اب کیا ہوگا؟

’’ابتدائے عشق میں ہم ساری رات جاگےاللہ جانے کیا ہوگا آگے، مولا جانے کیا ہوگا آگے‘‘وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جتنے سال پرانا مرض ہے، اتنے مہینے تولگیں گے اس سے نجات پانے میں لیکن خیر ہے، دیکھتے جائیں ہوتا کیا ہے۔ بیگم کلثوم نواز ایم این اے بننے کے بعد وزیراعظم بن جائیں گی؟ اور نااہل وزیراعظم بذریعہ اہلیہ اس بار بالواسطہ اہل ہو کر وزیراعظم ہائوس پہنچ جائیں گے جس کے بعد من چاہی ترمیمیں اورآئینی تراش خراش کے بعد گلیاں سونی ہو جائیں گی اور مرزا یار مرضی کی مٹر گشت کرتا پھرے گا۔ نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک۔ مردِ اول بلکہ یوں کہیں کہ ’’اول و آخر‘‘ جس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے کہ بقول شخصے فیصلے پر فیصلہ آگیا لیکن ایک چھوٹی سی اڑچن یہ ہے کہ ابھی تو بہت سے معاملات فیصلوں کے منتظر ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کتنے فیصلوں پر فیصلے آئیں گے؟ اتنے تو حلقے نہیں جتنے معاملے، مسئلے پائپ لائن میں ہیں۔ ہلکی آنچ پر سہج پکے سو میٹھا ہو بلکہ نمکین بھی ہو تو ہلکی دھیمی آنچ پر رکھ دیا جائے تولذیز ہو جاتا ہے جبکہ یہاں تو ہنڈیائیں نہیں دیگیں ہلکی آنچ پر دھری ہیں۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا۔’’ہم تو سانپ نکل جانے کے بعد لکیریں پیٹنے والے لوگ ہیں۔ دہشت گردی کا سیلاب بھی جب تک سر سے نہیں گزر گیا، ہم نے سر نہیں اٹھایا حالانکہ بروقت ری ایکٹ کرتے تو جانی نقصان بھی کم ہوتا، لاگت بھی کم آتی لیکن ہمارا اجتماعی کردار اور مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ وقت پر ایک ٹانکے کی بجائے بے وقتے نو (9)ٹانکوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں‘‘ اسوقت بھی کچھ ہرزہ سرا ہونٹوں کو ٹانکوں کی ضرورت ہے کہ آئین سے لیکر اداروں تک کے بارے نان اسٹاپ رطب اللسان ہیں تو کیا ضروری ہے کہ کل نو ٹانکے لگانے ضروری ہوجائیں لیکن اگر حکمت عملی ہی یہ ہے تو اور بات کہ کبھی کبھی شکار کو اس حد تک اندر آنے دیا جاتا ہے کہ گھیرا مکمل کیا جاسکے۔ اتوار کی رات ایک نجی ٹی وی چینل جیو نہیں پر کچھ ’’سینئر‘‘ تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن آف بنگلہ دیش سے لیکر سوات کے صوفی محمد تک کو "NIP THE EVIL IN THE BUD” کردیا جاتا تو معاملات وہاں تک نہ جاتے جہاں جا پہنچے لیکن شاید افراد ہی نہیں اداروں کا بھی اپنا اپنا ’’اسٹائل‘‘ ہوتا ہے۔ میری تو صرف اتنی دعا ہے کہ رب جو کرے وہ سب کے حق میں بھلا اور بہتر ہو۔باقی سارے ’’میچ‘‘ اپنی جگہ لیکن جو ’’میچ‘‘ اندرون خانہ جاری ہے، اس کا جواب نہیں۔ برادر کلاں اور برادر خورد کی ٹیموں میں شروع یہ میچ کہاں ختم ہوگا؟ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک بات طے کہ برادر خورد میاں شہباز شریف نے وضعداری، رکھ رکھائو بلکہ تابعداری کی انتہا کردی لیکن ’’ہر ایک عمل کا ردعمل ناگزیر ہے‘‘ والا قانون، قوانین قدرت کے کلیدی قوانین میں سے ایک ہے۔ ہر کھیل کے اپنے اپنے قواعد و ضوابط یعنی ’’رولز آف دی گیم‘‘ ہوتے ہیں۔ ’’پاور پلے‘‘ بھی ہے تو پلے ہی جس کے اپنے رولز ہیں اور اصول رول نمبر ون یہ کہ اقتدار کسی کا رشتہ دار نہیں ہوتا۔ شکست میں لپٹی ہوئی فتح نے ’’فاتح 120‘‘ کی خوداعتمادی یا خوش فہمی کا گراف مزید بڑھا دیا ہوگا جس کے نتائج کونظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ برادر کلاں نے تو جو کرنا تھا، کر ہی چکے ہیں،بال بہرحال برادر خورد کے کورٹ میں ہے جو ابھی تک شدید کنفیوژن کا شکار ہے لیکن ’’میں بولوں کہ نہ بولوں‘‘ والی صورت حال غیرمعینہ مدت تک ٹالی نہیں جاسکتی۔ جو کرنا ہو کریں لیکن نیم دروں نیم بروں اور کنفیوژن والی صورت حال مسئلہ کا حل نہیں۔ کنفیوژن برے فیصلے سے بھی گئی گنا زیادہ بری ہوتی ہے اوریہاں تو ’’وقت کم مقابلہ سخت‘‘ والی سچوئیشن کا سامنا ہے۔”IT IS NOT ENOUGH TO MAKE SURE YOU ARE ON THE RIGHT TRACK; YOU MUST ALSO MAKE SURE YOU ARE GOING IN THE RIGHT DIRECTION.”’’خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ یا ’’سو جوتے اور سو پیاز بھی‘‘ سے بچنا ضروری ہے ورنہ بن باس اور سنیاس لینے میں بھی کوئی برائی نہیں کہ اور بھی غم ہیںزمانے میںسیاست کے سوا۔ دوست احباب کے ساتھ ساتھ اپنے دل سے پوچھنا بھی ضروری ہوگا کہ خاندان نہیں پاکستان کیلئے کیا بہتر ہوگا کہ سوکھی ساکھی خالی خولی حب الوطنی بہت آسان ہے۔ انسان کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب دوپیاروں، دو محبتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔پردہ اٹھنےکی منتظر ہے نگاہاب کیا ہوگا؟ کےجواب میں صرف ایک دعا کہ رب العزت سب کو وہ فیصلے کرنے کی جرات و بصیرت عطا فرمائے جو ملک اوراس کے عوام کی بہتری اور بھلائی کا باعث ہوں۔آمین!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے