفین بے حد کائیاں لوگ ہیں، انہیں اچھی طرح علم ہے کہ لوگ اب روایتی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے سو انہوں نے سیلف ہیلپ کی کتابوں کا انداز قدرے تبدیل کر دیا ہے، اب یہ اپنی کتابوں میں اسکولوں کالجوں میں گریڈ حاصل کرنے والوں کے اعداد و شمار بھی دیتے ہیں، ایک آدھ سادھو بھی کتاب میں ڈال دیتے ہیں تاکہ کتاب سے مادیت پسندی کی بُو نہ آئے اور لوگوں کو لگے کہ یہ کتاب محض دولت مند ہونے کا نسخہ نہیں بلکہ حقیقتاً ایک کامیاب آدمی بننے کا گُر سکھاتی ہے اور مصنف اگر ضرورت سے زیادہ کائیاں ہے تو وہ اِن باتوں کو الف لیلوی رنگ دے کر ایک تکنیک کا نام بھی دے ڈالے گا، بس پھرا ُس کے بعد کتاب کو ایمزون کی فہرست میں بیسٹ سیلر ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ لیکن نئی بوتل میں شراب پرانی ہی ہوگی۔

آج کل چونکہ لوگو ں کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا اس لئے ہم اب سوشل میڈیا پر کامیاب لوگوں کی تقاریر ایک دوسرے کو بھیج کر خواہ مخواہ خوش ہوتے رہتے ہیں، یہ تقاریر عموماً کسی کالج کے کانوکیشن کے موقع پر کی جاتی ہیں ۔ اِن میں کوئی بزنس ٹائیکون اپنے تجربات کی روشنی میں مزے لے لے کر بتاتا ہے کہ وہ ایک نالائق طالب علم تھا، اس کے گریڈ بہت کم آتے تھے، اسے کالج سے نکال دیا گیا تھا، آپ لوگ تو بہت قابل ہیں جو اس اعلی ادارے سے آج تعلیمی سند لے کر گھر جائیں گے (حقیقت میں وہ طنز کر رہا ہوتا ہے کہ تم اتنے پڑھ لکھ کر بھی مجھ ایسے نہیں بن سکتے) پھر وہ بتاتا ہے کہ زندگی میں کامیابی کے اصول کچھ اور ہیں، وہ محنت اور لگن کا ذکر تو کرتا ہے مگر ساتھ ہی مسالے دار انداز میں رسک لینے کی خوبیاں گنواتا ہے اور روایتی انداز چھوڑ کر زندگی میں اچھوتا انداز اپنانے کی ترغیب دیتا ہے، وہ حاضرین کو اپنی مثال دے کر بتاتا ہے کہ کیسے اُس نے زندگی میں رسک لئے جنہوں نے اُس کی کایا کلپ کردی، سو وہ بھی اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو زندگی میں رسک لیں، کبھی ہمت نہ ہاریں، اپنے اندر کوئی ایسا ہنر پیدا کریں جو کسی دوسرے کے پاس نہ ہو، کامیابی قدم چومے گی، something like that۔

دلوں کو گرماتی یہ تقریریں اور الف لیلوی انداز میں لکھی سیلف ہیلپ کی کتابوں میں بظاہر کوئی خرابی نہیں، جس قسم کے طریقے اور اصول اِن میں بتائے جاتے ہیں انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں، لوگ اِن کی بدولت کامیاب ہوسکتے ہیں اور حقیقت میں کامیاب ہوتے بھی ہیں۔ کوئی بھی معقول شخص محنت کرنے کا ہی مشورہ دے گا۔ میں چونکہ کسی حد تک نامعقول ثابت ہوا ہوں اس لئے اِس قسم کے مشورے مجھے کبھی کبھار الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ کامیابی آخر ہے کیا؟ دولت مند ہونا تو کامیابی کی دلیل نہیں ہو سکتی، ہیروئن کے اسمگلروں سے زیادہ دولت مند بھلا کون ہو سکتا ہے! شہرت کو اگر کامیابی مان لیا جائے تو سنی لیونی ایک کامیاب خاتون ہوئیں۔ کیا طاقت ور ہونا کامیابی ہے، اگر ہاں، تو اپنے علاقے کا ہر جاگیردار جو مزارعوں کی عورتوں کو گھروں سے اٹھا کر لے جانے کی طاقت رکھتا ہے، کامیاب گردانا جائے گا۔ سو میری پہلی الجھن تو یہ ہے کہ کامیابی کی تعریف کئے بغیر ہم لوگ کامیابی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں گویا ایک ایسی دوڑ میں شامل ہیں جس میں کسی کو اختتامی نشان کا پتہ ہی نہیں۔ ایک لمحے کے لئے ہم فرض کرلیتے ہیں کہ جائز ذرائع سے دولت، شہرت اور طاقت حاصل کرنے والا شخص ہی کامیاب مانا جائے گا تو اُس صورت میں گوشہ نشین ہونے والے اولیا، وطن کی مٹی پر قربان ہونے والے شہدا، بھارتی فوج کی چھرے والی بندوقوں کے نتیجے میں نابینا ہونے والے گمنام حریت پسند اور بوڑھے ماں باپ کو سو میل تک کاندھے پر لاد کر سرحد پار کروانے والے روہنگیا کو نہایت آسانی کے ساتھ کامیابی کی اس فہرست سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ چلئے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے اور کامیابی کے روایتی تصور کو ہی سامنے رکھتے ہیں ۔

دوسری الجھن اِس میں یہ ہے کہ سیلف ہیلپ کی کتابوں اور تقاریر میں صرف کامیاب لوگوں کی مثالوں کا ذکر ملتا ہے ناکام لوگوں کا نہیں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو لاکھوں کروڑوں ایسے افراد مل جائیں گے جو زندگی میں اُس طرح سے کامیاب نہیں جیسے اِن کتابوں میں لکھا ہوتاہے، وجہ اِس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ کامیابی صرف محنت، ہنرمندی اور مستقل مزاجی سے ملتی ہے، اگر کوئی شخص انتھک محنت کرے، کوئی ہنر سیکھ لے، مستقل مزاجی سے کسی کام میں جُت جائے تو کامیابی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہ بات درست ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی درست ہے کہ یہ جوہر اپنے اندر پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لوگ تمام عمر محنت کرتے ہیں، صبح سے رات تک کوہلو کے بیل کی طرح جُت کر کام کرتے ہیں، زندگی اس قدر کٹھن ہوتی ہے کہ انہیں یہ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ کوئی اضافی ہنر کیسے سیکھا جائے، ناکامی کا barrierتوڑنے کے لئے ایک خاص رفتار (velocity) کی ضرورت ہوتی ہے، زیادہ ترلوگ تمام عمر وہ رفتار ہی حاصل نہیں کر پاتے۔ سو سیلف ہیلپ کی کتابوں میں جو ٹِپس دی جاتی ہیں اُن میں صرف کامیاب لوگوں کی مثال اِس لئے دی جاتی ہے کیونکہ خوش قسمتی سے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو وہ barrierتوڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، مغالطہ اس میں یہ ہے کہ ایک لاکھ میں سے ایک شخص جو یہ کام کر جاتاہے۔

اُس کا ذکر تو کتاب میں ملتا ہے باقی 99,999کا کیا بنتا ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا۔ یہ 99,999لوگو ں کو ہم اطمینان سے اُس کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جو محنت نہیں کرتے، ہنر نہیں کماتے اور مستقل مزاج نہیں رکھتے۔ اِس سارے کھیل میں بنیادی عنصر جو ہم بھول جاتے ہیں وہ ہے مقدر۔ محنت کی عادت، ہنرمندی اور مستقل مزاجی اگر کسی میں ہے تو یہ بذات خود خوش قسمتی ہے، کامیاب لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو انہیں یہ عیاشی ہوتی ہے کہ وہ اپنی محیر العقول کامیابی کو کوئی بھی رنگ دے ڈالیں، کوئی نہیں پوچھے گا،کامیاب شخص کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے اور ناکام شخص بیچارہ بس منہ جھکا کے سنتا ہے۔ جو طریقہ کار کامیاب لوگ زندگی میں اپناتے ہیں وہی طریقہ لاکھوں لوگ اور بھی اپناتے ہیں مگر اپنے مقدر کی وجہ سے ناکام رہتے ہیں۔ کیا اِس مقدر کا کوئی حل ہے؟ یہ بات پھر کبھی، مگر جلد!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے