سبق آموز حکایتیں

آج آپ کی خدمت میں دو سبق آموز حکایتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں واقعات حضرت عمر بن خطابؓ سے متعلق ہیں۔ ایک میں آپؓ کا حمص کے گورنر عمیرؓ سے ملاقات کا ذکر ہے،پڑھ کر آنکھوں میں اسی طرح آنسو بہنے لگتے ہیں جس طرح حضرت ؓ کی آنکھوں سے آنسوئوں کی بارش ہوگئی تھی۔ اور دوسرا واقعہ ایک غریب کی مدد کرنا جو آج کے حکمرانوں کے لئے سبق آموز ہے۔
(1) پہلا واقعہ یہ ہے۔ ’’سیدنا عمرؓ نے اپنے ’’امیر گورنر‘‘ کو دیکھا اور رو دیئے۔ آنکھیں تھیں کہ ساون بھادوں کی صورت برس رہی تھیں اور بہت برسیں،جب بادل برس لئے، دل کچھ ٹھہرا تو امیرالمومنین بولے ’’عمیر مجھے معاف کردینا، میں بے بس سا ہوگیا تھا‘‘۔ عمیر حمص کے گورنر تھے، حمص سوریہ کی سرسبز شاداب زمین کا جھومر، مال و دولت جہاں سیلاب کی مانند تھے کہ بہتے چلے آتے، گورنر کی شان کیسی ہو گی؟ کیسا ٹھاٹھ ہوگا؟ ایک روز گورنر عمیرؓ کو امیر المومنین کا خط ملا کہ مدینے پہنچو۔ عمر ؓ کہ جن کے رعب سے شیطان بھاگ اٹھے، انسان کی کیا مجال۔گورنر صاحب نے خط پڑھا تو لمحوں میں مدینے کو چل دیئے۔ بنا وقت ضائع کئےنہ کوئی تیاری نہ اہتمام۔ سیدنا عمر خلیفۃ المسلمین مسجد نبویﷺ میں بیٹھے ہیں، ایک تھکا ہارا، درماندہ شخص مسجد میں داخل ہوا، ننگے پائوں، جسم گرد و غبار سے اَٹا ہوا، ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا اور ہاں! ایک رسی بھی کندھے سے لٹک رہی تھی کہ جس کے ساتھ کچھ برتن بندھے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر ؓنے دیکھا تو خوش ہو کے آگے بڑھے، ’’عمیر آگئے ہو! آئو آئو۔تم پر سلامتی ہو، آئو آئو‘‘۔ حال پوچھا، اور حیرت سے پوچھا کہ خط ملا یا خود سے چلے آئے۔ ’’امیر آپ کا خط ملا، تبھی تو آیا ہوں، اسباب اٹھایا اور چل دیا‘‘: اسباب ؟ حیرت کچھ سیدنا عمر ؓ کے چہرے پر در آئی۔ ’’کون سا سامان، دکھائی تو یوں دیتا ہے سیدھے آرہے ہو سامان کہاں ہے؟‘‘ سامان؟ ’’یہ رہا میرا سامان، یہ میرا ڈنڈا ہے اس سے اپنا دفاع کرلیتا ہوں اور تھک جائوں تو ٹیک لگا لیتا ہوں، یہ میرا توشہ دان ہے، یہ پانی کا کٹورا ہے، ان میں سے کوئی شے بھی فالتو تو نہیں، ضروری ہی تو ہیں‘‘۔ آنسو تھے کہ سیدنا عمرؓ کے چہرے پر یوں برسے کہ جیسے آسمان سے ساون، آنکھیں بہتے بہتے مسجد کے پہلو میں واقع دو قبروں کی طرف ہوگئیں، ادھر چہرہ پھیر کے رونے لگے اور کہنے لگے ’’اے اللہ اس سے پہلے کہ میرا من بدل جائے، میں غلط کاموں میں مبتلا ہوجائوں، مجھے اپنے ان رفیقوں سے ملا دے، اللہ مجھے نبی کریم ؐاور ابوبکرؓ کے سامنے رسوا نہ کرنا۔اللہ رسوا نہ کرنا‘‘۔ سیدنا عمرؓ کا چہرہ مبارک اپنے ساتھیوں یعنی نبی کریم ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓکی قبور کی طرف تھا۔ آنسو تھمے تو عمیرؓ سے پوچھا کہ کیا کرتے رہے، کیسے گزرتی ہے، کچھ مال بھی لے کے آئے ہو یا خالی دامن، خالی جیب۔ ’’جو اکٹھا کرتا تھا تقسیم کردیتا تھا، ہاں امیر ایک درہم بھی نہ بچا، ہوتا تو بخدا آپ کے پاس لے آتا‘‘۔ سیدنا عمرؓ کی آنکھیںتھیں کہ اپنے گورنر کی ’’روداد‘‘ سن کر بار بار بھیگ رہی تھیں۔ ’’اچھا اب تم واپس جائو‘‘۔ کچھ دن اپنے گھر والوں کیساتھ رہ سکتا ہوں؟ سوال لبوں پر آیا تو امیر پھر سے تڑپ اٹھے۔ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘‘۔ عمیر اپنے گھر چلے گئے۔ امیر المومنین نے ایک دوسرے ساتھی کو بلایا۔یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ پیوند تو آپؓ کی قمیص کا بھی مستقل حصہ ہوتے لیکن ایسی غربت، ایسی سادگی ایسا افلاس یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ حمص سے شاداب علاقے کا امیر اور یوں بے سروسامان ’’یہ درہم کی تھیلی ہے، عمیر کے گھر جائو، مہمان بن کے تین دن ساتھ رہو، جو دیکھو بتائو اور یہ درہم آتے ہوئے اسے دے آنا‘‘۔ حبیب، عمیرؓ کے ہاں چلے گئے۔ تین دن رہے۔ جَو کی سوکھی روٹی اور معمولی سا اس کے اوپر زیتون کا تیل۔ حبیب کو بھی یہی ملتا رہا، سو صبر شکر کرکے کھاتے رہے۔ نہ مال کا نشان نہ دولت کے آثار، غربت اور محض غربت۔تیسرے دن درہم کی تھیلی ان کو دی۔ ’’امیرالمومنین نے دی تھی‘‘ عمیر کہ مسکرا اٹھتے ہیں، ’’میرا حال دیکھنے آئے تھے؟‘‘۔ ’’جی ہاں امیر نے مجھے ایسا ہی کرنے کو بھیجا تھا‘‘ حبیب نے سر جھکا کے ہولے سے کہا۔ عمیرؓ نے تھیلی تھامی، تمام سکے نکالے، ایک کے بعد ایک غریب ہمسائے کو بھیجنا شروع کردئیے۔ہاں گورنر تھے نا، اپنے آبائی علاقے کے دورے پر آئے تھے، کیسے نا مال لٹاتے۔ سو کچھ ہی دیر میں ’’لکھ لٹ‘‘ نے سب لٹا دیا۔ تمام درہم ختم ہو گئے۔ کچھ ہی دن میں گورنر واپس جا رہا تھا، اپنی راجدھانی حمص کو۔ اس حال میں کہ پائوں میں جوتے نہ تھے، ہاتھ میں ایک موٹا سا ’’سونٹا‘‘، کندھے پر ایک رسی کہ جس کے ساتھ کچھ برتن تھے، الحمدللہ۔‘‘(2) دوسرا واقعہ ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں اور دماغ کھولنے کو کافی ہے۔ اتنا طاقتور، اتنی بڑی سلطنت کا حکمراں مگر حضرت عمرؓ کا کردار دیکھئے۔ کاش ہمارے اہل اقتدار کو بھی اللہ تعالیٰ کچھ ہدایت عطا فرما دے کہ یہ بھی حقوق العباد کو اپنا فریضۂ منصب سمجھ کر اپنے فرائض انجام دیں۔
’’حضرت عمرؓ اپنی اہلیہ کو بنت الاکرمین (اپنی اہلیہ اور انکے خاندان کے اکرام کی وجہ سے معزز لوگوں کی بیٹی) کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ ایک رات حضرت عمر ؓ مدینہ منورہ کے اطراف میں رعایا کے حالات کی خبرگیری کیلئے چکر لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ دیکھا جو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا، چنانچہ آپؓ اس کی طرف بڑھے کہ خیریت دریافت کریں، اچانک خیمے سے کراہنے کی آواز سنی تو آپؓ کو فکر لاحق ہوئی۔ آپ نے خیمے والوں کو پکارا تو ایک شخص نکلا۔ آپ نے پوچھا کون ہو؟ کہنے لگا دیہاتی ہوں، ضرورتمند ہوں، ہم نے سنا ہے کہ عمرؓ ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں تو اسی لئے ہم بھی آگئے۔
حضرت عمرؓ نے دریافت کیا یہ تکلیف دہ آواز کیسی ہے؟ دیہاتی نے کہا کہ میری بیوی ہے دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا : کیا تمہارے ہاں کوئی ہے جو اس کا خیال رکھے اور بچے کی پیدائش میں مددگار ہو؟ دیہاتی نے جواب دیا:کوئی نہیں ہے، بس میں اور میری بیوی ہم دو ہی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ٹھہرو میں تمہارے لئے کچھ کھانے پینے اور ولادت کے لئے کسی کو لیکر آئوں۔ یہ کہہ کر اپنے گھر گئے اور اپنی اہلیہ حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ بن ابی طالب سے کہا ’’یا ابنۃ الاکرمین‘‘ اللہ نے تمہارے لئے نیکی کا موقع عنایت فرمایا ہے۔ اہلیہ نے پوچھا وہ کیا؟ فرمایا مدینے کے نواح میں ایک بیچاری نادار عورت دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے۔ اہلیہ نے کہا:آپ کی چاہت ہو تو میں اس کی مدد کیلئے چلوں؟ آپؓ نے فرمایا اٹھ اے عزت والوں کی بیٹی! اور ولادت کے وقت پیش آنے والی ضروری چیزیں تیار کر! اور خود کھانے کی اشیاء (گیہوں گھی وغیرہ )کو اپنے سر پے لادا اور دونوں میاں بیوی چل پڑے۔خیمے پر پہنچ کر حضرت ام کلثومؓ بچے کی پیدائش میں مدد کرنے لگیں اور حضرت عمر ؓ اس شخص کے ساتھ خیمے سے باہر بیٹھ کر کھانا تیار کرنے لگے، خود ہی آگ پھونک رہے تھے یہاں تک کہ دھویں کے آثار آپ کی داڑھی مبارک پر نظر آنے لگے۔ اتنے میں حضرت ام کلثومؓ نے خیمے سے آواز دی ’’اے امیر المومنین! اس آدمی سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے اسے بیٹا عنایت فرمایا ہے اور اس کی بیوی بھی خیریت سے ہے‘‘۔ جب اس شخص نے (امیر المومنین کا لفظ) سنا تو حیرت کے مارے پیچھے ہٹنے لگا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ عمرؓ بن الخطاب ہیں۔ حضرت عمر ؓ ہنس پڑے اور اس سے کہا قریب آجائو۔! قریب آجائو۔! ہاں میں ہی خطاب کا بیٹا عمر ہوں اور جس نے تمہاری بیوی کی مدد کی وہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی بیٹی ام کلثومؓ ہیں۔ وہ شخص روتا ہوا سجدے میں گر پڑا کہ میری بیوی کے ہاں ولادت کی تکلیف میں اہل بیت اور خاندانِ نبوّت نے مدد کی؟ اور خود امیرالمومنین میرے اور میری بیوی کے لئے کھانا پکا رہے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے اس کی اہلیہ کے لئے کھانا دیتے ہوئے فرمایا: یہ لو! اور جب تک تم یہاں ٹھہرے ہوئے ہو میں مزید بھی لاتا رہوں گا۔ ‘‘
یہ ہے وہ طریقہ جو صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ سے لیا تھا، حضرت عمرؓ کا بلند مرتبہ صرف نماز، روزے اور تہجد گزاری کے باعث نہ تھا، اور نہ ہی صرف فتوحات ان کی رفعت کی وجہ تھی، بلکہ ان کا متواضع اور عاجزی سے بھرا ہوا دل تھا جو ہر وقت اللہ کی طرف لو لگائے ہوئے تھا۔ انہوں نے زمین میں انصاف اور حق کا بول بالا کیا، انھوں نے اپنا محاسبہ کیا قبل اس کے کہ قیامت کے دن اللہ محاسبہ کرتا۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ایمان دار لوگوں میں سے اپنا لیڈر منتخب کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے