دنیا کو ہولناک ایٹمی جنگ سے بچانے والا چل بسا

ماسکو: دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانے والا سابق سوویت یونین افسر چل بسا۔
سابق سوویت افسر اسٹینسلے پیٹروف روس کے دارالحکومت ماسکو کے نواحی گاؤں میں 77 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اسٹینسلے پیٹروف نے سوویت یونین اور امریکا کے درمیان ایٹمی جنگ نہیں ہونے دی تھی جس کے نتیجے میں دنیا بڑی تباہی سے بال بال بچ گئی تھی۔ اس کارنامے پر انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا اور ان پر ایک دستاویزی فلم بھی بنی جس کا نام ’دا مین ہو سیوڈ دا ورلڈ‘‘ یعنی دنیا کو تباہی سے بچانے والا شخص ہے۔
تمام تر شہرت اور عالمی ہیرو کا درجہ ملنے کے باوجود اسٹینسلے پیٹروف نے قدرے گمنامی اور الگ تھلگ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ ان کا انتقال 19 مئی کو ہوا تاہم دنیا کو اس بارے میں خبر اس وقت ملی جب ان کے ایک جرمن دوست نے اپنے بلاگ میں ان کی وفات کا تذکرہ کیا۔
ستمبر 1983 میں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ جاری تھی ۔ اسٹینسلے پیٹروف ماسکو کے جنوب میں ایک خفیہ کمان مرکز میں ڈیوٹی افسر تعینات تھے کہ ایک روز اچانک الارم بج اٹھا کہ امریکا نے روس پر متعدد ایٹمی بین البراعظمی میزائل داغ دیے ہیں۔ اسٹینسلے کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے صرف چند منٹ تھے اور وہ موصول اطلاع کے مستند ہونے کے حوالے سے شش و پنج کا شکار تھے۔ اسٹینسلے نے اس الارم کو غلط قرار دے کر آگے اطلاع نہیں کی جس کے نتیجے میں سوویت یونین نے اپنے میزائل امریکا پر فائر نہیں کیے اور یوں دنیا بڑی تباہی سے بچ گئی۔ اگر اسٹینسلے اپنے کمانڈرز کو امریکی ایٹمی حملے کی خبر دے دیتے تو سوویت یونین لازما جواب میں اپنے ایٹمی میزائل امریکا پر داغ دے دیتا۔ تاہم انہوں نے سسٹم میں ممکنہ خرابی کی اطلاع دی جس پر تحقیقات ہوئی جس میں اسٹینسلے کا فیصلہ درست قرار پایا۔ اس وقت ان کی عمر 44 سال تھی اور وہ لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے۔
یہ واقعہ دنیا کے سامنے نہیں آیا اور سوویت فوج کے ریکارڈز میں خفیہ رہا۔ تاہم 1991 میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد فائلیں کھلیں تو دنیا کو اس واقعے کا علم ہوا اور لوگوں کو یہ سوچ کر ہی جھرجھری آگئی کہ اگر اس روز دونوں عالمی طاقتوں میں ایٹمی جنگ چھڑ جاتی تو کیا حال ہوتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے